بھارتی آرمی چیف کی دھمکی اور پاک آرمی کا کرارا جواب

چند دن پہلے آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے دوستوں کے ہمراہ مری، اسلام آباد گھومنے پھرنے کا پروگرام بن گیا۔ان ایام میں ملکی حالات سے بے خبر سیرو سیاحت کرتے رہے۔ گھومنے پھرنے کے بعد واپسی ہوئی توملکی حالات حاضرہ پر نظر ڈالی توسیاسی گرما گرمی تو حسب روایت جاری و ساری تھی۔بلوچستان میں حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا تھا۔ اسکے علاوہ معلوم ہوا کہ دوبڑے سانحے میرے اپنے آبائی ضلع میں ہوئے اوردوسری طرف ایک بہت بڑی دھمکی انڈین آرمی چیف کی طرف سے سنی گئی۔سب سے پہلے تو اپنے ضلع کی بات کرتا ہوں جہاں تحصیل پتوکی کے قریبی گاؤں میں ایک بچے کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا اور دوسرا واقع قصور میں ہوا جہاں ایک معصوم بچی کو اغوا کے بعد زیادتی کرکے موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ جو بچہ پتوکی کے قریب قتل کیا گیا اسکا تو چرچا اتنا نہ ہوا جتنا بچی کا ہوا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر اس گھناونے واقع کی جتنی بھی مذمت کی گئی وہ تھوڑی تھی۔ آرمی ، عدلیہ ، حکومت سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نہ صرف اس بچی کے والدین سے ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ اس قاتل پکڑنے کے دعوے بھی کیے مگر تاحال رزلٹ صفر ہے۔ ضلع قصور میں ریپ کے پہلے بھی کئی واقعے ہوچکے ہیں مگر سب چار دن کی چاندنی کے بعد اندھیر رات میں ڈھل گئے۔ بچی کے قاتل پکڑنے کے بجائے سیاسی سکورنگ زیادہ کی جارہی ہے۔اگر اب بھی انصاف نہ کیا گیا تو پھر قصور ہی نہیں ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ایسے واقعات کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ہمیں امیری غریبی سے نکل کر انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہونگے۔

دوسری طرف جہاں ہم اپنے ہی ملک اندرونی اختلافات میں گھرے ہوئے ہیں ادھر بھارتی آرمی چیف نے پاکستان کو ایسی دھمکی دے ڈالی جس کے نتائج سے وہ خود بھی واقف نہیں۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے کہا تھا کہ’’ اگر نئی دہلی کی انتظامیہ ہمیں حکم دیتی ہے تو ہم کسی بھی وقت سرحد عبور کر کے پاکستان کو سبق سکھانے اور ان کی جوہری دھمکیوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔انہوں نے یہ تبصرہ پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کے سوال کے جواب دیتے ہوئے کیا، جس نے پوچھا تھا کہ سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث کیا پاکستان کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ موجود ہے۔

بھارت کی اس دھمکی کا جوا ب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفورنے دے کر پاکستانیوں کے سرفخر سے بلند کردیے۔ان کے بقول کہ ’’بھارت ہمارا عزم آزمانا چاہتا ہے تو آزما لے لیکن اس کا نتیجہ وہ خود دیکھے گا جب کہ بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ ہم پاکستان کے خلاف کسی بھی بھارتی مس ایڈونچر کا جواب دیں گے۔ بھارت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے ہمیں نشانہ بنارہا ہے لیکن اس میں بھی وہ ناکام ہوچکا ہے‘‘۔یہی نہیں ہمارے وزیرخارجہ خواجہ نے بھارتی آرمی چیف کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ’’بھارت ہمارے عزم کی آزمائش چاہتا ہے تو اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف کی خوش فہمی باآسانی دور کر دیں گے۔‘‘

پاکستان کی جانب سے اس طرح کے جواب کے بعد بھارت کی نہ صرف آنکھیں کھل گئی ہونگی بلکہ اپنی اوقات کا بھی اندازہ لگالیا ہوگا۔ پاکستان میں اندرونی اختلافات بے شک ہوتے ہیں مگر جب ہمارے دشمن نے للکارا تو پاکستان بند مٹھی کی طرح اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لیے ہروقت تیار ہے۔بھارت کوغلط اندازوں کی بنیاد پر کسی مہم جوئی سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان اپنے دفاع کے لیے ہمہ وقت مکمل طور پر تیار ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام پاکستان سے آج تک کشیدہ تعلقات ہیں اور دونوں جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان لفظی جنگ ایک معمول بن چکا ہے جس میں کسی بھی معاملہ پر سخت بیانات دیے جاتے ہیں۔ مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے معاملہ کے بعد دونوں ممالک کی طرف سے ان بیانات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔یہ حقیقت ہے بھارتی حکومت اور آرمی پاکستان کے خلاف باتیں تو بہت کرتی مگر ہماری طاقت کا اندازہ اسے بھی ہے۔ اگر بھارت ٹرمپ کے نقش قدم پر چل کر ہمیں للکار رہا ہے تو اسے یادہونا چاہیے کہ ٹرمپ کو بھی ہماری آرمی نے کیا جواب دیا۔نشے کی حالت میں امریکہ اور بھارت کچھ بھی بول سکتے ہیں مگر جب نشہ اترتا ہے پھر ان کی آنکھیں کھلتی ہیں کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے؟

گیڈر بھبھکی دینے والو! یہ بات اپنے دماغ میں اچھی طرح بسا لو کہ جب بھی تم نے پاکستان پر حملہ کرناتو دور کی بات بری نظر سے دیکھا تو یہی پاکستانی قوم جو مختلف حصوں بٹی ہوئی ہے اپنے ملک کے لیے دفاع لیے سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوظ کھڑی نظر آئے گی۔یہی پاکستانی عوام کی بند مٹھی جب گھونسا بن کر تمھارے منہ پر پڑا تو تمہیں چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا۔

Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 234519 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.