بھارتی فوج کے سربراہ کی دھمکیوں کے فوری بعد کشمیر کی
جنگ بندی لکیر اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی بلا اشتعال جارحانہ کارروایاں
بڑھ رہی ہیں۔ بھارتی فوج نے راولاکوٹ کے بعد کوٹلی کے جندروٹ سیکٹر میں بلا
اشتعال جارحیت کی۔ کمیونیکیشن لائن کی مرمت کرنے والے پاک فوجیوں پر اندھا
دھند فائرنگ سے چار اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ پاک فوجی کی جوابی کارروائی
میں تین بھارتی فوجی مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ جنگ بندی لکیر پر بھارتی
جارحیت کا نشانہ نہتے شہری بھی بن رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے علاقے میں بھارتی
فوج کی گولہ باری اور فائرنگ سے گزشتہ ہفتہ میں دو عمر رسیدہ خواتینشہید
ہوئیہیں۔ بھارت بچوں اور راہگیروں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ کھیتوں میں کام
کرنے والے کسان اور جنگلوں میں مال مویشی چرانے والے دیہاتی، گھاس کاٹنے
والے مزدرو بھی بھارتی جارحیت سے نہ بچ سکے۔ 25دسمبر2017کو راولاکوٹ کے رکھ
چکری میں بھارتی فوج نے پاک فوج کے تین اہلکاروں کو شہید اور ایک کو زخمی
کر دیا۔ بھارت کی یہ جارحیت پاکستان میں قید اس کے جاسوس کلبھوشن جادیو سے
اس کی والدہ اور اہلیہ کی ملاقات کے بعد سامنے آئی۔ یہ ملاقات پاکستان نے
انسانی ہمدردی کے تحت کرائی۔ تا ہم بھارت نے پاکستان کی خیر سگالی کا جواب
جارحیت سے دیا۔ بھارت نے ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام کا قتل عام
جاری رکھا ہے ۔ روزانہ کشمیر میں ریاستہ دہشت گردی کے واقاعت رونما ہو رہے
ہیں۔ نہتے مظاہرین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں طلباء
اور نوجوانوں کو پیلٹ فائرنگ ، پاوا شیلنگ، دیگر زہریلی گیسوں سے معذور
بنایا جا رہا ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقمات قائم
کئے گئے ہیں۔ لا تعداد نوجوان بھارتی انٹرگیشن سنٹرز اور قید خانوں میں
جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج بنا دیئے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی
تنظیموں اور آزاد میڈیا کا مقبومیر میں داخلہ ممنوع ہے۔ شہری آزادیاں سلب
ہیں۔ تو دوسری طرٖ جنگ بندی لکیر اور ورکنگ باونڈری پر کشیدگی کو بڑھایا جا
رہا ہے۔ ایک طرف بھارت نام نہاد سرجیکل سٹرائیکس کیے دعوے کر رہا تھا تو
دوسری طرف بھارتی فوجی چیف پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ سال
2017اسی طرح گزر گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت کی نرینفر مودی حکومت کو
پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور جنگی ماحول ہی فائدہ دیتا ہے۔ کیوں کہ اسی
ماحول مین بی جے پی نے کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا اور
کامیابی حاصل کی۔ مودی حکومت نے بھارتی عوام کے دلوا میں پاکستان اور
مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اشتعال ڈال دیا ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کی سیاست
ہی اسی تصور پر چل رہی ہے۔ جب کہ پاکستان نے بھارتی عوام کے ساتھ دوستی اور
تجارت کے فروغ کے لئے ہی مودی حکومت کو بار بار بات چیت کی دعوت دی۔ مقبوضہ
کشمیر پر بھارت کا جابرانہ قبضہ بھی بھارتی عوام کے سامنے کسی اور انداز
میں پیش کیا جاتا ہے۔ جنوبی بھارت کے عوام کو مسلہ کشمیر کا کچھ پتہ نہیں۔
وہ اقوام متحدہ کی قرادداوں کے بارے میں بھی شاید کچھ نہیں جانتے۔ مگر مودی
حکومت نے عوام کو پاکستان سے خوفزدہ کر دیا ہے۔ انہیں یہ بتایا جا رہا ہے
کہ پاکستان سے انہیں خطرہ ہے۔ جنگ بندی لکیر پر بھارتی جارحیت کو بھی
بھارتی عوام کے مفاد میں پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے بھارتی جارحیت کے بعد
کئی بار بھارتی سفارتکاروں کو دفتر خارجہ طلب کیا اور انہیں انتباہ بھی کیا۔
مگر بھارت میں اس عمل کو بھی کشیدگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ رواں برس
بھی پاکستان اور بھارت کے درمیاں حساس تنصیبات اور قیدیوں کی فہرستوں کا
تبادلہ ہوا۔ بنکاک میں دونوں ممالک کے سلامتی مشیروں کی بھی ملاقات ہوئی۔
مگر بھارت نے جارحیت ترک نہ کی۔ ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہارٹ لائن بھی کام
نہ آ سکی۔ پاک رینجرز اور بی ایس ایف حکام کی ملاقاتیں بھی بھارتی جارحیت
بند نہ کراسکیں۔
رواں سال پاکستان میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ بھارت میں 2019عام انتخابات
کا سال ہے۔ اس لئے خدشہ ہے کہ بھارتی جارحیت اور اشتعال انگیزی جاری رہے گی۔
نریندر مودی انتخابات ایشوز کی بنیاد پر نہیں بلکہ پاکستان سے عوام کو ڈرا
دھمکا کر جیتنا چاہتے ہیں۔ پاکستان براہ راست بھارتی عوام کو حقائق سے کیسے
با خبر رکھ سکتا ہے۔ بی جے پی نے جو نفرت اور انتقام کے بیج بوئے ہیں۔ اس
نفرت کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سیاسی، سفارتی یا میڈیا کے
محاذ پر اس جانب کچھ توجہ دی جائے۔ تا ہم بھارتی عوام کو انتہا پسند حکومت
کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے۔ بی جے پی نے اس سلسلے میں کانگریس اور
دیگر اپوزیشن کو بھی بے بس کر دیا ہے۔ منی شنکت ائر اس کی ایک مثال ہیں۔
دفتر خارجہ کے مطابق بھارتی فوج نے جنگ بندی لکیر اور ورکنگ باؤنڈری کی
2018کے ان پہلے دنوں میں 70سے زیادہ بار خلاف ورزی کی ہے۔ بھارت کی جانب سے
2003سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیاں علاقائی امن اور سلامتی کے لئے خطرہ بن
رہی ہیں۔ بھارتی جارحیت سے پاک بھارت کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔ شاید
بھارت بھی یہی چاہتا ہے۔ بھارت سلامتی کونسل کی قرادادوں کے تحت اقوام
متحدہ کے فوجی مبصرین کو بھی کام کرنے نہیں دیتا۔منڈیٹ کے مطابق ان کے پیشہ
ورانہ کام میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مسلسل
خلاف کر رہا ہے۔ اسے سیز فائر معاہدہ کا احترام نہیں۔ تازہ بھارتی جارحیت
بھارتی فوجی سربراہ جنرل راوت کی جانب سے پاکستان کی جوہری صلاحیت کو ایک
فریب قرار دینے کے بعد ہوئی ہے۔ تا ہم سچ یہ ہے کہ بھارت ایک غیر ذمہ دار
ایٹمی ملک ہے۔ جنرل راوت کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے۔ شاید اس کا مقصد
اشتعال دلانا ہے۔ بھارت، پاکستان کی جوہری قوت کو آزمانا چاہتا ہے۔ جنگ
بندی لکیر کی مسلسل خلاف ورزیاں یہی تاثر دے رہی ہیں۔ جب کہ اسرائیلی
وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے چھ روزہ بھارتی دورے کے موقعہ پر بھارتی
جارحیت پاکستان دشمن طاقتوں کے آثار و قرائن سامنے لا رہی ہے۔ شاید یہ
جارحیت بھارت کی جانب سے اسرائیل اور اس کے آقا امریکہ کو بھی کوئی پیغام
ہو۔ تا ہم پاکستان مشرق اور مغرب میں بڑھتہ ہوئی جارحیت کو روکنے کے لئے
فوجی سمیت سفارتی ، سیاسی اور دیگر محازوں پر بھی سرگرمی تیز کرے تو
پاکستان پر زبردستی جنگ مسلط کرنے کی خواہش میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ |