ابھی حال ہی میں کسی کے ہاں مہندی کی تقریب میں جانا ہوا۔
پاس ہی دو خواتین بیٹھی آپس میں باتیں کر رہی تھی۔ ان میں سے ایک دلہن کی
خالہ تھیں۔ اتفاق سے پڑوس کی ایک لڑکی جو یونیورسٹی میں پڑھتی ہے اس کا
وہاں سے گزر ہوا۔ دونوں خواتین نے بہت ہی غور سے اس کی جانب دیکھا اور پھر
ان کی باتوں کا رخ اسی کی جانب چلا گیا۔ایک نے دوسری سے مخاطب ہوکر کہا کہ
مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ ماں باپ اپنی بیٹیوں کو کیسے مخلوط تعلیمی اداروں
میں بھیج دیتے ہیں پڑھائی کم ہوتی ہے بے حیائی زیادہ ہوتی ہے۔ ویسے بھی اﷲ
نے عورت کے لیے چار دیواری کا حکم دیا ہے۔ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی
لڑکیوں کے ایسے لباس ہوتے ہیں کہ دیکھ کر شرم آجائے۔ ان کی بات میرے کانوں
سے ٹکرائی تو بے ساختہ میری نظر ان کی جانب چلی گئی۔ وہ دلہن کی خالہ تھیں
جنہوں نے خود چست لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور بڑی بے پروائی سے اﷲ کے
احکامات پر روشنی ڈال رہیں تھیں۔میں ابھی ان کی باتوں اور ان کے اپنے حلیے
کو ملانے کی کوشش کر ہی رہاتھا کہ ایک دم شور کی آواز سنائی دی۔ نگاہوں نے
تعاقب کیا تو اسٹیج پر ایک 15 سال تک کی لڑکی انڈین گانے پر ڈانس کر رہی
تھی۔ گانے کی دھن پر تھرکتے ہوئے جسم کو دیکھ کر میری نظریں شرم سے جھکتی
چلی گئیں۔ لڑکی کے چہرے کے تاثرات وہی انڈین فنکارہ جیسے لگ رہے تھے۔ جسے
برادری کے لڑکے گزرتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور بھرپور لطف اندوز ہورہے
تھے۔دلہن کی خالہ نے ہماری توجہ کو بھانپتے ہوئے فوراً کہا کہ یہ ماشااﷲ
میری بیٹی ہے۔ ڈانس کی پریکٹس کررہی ہے۔ اپنی خالہ کی بیٹی کی شادی پر ڈانس
کررہی ہے۔ ابھی بچی ہے اس لیے ہم کوئی روک ٹوک نہیں کرتے ہیں۔ میں حیرت سے
ان خاتون کے فخر سے سرخ چہرے کو دیکھنے لگا۔ لڑکی انتہائی چست لباس میں گلے
میں لاپروائی سے ڈالا ہوا دوپٹا ادا سے بالوں کو جھٹکتی میک اپ زدہ چہرے پر
مصنوئی تاثرات سجاتے ہوئے ہمارے سامنے آن کھڑی ہوئی اور اپنی ماں سے اپنے
ڈانس کی داد وصول کرنے لگی۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ دْہرے
معیار میں جی رہا ہے۔ دوسروں کے لیے الگ اور اپنے لئے الگ سوچ رکھتا ہے۔ وہ
خاتون احکام الٰہی یونیورسٹیوں اور کالجز میں پڑھنے والی لڑکیوں کے لیے
بیان کر رہیں تھیں خوب لے دے جاری تھی تاہم وہ یہ بات کیوں بھول رہی تھیں
کہ وہ احکامات ہر عورت کے لیے ہیں۔ ان کی اپنی بیٹی کو مکمل آزادی حاصل، بے
باکی کی انتہاؤں کو چھورہی تھی کہ جسے دیکھ کر ایک دوسری لڑکی کم از کم
شرما جائے مگر دوسرے کیا اور کیوں کررہے ہیں یہ بات کوئی ہاتھ سے نہیں جانے
دیتا۔ دوسری خاتون کے جملے بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں جن کا کہنا تھا کہ
میری بیٹی میٹرک کر رہی ہے۔ میں نے اسے کہہ دیا کہ میٹرک کر لو اس کے بعد
اپنے گھر کی ہو جاؤ۔ اس لڑکی کے ذہن میں شادی کا خناس تو بھر دیا مگر بطور
ایک ماں اور معاشرے کے فرد ہونے کے تمیز و تہذیب سکھانے میں کوئی کردار ادا
نہیں کیا۔پھر اپنی بیٹیوں کو اس حال میں دیکھ کر فخر کرنا نسوانیت کی توہین
کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کس قد قابل افسوس بات ہے کہ ہمارے فخر کے پیمانے بھی
اب تبدیل ہوگئے ہیں۔ پہلے ماں باپ کے جن باتوں پر سر جھک جایا کرتے تھے اب
ان پر خوشی اور فخر کیا جاتا ہے۔ بیٹی کو ناچتے ہوے دیکھ کر نہ صرف داد دی
جارہی ہوتی ہے بلکہ دوسروں کو بلا بلا کر اس تقریب کا حصہ بننے کی دعوت دی
جاتی ہے۔ کیا ہمارا معیار اس قدر گر چکا ہے ہم دوسروں کی بیٹیوں پر تو جملے
کسیں اور کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانیں دیں مگر جب وہیں کام خود کی بیٹی کرے
تو خوش ہوں۔سچ ہے آج کل لوگوں کا اپنے لیے کچھ معیار ہے اور دوسروں کے لیے
کچھ ہے۔ شاید ایسے والدین نہیں جانتے کہ آج کا یہ بویا ہوا بیج جب کل تن
آور درخت بنے گا تو پھر یہیں ماں باپ سر پر ہاتھ رکھ کے روئیں گے۔ مگر شاید
تب تک وقت ہری جھنڈی دکھا چکا ہوگا۔ میرے دماغ کی اسکرین پر ابھی تک جوانی
کی دہلیز پر دستک دیتی، ناچتی، تھرکتی معصوم دوشیزہ پر ٹھہری ہوئی ہے جسے
خود اس کے اپنے والدین آزادی کی دیمک لگا چکے ہیں- |