قصوروار کون؟

ہمارا ملک ایسا ہے جہاں انصاف کا نظام انتہائی کمزور ہے۔جہاں انصاف نامی کوئی چیز نہیں۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہمارا رقبہ بھارت کی نسبت بہت کم ہے اگر ہمارا رقبہ بھی بہت بڑا ہوتا تو ہمارا حال کیا ہوتا۔چھوٹاسا ملک نہیں سنبھالا جارہا۔حالانکہ نظام حکومت بہت آسان حالت میں تقسیم کیا گیا ہے۔ملک کو صوبوں میں پھر صوبے شہروں میں اورہر صوبے کا وزیر اعلیٰ ہوتا ہے۔وزیراعلیٰ کے بعد بھی اختیارات نچلے درجے تک تقسیم ہوتے ہیں۔حکومت کو آسان طریقے سے تقسیم کیا گیا تاکہ لوگوں کے مسائل کے ساتھ نمٹنے میں آسانی ہو۔مگر پھر بھی میں نے پاکستان میں ایسی بستی،گاؤں،قصبہ، شہر نہیں دیکھا جہاں انصاف کا نظام قائم کیا گیا ہو۔جہاں غریب ومظلوم کو اس کا حق ملتا ہو۔جہاں مجرم کو سزا یقینی ملتی ہو۔جہاں محکوم کو اس کے حقوق ملتے ہوں جہاں گولی کی بجائے امن ہو ۔جہاں بارود کی بو کی بجائے محبت و بھائی چارے کی مہک ہو۔سب جانتے ہیں دہشت گردی بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ملک کا امن وامان تباہ ہوتا ہے مگر کچھ درندے ہمارے ملک میں موجود ہیں جو ملک کے شہریوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔سال کے آغاز میں ہی ایک دردناک واقعہ اس کی مثال ہے۔4جنوری کومعصوم بچی زینب اغواء ہوئی اور 6دن بعدمعصوم بچی کی لاش شہباز خاں روڈ کچرے کے ڈھیر سے ملی۔یہ خبر دل دہلا دینے والی تھی۔چاہے یہ ہماری بچی تھی لیکن اس ظلم کی آواز نہ صرف پاکستان میں سنی گئی بلکہ ہر جگہ سنی گئی۔ہر کوئی دل دہلا دینے والی خبر سنتے ہی تڑپ اٹھا۔9جنوری کو یہ واقعہ ہوا اوراس کے بعد ڈجکوٹ میں بھی 15سالہ لڑکے کو بدفعلی کے بعد قتل کردیا گیا۔بتایا جارہاہے کہ وہ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ جب کہ اس سے اگلے دن سرگودھا سے 18سال لڑکی کے ساتھ بھی یہی بھیانک سلوک ہوااسے اغواء کیا گیا پھر اس کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ان دو دنوں میں تین واقعات ہوئے مگر مجال ہے پولیس کوئی مجرم گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی ہو۔آخر سرگودھا میں لڑکی کو انصاف ملے گا؟یا ڈجکوٹ میں 15سالہ لڑکے کو انصاف ملے گا۔جواب ،نہیں ۔کیونکہ ہمارا سسٹم بہت کمزور ہے یہ مضبوط ہونے کی بجائے اور کمزور ہورہا ہے جو اس کی حالت پہلے تھی آج بھی وہی حالت ہے۔ہم غلطیوں کے باوجو د بھی نہیں سیکھتے۔جب ایسے واقعات معمول بن جائیں گے جب لوگوں کے بچے اسی طرح قتل ہوتے رہیں گے اور قانون نافذکرنے والے ادارے اور حکمران چین کی نیند سوئے ہوں گے ۔لوگوں کو انصاف نہیں ملے گا تو سڑکوں پر نکلنے کے علاوہ لوگوں کے پاس اور کیا چارہ رہ جائے گا۔جب ان کی سنی نہیں جائے گی تو وہ سڑکوں پر نکلنے کی بجائے کہاں جائیں گے۔گزشتہ ایک سال میں اسی طرح2 1بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا ۔مگر اس پر خاموشی کیوں اختیار کی گئی۔دراصل ہمارے قانون نافذ کرے والے ادارے اور پولیس بہت کمزور ہے۔ہماری پولیس جو ملک میں امن و امان قائم کرنے کی بجائے امن و امان کی صورتحال کی خراب کرنے کا باعث بن رہی ہے۔قصور میں مظاہرین پر گولیاں چلا کر ماڈل ٹاؤن والے سانحے کو دوبارہ دہرایا گیا۔جس سے دو افراد جاں بحق جب کہ چند زخمی ہوئے۔اب بتایا جائے ان دو لوگوں کا قاتل کون ہے۔ ان لوگوں کا جرم کیا تھا۔وزیراعلیٰ صاحب اس کا نوٹس کیوں نہیں لے رہے۔کیاپولیس کی گولیوں سے مرنے والے انسان نہیں تھے۔یہ حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ہمیں اس واقعے کا قصوروار تلاش کرنا ہوگا۔اس واقعے کا بنیادی قصوروار آخر کون ہے؟میں یہ سن کر حیران تھا کہ یہاں بچوں کو بتایا جارہا ہے اپنا تحفظ کیسے کرنا ہے مگر حکمرانوں کو نہیں سمجھایا جارہا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیسے کرنی ہے۔کیا آگے بھی معصوم پھول درندگی کی بھینٹ چڑھتے رہے گے۔کیا آگے بھی نوٹسز ہونگے اور کچھ افسر زمعطل ہونگے اور انصاف نہیں ملے گا؟کیا آگے بھی پولیس کے ہاتھوں بے گناہ شہری قتل ہوتے رہیں گے؟یہ سوال ہمیں حکمرانوں سے پوچھنا ہوگا۔کیا آپ آگے لوگوں کی زینب کو بچا سکیں گے۔مگر مجھے انتہائی افسوس ہوا کہ ایسے واقعات کے بعد بھی ہمارے حکمران سبق نہیں سیکھ سکے۔آپ دیکھ لیں گے سی سی ٹی وی ویڈیو کے بعد بھی مجرم نہیں پکڑا جا سکا کیوں کہ کیمرے کی ریزولوشن کم تھی آج اگر کیمرے ٹھیک ہوتے تو مجرم آسانی سے پکڑا جاتا۔وزیراعلیٰ فوری طور پر حکم دیں اور گھٹیا سی سی ٹی وی کیمرے ہٹا کر اعلیٰ کیمرے لگوائیں تاکہ کوئی فوٹیج میں آنے کے باوجود بچ نہ پائے۔آج ہم زینب کو تو نہیں بچا سکے مگر اور زینب بچا سکتے ہیں۔جب بھی کوئی مجرم ایسی گھٹیا ترین حرکت کرتا ہے تو اس کو ایسے عبرت کا نشانہ بنایا جائے کہ کوئی اور درندہ ایسی گھٹیا ترین حرکت کرنے پہلے سوچے کہ میرا انجام کیا ہوگا؟

ہمیں آج سے تہیہ کرنا چاہیے اور اس کے لیے مناسب اقدامات اٹھانا ہونگے۔اور ایک مضبوط سسٹم بنانا ہوگا ۔ایسے واقعات کا ہونا اب تو معمول بن چکا ہے۔جب تک مضبوط سسٹم نہیں ہوگا ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہے۔ہمیں پولیس کے نظام میں تبدیلی لانا ہوگی یہ تبھی ہی ممکن ہے جب حکمران سچی نیت کے ساتھ سوچیں گے۔ جو بچوں کے ساتھ جو ایسی گھٹیا حرکت کرتا ہے اس کو سرعام لوگوں کے سامنے لٹکایا جائے گااور اب پولیس کی فائرنگ سے مرنے والے قاتلوں کو بھی منظر عام پر لا کر سزائیں دی جائیں۔اگر یہ خبر بھی میڈیا نہ اٹھاتا تو شاید بچی کو انصاف ملنے کی امید نہ ہوتی اس طرح معصوم زینب کا معاملہ بھی 12بچیوں کی طرح دب جاتا۔آج وزیراعلیٰ صاحب اعلیٰ افسران کی میٹنگ بلائیں اور سوچیں اور ان حالات سے نمٹنے کی کوئی واضح اور ٹھوس حکمت عملی بنائیں۔ہر علاقے کے پولیس اسٹیشن میں کیمرے لگوائیں تاکہ کوئی رشوت یا بدیانتی بھی کرے تو اس کو سزا دی جا سکے۔جو پہلی بچی اغواء ہوئی تھی اگر پولیس اس وقت ہی سچی نیت سے لواحقین کی بات سنتی اور مجرم کو پکڑ کی سزا دیتی توآج زینب کے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔بچوں کے تحفظ کی فراہمی یقینی بنائے جائے۔ورنہ معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا اورزینب قتل ہوئی رہیں گی۔سڑکوں پر احتجاج ہوتا رہے گا ،پولیس مجرموں کو پکڑنے کی بجائے بے گناہ شہروں پر گولیاں چلاتی رہے گی۔

Mehar Ali Raza
About the Author: Mehar Ali Raza Read More Articles by Mehar Ali Raza: 18 Articles with 11623 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.