جب زندگی شروع ہوئی۔۔۔۔۔ حصہ ١۸

ہم ایک دفعہ پھر میدان حشر میں آ چکے تھے ۔ مگر اس دفعہ ہم عرش الٰہی کے دائیں طرف کھڑ ے تھے ۔ عرش الٰہی کی تجلیات سے زمین و آسمان منور تھے ۔ کامیاب لوگوں کے لیے یہ تجلیات مسرت و شادمانی کا پیام تھیں جبکہ مجرموں پر یہ قہر بن کر نازل ہورہی تھیں ۔ عرش الٰہی کے چاروں طرف فرشتے ہاتھ باندھے حلقہ در حلقہ کھڑ ے تھے ۔ سب سے پہلے حاملین عرش تھے اور ان کے بعد درجہ بدرجہ دیگر فرشتے ۔ ان فرشتوں کی زبان پر حمد، تسبیح اور تکبیر و ثنا کے کلمات تھے ۔ حضرت عیسیٰ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو چکے تھے ۔ جبکہ اول سے آخر تک سارے عیسائیوں کو میدان حشر میں موجود فرشتوں نے دھکیل کر عرش کے قریب کر دیا تھا۔ ارشاد ہوا:
’’عیسی ابن مریم قریب آؤ۔‘‘
فرشتوں نے سیدنا عیسیٰ کے لیے راستہ چھوڑ دیا اور وہ چلتے ہوئے عرش الٰہی کے بالکل قریب آکھڑ ے ہوئے ۔ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے اور گردن جھکی ہوئی تھی۔ ارشاد ہوا:
’’عیسیٰ تم نے اپنی قوم کو میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ تمھیں کیا جواب ملا؟‘‘
’’مالک مجھے کچھ علم نہیں ۔ غیب کا علم تو صرف تجھے ہے ۔‘‘

ان کی یہ بات اس حقیقت کا بیان تھی کہ حضرت عیسیٰ معلوم نہ تھا کہ ان کی امت نے ان کے بعد دنیا میں کیا کیا تھا۔ حضرت عیسیٰ کے اس جواب پر میدان حشر میں ایک خاموشی چھا گئی۔ کچھ لمحے بعد آسمان پر ایک دھماکہ ہوا۔ تمام نظریں آسمان کی طرف بلند ہوگئیں ۔ آسمان پر ایک فلم سی چلنے لگی۔ اس فلم میں مسیحی حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کے بتوں کے سامنے سر ٹیک رہے تھے ۔ بازاروں میں صلیب پکڑ ے لوگ جلوس نکال رہے تھے ، گرجوں میں مسیح و مریم کی پرستش ہوہی تھی، ان کی تعریف کے نغمے گائے جا رہے تھے ۔

میں یہ مناظر دیکھتا ہوا یہ سوچ رہا تھا کہ عیسائیوں نے انسانی تاریخ کے سب سے بڑ ے شرک کو جنم دیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰ کو توحید ہی کی دعوت دے کر بھیجا تھا۔ ان کے زمانے میں یہودیوں نے شریعت موسوی میں طرح طرح کی فقہی موشگافیاں کر کے اس پر عمل کو بہت مشکل بنادیا تھا۔ ان لوگوں نے خدا اور بندے کے ایمانی اور محبت آمیز تعلق کو ایک بے روح قانونی تعلق میں بدل دیا تھا۔ چنانچہ وہ چند ظاہری اور معمولی اعمال پر تو خوب زور دیتے مگر ایمان و اخلاق کے تمام اخلاقی احکام کے معاملے میں ان پر غفلت طاری تھی۔ ایسے میں ان کی طرف سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔ آپ نے بڑ ی شدت سے بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی اور اخلاقی دیوالیے پن پر تنقید کی۔ اپنے زمانے کے مذہبی لوگوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا: ’’اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہو اور دکھاوے کے لیے نمازوں کو طول دیتے ہو، تمہیں زیادہ سزا ہو گی۔ ۔ ۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تو دہ یکی (یعنی عشر: پیداوار کی زکوٰۃ) دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے ۔ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے وہ بھی نہ چھوڑ تے ۔ اے اندھے راہ بتانے والوں جو مچھر کو تو چھانتے ہوا ور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لُوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں ۔ اے اندھے فریسی پہلے پیالی اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہوجائیں ۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں ۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راستباز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں بے دینی اور ریاکاری سے بھرے ہو۔‘‘

آپ کی اس تنقید پر یہودی آپ کے سخت دشمن ہوگئے اور یہاں تک کہ وہ آپ کے قتل پر آمادہ ہوگئے ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے شر سے بچاکر آسمانوں پر اٹھالیا۔ بدقسمتی سے مسیح کے بعد سینٹ پال نامی آپ کے ایک کٹر یہودی دشمن نے آپ کی پیروی کا لبادہ پہن کر آپ کی پوری تعلیمات کو مسخ کر کے رکھ دیا۔ ایک طرف اس نے اعلان کیا کہ شریعت کی پابندی صرف یہودیوں کے لیے ضروری ہے ، دیگر لوگوں کے لیے نہیں ۔ دوسری طرف اس نے حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کو الوہیت کے مقام پر فائز کر دیا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ عیسائیت دنیا کا سب سے بڑ ا مشرکانہ مذہب بن گیا۔ عیسائی مسیح کو خدا کا بیٹا سمجھتے ، مشکل کشا سمجھ کر ہر مصیبت میں ان کا نام لیتے ۔ مگر یہ ایک جھوٹ تھا جس کا جھوٹ ہونا آج بالکل کھل گیا ہے ۔

میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ میدان حشر میں عیسائیوں کے رونے کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔ عیسائیوں کو اپنے کرتوت صاف نظر آ گئے تھے اور ان کا بھیانک انجام جہنم کی شکل میں منہ کھولے ان کے سامنے کھڑ ا تھا۔ یکایک بہت سے مسیحی چلانے لگے : ’’خداوند ہم نے مسیح کی تعلیمات پر عمل کیا تھا۔ تو نے اپنے مسیح کو ہماری طرف بھیجا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ وہ تیرا بیٹا ہے جسے تو نے ہماری نجات کے لیے بھیجا ہے ۔‘‘
ایک تیز ڈانٹ فضا میں بلند ہوئی اور سب لوگ ٹھٹک کر خاموش ہوگئے ۔ مسیح سے پوچھا گیا: ’’عیسیٰ! کیا تم نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو اپنا معبود بنالو۔‘‘
گرچہ یہ ایک سادہ سا سوال تھا، مگر یہ سنتے ہی حضرت عیسیٰ پر لرزہ طاری ہو گیا۔ ان کے پاؤں کے لیے ان کا بوجھ اٹھانا مشکل ہو گیا۔ یہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’عیسیٰ تم میرے محبوب پیغمبر ہو۔ میرے پیغمبر میرے حضور ڈرا نہیں کرتے ۔ اطمینان سے میری بات کا جواب دو۔‘‘
اس جملے کے ساتھ ہی دو فرشتے حضرت عیسیٰ کے قریب آئے اور انہیں سہارا دے کر ایک نشست پر بٹھادیا۔
یہ منظر انتہائی عبرتناک تھا۔ سیدنا عیسیٰ خدا کے ایک انتہائی عزیز اور محبوب پیغمبر تھے ، مگر بدقسمتی سے وہی انسانی تاریخ کی ایسی ہستی بن گئے جنھیں سب سے بڑ ے پیمانے پر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں لاکھڑ ا کیا گیا۔ ان سے دعا و مناجات کی جاتی، ان کی حمد و تعریف کی جاتی، ان کی عبادت و پرستش کی جاتی۔ مگر آج اللہ تعالیٰ کے ایک سوال پر ان کی جو حالت ہوگئی تھی وہ ان کو خدا سمجھنے والوں کو خون کے آنسو رلانے کے لیے بہت تھی۔ آج سب نے جان لیا تھا کہ خدا کے مقابلے میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

میں نے دل میں سوچا کہ ایک ایک کر کے خدا کے ایسے ہی دیگر صالح بندے آئیں گے جنھیں دنیا میں لوگ ایسے ناموں اور صفات سے پکارتے تھے جو صرف خدا کو زیب دیتی ہیں ، مگر آج ان میں سے ہر شخص انکار کر دے گا کہ ہم نے لوگوں سے اس نوعیت کی کوئی بات کہی تھی۔ ہر ایک کا حال یہ ہو گا کہ مسیح کی طرح کسی میں بھی خدا کے سامنے کھڑ ے ہونے کی طاقت نہیں ہو گی۔ کاش ان کے نام پر دھوکہ کھانے والے لوگ خدا کی یہ عظمت پہلے ہی دریافت کر لیتے ۔ کاش لوگ انسانوں کو خد اکے مقابلے میں نہ لے کر آتے ۔ اس دوران میں حضرت عیسیٰ پر سے خشیت الٰہی کا غلبہ کچھ کم ہوا تو وہ کرسی سے کھڑ ے ہوئے اور عرض کرنے لگے : ’’آقا تو پاک ہے! میرے لیے کیسے روا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو تو اسے جانتا ہوتا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے تو ان سے وہی بات کہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا رب بھی۔ اور میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تو ہی ان پر نگران رہا۔ اور تو تو ہر چیز پر گواہ ہے ۔ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو غالب اور حکمت والا ہے ۔‘‘
یہ سن کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’آج صرف سچائی اپنے اختیار کرنے والے سچے لوگوں کو فائدہ دے سکے گی۔‘‘
پھر حضرت عیسیٰ کو رخصت کر دیا گیا اور فرشتوں کو حکم ہوا: ’’عیسیٰ کی امت میں سے جس کسی کا علم اور عمل عیسیٰ کے پیغام کے مطابق ہے ، اسے ہمارے حضور پیش کیا جائے ۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 26514 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.