افغان افیون جنگ میں امریکی کردار

نومبر میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے ڈرگز اینڈ نارکوٹکس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2017ء میں افغانستان میں افیون کی کاشت 63فیصد اضافے کے ساتھ ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ طالبان کے دور حکومت کے آخری سال افیون کی کاشت صرف 221ٹن رہ گئی تھی جو اب 2017ء میں 9ہزار ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ اس طرح 2016ء میں 4800ٹن کے مقابلے میں موجودہ اضافہ 87فیصد ہے۔ اگرچہ امریکی افیون کی کاشت کا ذمہ دار طالبان کو قرار دیتے ہیں لیکن اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ امریکی الزامات کی نفی کرتی ہے۔ کیونکہ افیون کی کاشت شمالی افغانستان کے علاقوں بلخ، جوزجان، بغلان اور سری پول کے صوبوں میں بڑھی ہے۔ چند سال قبل یہ صوبے افیون کی کاشت سے مکمل طور پر پاک تھے اور دوسری زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان صوبوں پر طالبان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ سی آئی اے اور بلیک واٹر جیسی تنظیموں کو فنڈز فراہم کرنے کے لئے افیون کی کاشت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ افغان ڈیفنس فورسز کی بڑی تعداد فود افیون کے عادی ہیں جس کی وجہ سے وہ اخلاقی گراوٹ اور جسمانی کمزوری کا شکار ہیں۔ یہ سب کچھ دنیا کی اشرافیہ سپر پاور کی آنکھوں کے نیچے افغانستان میں ہو رہا ہے۔ اس بات کی دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ امریکہ افیون کے گیم پلان کے متاثرین کے دکھ درد کو محسوس کرے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ اپنے عوام اور دنیا کے انسانوں کے لئے بھی ہمدردی رکھے گا۔ اپنے ملک کے اندر امریکہ اس لعنت پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ایسے عملی اقدامات کرے گا جس سے افغانستان بھی افیون کی لعنت سے بچ سکے۔

بہرحال اب یہ بات کھلا راز ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کا مقصد نہ صرف اس ملک کے قدرتی وسائل پر قبضہ ہے بلکہ اس ملک میں پوست کی پیداوار جس کا کاروبار اسلحے کی مانند دنیا کے منافع بخش کاروباروں میں ہوتا ہے، میں بھی واشگٹن کا خاص کردار ہے۔ افغانستان میں منشیات کی پیداوار امریکی سرپرستی میں 64 فیصد اضافے کے ساتھ ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی، 3 لاکھ 40 ہزار ہیکٹرز پر پوست کی فصل کاشت ہورہی ہے۔افغانستان میں پوست کی کاشت میں یک دم بے پناہ اضافہ ہوگیا، رواں برس گزشتہ سال کے مقابلے میں دگنی پوست کاشت کی گئی۔افغان وزیر برائے انسداد منشیات سلامت عظیمی نے وائس آف ایشیا پشتو سروس کو بتایا کہ بدامنی کے سبب حکومت پوست (پوپی سیڈ) کی پیدوار کو روکنے کے پروگرام پر عمل درآمد نہیں کرسکی جس کے سبب پوست کے پودے کی کاشت یک دم 64 فیصد اضافے کے ساتھ 3 لاکھ 40 ہزار ہیکٹرزیعنی 8 لاکھ 40 ہزار ایکڑ تک پہنچ گئی ہے۔ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ بدعنوانی اور حکومتی کمزوریوں کے سبب ریاست کو منشیات کے سونامی کی تباہی کا سامنا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پوست کی کاشت میں 2015 کے مقابلے میں 46 فیصد اضافہ ہوا، یہ کاشت دولاکھ ایک ہزار ہیکٹر رقبے پر تھی جس سے چار ہزار 700 ٹن افیم حاصل کی گئی۔وائس آف ایشیا پشتو سروس کو ذرائع نے بتایا کہ رواں برس پوست کی کاشت کے ذریعے 10 ہزار ٹن سے زائد افیم حاصل کی گئی جسے ریفائن کرکے ہیروئن حاصل کی گئی۔اقوام متحدہ کے شعبہ جرائم اور منشیات کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس افغانستان کی مجموعی قومی پیداوار کا 16 فیصد پوست کی کاشت تھی جو کہ پورے ملک کی زراعت کا دو تہائی حصہ تھی(یعنی پورے ملک کی زراعت کے تین حصے کیے جائیں تو ایک حصہ دیگر فصلیں اور بقیہ دو حصے پوست کی کاشت کی گئی)

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں بدامنی، تشدد، بغاوت اور پوست کی کاشت کے عوامل کے سبب پرائیویٹ اینڈ پبلک انویسٹمنٹ کو خطرات کا سامنا ہے۔ خیال رہے کہ سال 2001 میں طالبان کی حکومت میں پوست کی کاشت پر پابندی عائد کردی گئی تھی تاہم ان کی حکومت ختم ہونے اور امریکی و اتحادی افواج کی آمد سے یہ کاشت یک دم پہلے سے بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔امریکا کی جانب سے پوست کی کاشت کے سوا دیگر فصلوں کی کاشت کے لیے کئی بار کسانوں کی حوصل افزائی کی مد میں اب تک اربوں روپے خرچ کیے گئے مگر نتیجہ کچھ خاص نہ نکلا۔افغانستان سے ان کے وزیر برائے انسداد منشیات اطلاع دے رہے ہیں کہ اس سال افغانستان میں افیون کی پیداوار میں 64 فی صد ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ وہ ملک کے عدم استحکام کی صورت حال پر ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان اور دیگر شدت پسند گروہوں نے انتظامیہ کو عدم استحکام کا شکار کرکے مزید زمین ہتھیالی ہے، بڑا گھما پھرا کر بات کی گئی ہے ورنہ مختصر یہ کہ افغان حکومت مزید سکڑ گئی ہے اور طالبان نے اپنی زیر قبضہ علاقوں میں مزید اضافہ کرلیا ہے۔ لیکن منشیات کی پیداوار میں اضافہ کا اس سے کیا تعلق ہے۔ کیوں کہ طالبان نے تو اپنے دور حکومت میں افیون کی پیداوار میں انتہائی کمی کی تھی۔ اور یہ ان کی ایک بڑی کامیابی تھی آج بھی اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ کہ جب سے امریکا نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اس کے بعد سے افیون کی پیداوار میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا گیا۔

امریکی اہل کار کہتے ہیں کہ ہتھیاروں کی رقوم اور دیگر اعانت کے عوض طالبان اسمگلروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی 90 فی صد منشیات افغانستان میں پیدا ہورہی ہے۔ آخر امریکا بہادر اس کو روکنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکا۔ وجہ یہی ہے کہ وہ مالی طور پر اس پرکشش دھندے کو روکنا ہی نہیں چاہتا۔ نہ ہی اس کو روکنا اس کے بس میں ہے۔ اقوام متحدہ کا اینٹی نارکوٹک بورڈ اور انسداد جرائم کے ادارے کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں منشیات رشوت ستانی اور بدعنوانیوں کو رواج دینے میں مغربی ملکوں اور مغرب کی غیر سرکاری تنظیموں اور این جی اوز کا کردار سب سے بڑا ہے۔ افغانستان کے 54 فی صد عوام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ صرف مغربی ممالک اور مغربی این جی اوز ہی ملک میں بدعنوانیوں کو رواج دینے کے ذمے دار ہیں کیوں کہ انہیں صرف اپنی جیبوں اور اپنے فائدے کی فکر ہے۔ سب سے پہلے اپنا فائدہ بلکہ سب کا سب اپنا فائدہ امریکا کا اصول رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پردے میں امریکا کا اصل ہدف سینٹرل ایشیا کے قدرتی ذخائر تک پہنچنا تھا۔ اس کے لیے اس کا منصوبہ طالبان کے زیر تسلط علاقوں خو استعمال کرنا تھا۔ لہذا طالبان نے جب 1996 میں 2 سال کے مختصر عرصے میں افغانستان کے 90 فی صد علاقے پر قبضہ کرلیا تو امریکا نے اس پر ذرا تشویش کا اظہار نہ کیا بلکہ خوشی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا۔ اس مختصر عرصے کے دوران طالبان نے جنگ سے دہکتے افغانستان میں امن وامان قائم کیا، لوٹ مار اور چوری کا خاتمہ کیا، منشیات کی تجارت اور پیداوار پر مکمل پابندی لگائی، اسلامی قوانین کے تحت انصاف فراہم کیا، یہ سب کرنے کے لیے طالبان کے پاس نہ ٹیکنالوجی تھی، نہ مال و زر اور اسلحے کے انبار ان کی یہ حیرت انگیز کامیابی کی وجہ ان کا اخلاقی اور دینی اعتبار سے بلند معیار اور ان کی نیک نیتی اور بے لوثی تھی۔

لیکن جب طالبان نے امریکی ہاتھوں میں کٹ پتلی بننے سے انکار کیا اور اسامہ بن لادن جو سعودی حکومت کا باغی تھا اس کی پشت پناہی کی تو امریکا طالبان سے بدظن ہوگیا۔ بس اب کیا تھا۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے ان کے خلاف زبردست مہم شروع کی، ان کے شرعی قوانین کے نفاذ کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔ طالبان کے عرب مہمان اسامہ بن لادن کو امریکا نے دہشت گرد قرار دے کر ان سے مطالبہ کیا کہ اسے فوری طور پر امریکا کے حوالے کیا جائے لیکن طالبان نے اس مطالبے کو یکسر مسترد کردیا اور الزامات کو سچ ماننے سے انکار کرتے ہوئے امریکا سے ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ امریکا نے ثبوت فراہم کرنے کے بجائے 7 اکتوبر 2001 میں افغانستان پر اپنی بھرپور فضائی قوت کے ساتھ حملہ کردیا۔ ہفتوں ہزاروں ٹن بارود اور کیمیائی مواد افغانستان پر پھینکا جاتا رہا۔ امریکا اب اپنے چوالیس ممالک کی افواج کے ساتھ کابل میں اترا اسے یقین تھا کہ طالبان کی فوجی قوت ختم کردی گئی ہے۔ لیکن سوچ محض چند سال کے اندر غلط ثابت ہوئی۔ امریکی فوجی اداروں کے سربراہ اور تھینک ٹینک کے دانش ور خود ہی اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ امریکا نے اپنی شکست کے آثار کو دھندلانے کے لیے ڈالر کی قوت کے ساتھ طالبان سے مذاکرات کی کوششیں شروع کیں لیکن بارود کی طاقت کی طرح ڈالر کی طاقت بھی شکست کے آثار اور رفتار کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں اضافے کی خبر پاکستان کے لیے بھی سرخ بتی یعنی خطرے کے نشان کی حیثیت رکھتی ہے، کیوں کہ افغانستان سے سالانہ تیس ارب ڈالر کی منشیات پاکستان اسمگل کی جاتی ہے، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس میں سے دو سو پچاس ٹن سے زائد منشیات پاکستان میں استعمال کی جاتی ہے۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کو دہشت گردی کے ساتھ ساتھ منشیات کے پھیلا کا بھی سامنا ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کو امریکی حکومت کے سامنے یہ اعداد و شمار بھی رکھنا چاہیے۔ افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ امریکی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی ناکامی صرف فوجی میدان ہی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ افیون کی کاشت روکنے جیسا معمولی کام بھی نہیں کرسکا ہے۔

Raja Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 105095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.