کہاں سکون آتا ہے اب دن رات،اک پل بھی چین میسر نہیں ہے
گر گئی ہوں میں اپنی ہی نظروں سے، میں کس کو الزام دوں اور کس کو قصور وار
ٹھہراؤں۔اْس کتے اور ذلیل انسان کو جو انسانیت کو بھی شرما گیا جس کو
درندگی کرتے وقت اس ننھی جان پہ ذرا بھی ترس نہ آیا کیا عمر تھی اْس کی صرف
اور صرف سات سال،اس عمر میں تو کسی کو خیال تک بھی نہیں آتا کہ یہ سب ہوتا
کیا ہے تففف کْتے سے بھی کم تر انسان تجھ پہ جتنی بھی لعنت بھیجوں وہ کم ہے
شیطان بھی شرما گیا ہوگا تیرے اس فعل پہ تو کم از کم نام کا ہی حیا کرلیتا
دیکھ کتنا پاکیزہ نام ہے بی بی زینب کے نام پہ۔لیکن تجھے کہاں خیال تھا کہ
تو کیا کرنے جارہا ہے تجھ پہ تو خیال کی لعنت اور پھٹکار پڑچکی تھی اس ننھی
کی آواز سے چیخ و پکار تو آسمان بھی لرز رہا ہوگا لیکن تیرا دل ذرا بھی
نہیں پسیجا۔تیرے اس فعل پہ تو ساری دنیا روئی ہے شاعر بھی چیخ و پکار میں
مصروف ہے اور کہتا ہے
رو رہی ہے یہ زمین اور رو رہا ہے آسمان
یہ ظلم بڑھتا دیکھ کر یہ خون بہتا دیکھ کر
ننھی زینب پکار رہی ہے اور عالم ارواح میں اپنی سسکتی بلکتی ماں کو چپ
کروارہی ہے اور کہہ رہی ہے
غم نہ کرنا ماں میری ملونگی تجھ سے پھر کبھی
جنتوں کے باغ میں اور ہستِ گْلستان میں
زینب تو چلی گئی لاکھوں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ لاکھوں لوگ پھوٹ پھوٹ کر
روئے ہیں اے ظالم ذلیل کْتے انسان! تو تو ابھی ادھر ہی ہے نا وہ معصوم پری
تو جنت میں اْڑتی پھر رہی ہوگی جنت کے باغوں میں انواع و اقسام کے کھانے
کھاتی ہوگی کتنی خوش و خرم ہوگی ناں وہاں۔لیکن تْو تو یہاں ہیں نا کروڑوں
لوگوں کی لعنت تیری مْنہ پہ برس رہی ہیں تو خود ہی خود میں مرگیا ہوگا جب
تک تو یہاں رہے گا ننھی زینب کی آہیں تجھے ستاتی رہیں گی اور جب تو اس
دْنیا سے چلا جائے گا دنیا تیرے وجود سے پاک ہوجائے گی تو تیرا ٹھکانہ جہنم
کا گڑھا ہوگا جہاں تو سب کو پکارے گا تیری کوئی نہیں سْنے گا اب میں رو رہی
ہوں میرے آنسو میرے صفحات کو بھگو رہے ہیں میرا ضبط ٹوٹ رہا ہے مجھے ڈر ہے
کہ میرا دل پھٹ جائے گا تجھ منحوس پہ میں اک لفظ اور نہیں لکھتا چاہتی جا
چلا جا دفعہ ہوجا میری لعنتیں بھی ختم ہوگئی ہیں جو تجھ پہ بھیج رہی ہوں۔ |