حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا شمار عشرہ
مبشرہ کی مقدس جماعت میں ہوتا ہے۔ آپ ؓ کا تعلق عرب کے مشہور خاندان قریش
سے تھا۔آپ ؓ کے دادا کا نام وہب تھا جو آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی
آمنہ کے والد تھے۔ اس طرح آپ ؓ کو نبی اکرم ﷺکے ماموں ہونے کا شرف حاصل ہے۔
ایک مرتبہ آپ ﷺ صحابہ کرام ؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ آپ ؓ کی آمد ہوئی،
تو آپ ﷺنے فرمایا۔ ’’ یہ میرے ماموں ہیں۔ ایسا اگر کسی کا ماموں ہو تو مجھے
دکھائے ‘‘۔
جب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو نبوت عطا ہوئی تو اُس وقت آپ ؓ کی
عمر سات سال تھی۔ آپ ﷺ کی دعوت پر فوراً لبیک کہا اور مشرف بہ اسلام
ہوئے۔آپ ؓ کے اس عمل پر آپ ؓ کی ماں سخت ناراض ہوئی اور انتہائی غیظ و غضب
کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا ! یہ کیسا دین ہے جو تم نے اختیار کرلیا ہے۔
جس نے تم کو آباؤ اجداد کے دین سے متنفر کردیا ہے اور اگر تم نے اس نئے دین
کو ترک نہ کیا تو میں کھانا پینا ترک کر کے خود کو ہلاک کردوں گی۔ پھر بعد
میں تم کو پشیمانی اور ندامت ہوگی ‘‘۔آپ ؓ کے لئے یہ بہت بڑی آزمائش تھی۔
ایک طرف ماں تھی اور دوسری طرف سچا دین جو انہوں نے قبول کیا تھا۔ اس
انتہائی مشکل وقت اور آزمائش کی گھڑی میں بھی آپ ؓ کے قدم ذرا بھی نہ
ڈگمگائے۔آپ ؓ نے نہایت ادب سے اپنی ماں سے کہا ۔ ’’ماں! ایسا نہ کروکیوں کہ
میں کسی بھی قیمت پر اس دین برحق کو نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔لیکن آپ ؓ کی ماں
اپنی دھمکی پر اڑ گئی اور کھانا پینا چھوڑ دیا۔ کئی روز کی مسلسل فاقہ کشی
سے کافی نڈھال ہوگئی اور جسمانی اعضاء ڈھیلے اور کمزور پڑ گئے۔ آپ ؓ وقفے
وقفے سے اپنی ماں کے پاس جاتے اور کہتے کہ کچھ کھا لو۔ لیکن ماں اپنی ضد پر
قائم رہی۔ بالآخر آپ ؓ نے بڑی جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’
ماں ! یہ بات درست ہے کہ میں تجھ سے شدید محبت کرتا ہوں لیکن میں تجھ سے
کہیں زیادہ محبت اﷲ اور اُس کے رسول حضرت محمد ؐ سے کرتا ہوں۔ خدا کی قسم !
اگر تمہاری ہزار جانیں بھی ہوں اور وہ ایک ایک کرکے تمہارے جسم سے نکل
جائیں تب بھی میں اپنے سچے دین کو نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔ بیٹے کا اٹل اور آخری
فیصلہ سُن کر ماں اپنی ضد سے باز آگئی اور کھانا پینا شروع کردیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ غزوہ بدر ، اُحد ، خندق ، فتح مکہ
، تبوک ، حنین وغیرہ تمام غزوات اور معرکوں میں آپ ﷺ کے ہمراہ شریک ہوئے۔
آپ ؓ کو اسلام کا پہلا تیر انداز ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔اُحد کی لڑائی کے
وقت آپ ؓ کم عمر تھے۔ دشمنوں کا حملہ نہایت سخت تھا۔ آپ ؓ حضرت محمد ؐ کے
ہم رکاب تھے۔ آپ ؐ اپنے ترکش سے تیر نکال کر حضرت سعد ؓ کو دیتے تھے اور آپ
ؓ دشمن پر تیر برساتے تھے۔ اسی لڑائی میں آپ ؓ کی بہادری کا حال دیکھ کر آپ
ﷺ نے پکار کر فرمایا۔ ’’ اے طاقتور لڑکے! میرے ماں باپ تجھ پر قربان ، تیر
چلائے جا ‘‘۔حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ؐ نے کسی کے لئے کبھی اپنے
ماں باپ دونوں کا اس طرح اکٹھا ذکر نہیں کیا۔ یہ سعادت صرف آپ ؓ کو ہی حاصل
ہوئی۔
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے جب ایرانی تاج و تخت سے جنگ کرنے کا فیصلہ
کیا تو لشکر کا سپہ سالار آپ ؓ کو نامزد کیا۔ آپ ؓ نے بیس ہزار جانثاران
اسلام کے ساتھ قادسیہ کے مقام پر ڈیرہ ڈالا۔ جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا
ہوا،تو آپ ؓ نے ڈیڑھ لاکھ مسلح ایرانی لشکر سے مجاہدین اسلام کو بڑی
جوانمردی سے لڑایا۔یہاں تک کہ ایرانیوں کو شکست فاش ہوئی اور یوں فاتح
ایران حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں ایرانی شہنشانیت
کا خاتمہ ہوا۔آپ ؓبہادر ، دلیر ، پرہیز گار اور عبادت گزار تھے۔ اس کے
علاوہ علم و فضل کے اعتبار سے بھی صحابہ کرام ؓ میں نمایاں مقام کے حامل
تھے۔خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے اندر فتنے اور
فساد کی آگ بھڑک اُٹھی تو اس موقع پر آپ ؓ نے کسی گروہ کا ساتھ نہ دیا بلکہ
علیٰحدہ رہے۔آپ ؓ نے 674 ء میں ستر برس کی عمر میں وفات پائی اور جنت
البقیع میں مدفون ہوئے۔
|