آمتہ الصبیجہ (فاضلہ)
کشن باغ۔ حیدرآباد
شجاعت کے لغوی معنی بہادری ‘دلیری اور جواں مردی کے ہیں ایسی بہادری
وجانبازی جو عقل اور رائے کے مطابق ہو۔ قاضی عباسؒ نے کتاب الشفاء میں
شجاعت کی تعریف یوں کی ہے کہ:’’ الشجاعۃ فضیلت قوۃ الغضب والنفقیاد العقل :
یعنی قوت غضبی کی زیادتی اوراس کے تابع عقل ہونے کو شجاعت کا نام دیاجاتا
ہے۔
چنانچہ علامہ شبلی نعمانی ؒ نے سیرۃ النبی ﷺ میں لکھا ہے کہ یہ وصف انسانیت
کااعلیٰ جوہر ہے اور اخلاق کی سنگ بنیاد عزم واستقلال تمام باتیں شجاعت ہی
سے پیدا ہوتی ہیں اور دل کے عزم پریختہ رہنے کوشجاعت کہتے ہیں اور یہی کمال
حاصل کرنے کا اصل ذریعہ ہے اور اسی کے ذریعہ انسان بلند مقام تک کامیابی کے
ساتھ پہنچاجاسکتا ہے اور دل کا پختہ اور مضبوط ہونا تب ہی ممکن ہے جب انسان
کا مزاج اور اسکی عقل درست ہو اور اس کی طبعیت میں اعتدال ہو۔
چنانچہ اسی طاقت کے مضمرات کے بارے میں قرآن مجید میں بتایاگیا ہے
۔واعدوالھم ما استطعتیم من قوۃ (انفال) یعنی دشمنوں کے مقابلہ کیلئے اپنے
اندر جس قدر قوت پیدا کرسکتے ہو پیدا کرو کیونکہ اگرتم نحیف وکمزور ہوگئے
ہو دشمن پرکس طرح غلبہ پاسکوگے ۔
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑادیئے گھوڑے ہم نے
مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ
طاقتورمسلمان زیادہ بہتر اور اﷲ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے کمزور مسلمان سے
اورہرایک میں بھلائی ہے اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں(دینی) نفع پہنچائے اور
اﷲ سے مدد مانگو اور کم ہمتی مت دکھاؤ (مسلم ابن ماجہ)۔اسی طرح اعلیٰ کردار
انسان کے لیے شجاعت کا وصف بھی ضروری ہے اس ضمن میں اﷲ تعالیٰ انبیا ء
وسابقین کے مکارم اخلاق ومحاسن افعال بیان فرماتا ہے۔ اس میں ان کوایسی
تمام اعلیٰ چیزوں کا حاصل بتاتا ہے کہ وہ مکمل نمونہ ہوا کرتے تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسی بات پرقبطی کو مکا مارا کہ وہ اس کی تاب نہ
لاسکا اوروہیں مرگیا۔ (فوکزہ موسی فقضی علیہ ) یہ حضرت موسیؑ کی قوت بازوی
مضبوط القوی ہونے کا ثبوت تھا نہ کہ پیغمبرانہ وصف ومعجزہ ۔
پھرافضل البشر تاج الانبیاء محمد مجتبیٰ ﷺ کی جسمانی طاقت وقوت اور شجاعت
مہتمم الشان تھی۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓفرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے زیادہ
شجیع ‘زیاد ہ دلیر ‘زیادہ سخی اور زیادہ راضی ہونے والا کسی کونہیں
دیکھا۔ابتداء الاسلام میں حضور علیہ السلام کا عرب کے مشہور پہلوان سے
مقابلہ ہوا جس کا نام رُکانہ تھا ۔ایک مرتبہ اس کی ملاقات مکہ کے ایک کھائی
میں حضور ﷺ سے ہوئی۔ حضورﷺ نے رکانہ سے فرمایا :اے رکانہ کیا تواﷲ سے نہیں
ڈرتا‘میں جس بات کی دعوت میں دیتا ہوں اور کسی کوقبول نہیں کرتا‘تورکانہ نے
جواب دیا ‘ذرا مجھ سے زور آزمائی کرکے دیکھو اگر تم غالب آگئے تو جانوں گا
تمہارے دعویٰ میں کتنی صداقت ہے اور وہ رکانہ سے کشتی کی اور دیکھتے دیکھتے
چاروں خانے چت کردیا۔اس پراس نے پھر کہا کہ اے محمدﷺ ایک دفعہ پھر ‘حضورﷺ
نے دوسری مرتبہ پھر اسے پچھاڑدیا ۔بعض روایات میں تین دفعہ آیا ہے۔ علامہ
حجازی فرماتے ہے کہ فتح مکہ سے کچھ پہلے رکانہ نے اسلام قبول کیا۔
اس طرح عرب کا ایک اورمشہورپہلوان ابوالاشد کلاوہ بن حجمی تھا۔ اس کی طاقت
اور جسمانی کیفیت یہ تھی کہ وہ گائے کے چمڑے پرکھڑا ہوجاتاتھا اوردس دس
آدمی مل کر اس کے پنجے سے چمڑا کھینچنے کے لیے زور لگاتے تھے مگر چمڑا پھٹ
جاتا اور ابواالا شداس جگہ سے جنبش نہ کرتاتھا۔
ایک دفعہ ابوالاشد نے رسول اﷲ ﷺ سے کہاکہ اگر آپ مجھے پچھاڑدیں تومیں آپ ؐ
پرایمان لاؤں گا۔ حضور ﷺ نے آنا ً فاناً ہاں کردیا۔تین بار اس کو ایسے ہی
پچھاڑدیا مگروہ اپنے قول سے منحرف ہوگیا اور اسلام کی سعادت سے محروم رہا۔
رسول اﷲﷺ کی جسمانی قوت وطاقت وشجاعت کا اس امر سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ
آپؐ جنگوں کے موقع پر اکثر دو زریہں پہناکرتے تھے۔
غزوہ خندق کا عظیم الشان واقعہ حضور ﷺ کی شجاعت ‘جسمانی طاقت کے ساتھ ساتھ
روحانی کمالات کی ایک دلاویز تفسیر ہے۔ جب اس غزوہ میں خندق کوکھودا
جارہاتھا کہ تو ایک جگہ ایک سخت چٹان درمیان میں حائل ہوگئی ۔صحابہ اکرامؓ
نے لاکھ کوشش کی چٹان ٹوٹ جائے مگر وہ کسی بھی صورت نہ ہوا ۔آخر صحابہؓ
عاجز آگئے۔ ان کی ہمتوں نے جواب دے دیا۔ جب حضور ﷺ کو اس بات کی اطلاع دی
توحضور ﷺ بہ نفس نفیس خود کدال لیکر آگے بڑھ گئے اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے
آپ نے پوری طاقت سے اس چٹان پرایک ضرب لگائی حضرت سلمان فارسیؓ کابیان ہے
کہ میں نے دیکھا پتھر میں ایک بڑا شگاف پیدا ہوگیا۔ دوسری اور تیسری بار
بھی آپ ؐ نے ضرب لگائی اورچٹان کے ٹکرے ٹکڑے کردیئے۔ یہ حضور صلی ﷺ کی بے
مثال طاقت وشہ زوری کاشاہکار ہے۔
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا ودریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
٭٭٭ |