چیف جسٹس آف پاکستان ایک انتہائی اہم اور با اختیار
عہدہ ہے ،شاید اہمیت بھی اختیار ہی سے ملتی ہے۔ مجھے بنیادی طور پر عدالت
اور سیاست دونوں سے دلچسپی نہیں ہے۔ میں سائنس کے رستے ادب کی سیر گاہ میں
آ یاہوں۔لیکن ملکی حالات و واقعات کی سنگینی اور بوقلمونی اپنی طرف کھینچ
ہی لیتی ہے اور کسی تعلیمی ادارے سے تعلق رکھنے والا، دوسروں کی باتیں سن
سن کر بھی، بہت کچھ سرے راہ سیکھ لیتا ہے۔ میری سیاست اور عدالت سے قرابت
داری کچھ ایسی ہی ہے۔
پچھلے مہینوں میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامہ سے لے کر اقامہ تک چلنے
والا مقدمہ ملکی تاریخ میں نہایت اہم حیثیت اختیار کر گیا۔ جس کی ہر پیشی
اور تاریخ نے عوامی دلچسپی کو اپنی طرف کھینچا۔پانچ ججوں کے بینچ نے
کاروائی کروائی اور ایک فیصلہ سنایا۔ چیف جسٹس صاحب نے بڑی دانائی سے اس
معاملے یا مقدمے سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھا۔ خیر انہوں نے دوسری پارٹی کے
سربراہ پر صادق و امین رہنے کی مہربانی فرما دی۔یہ قانونی باتیں قانون والے
ہی جانیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار صاحب ایک دھیمے انداز کے انسان ہیں،
جیسا کہ ان کی میڈیا پر تقاریر سے لگتا اور نظر آتا ہے۔ اپنی عائلی زندگی
میں اس سے بھی زیادہ دھیما انداز اپناتے ہوں گے، ایسا ہی لگتا ہے۔ قصور میں
ہونے والے زینب قتل کیس پر بات کرتے ہوئے ان کا بیان نشر ہوا کہ ان کی
اہلیہ محترمہ اس گھناؤنے قتل پر ان سے زیادہ پریشان ہیں، ویسے خواتین ایسی
باتوں میں زیادہ ہی پریشان ہوتی ہیں ،ان کا اپنی اہلیہ کے جذبات کا ذکر
کرنا ان کے اچھے تعلقات کی غمازی کرتا ہے ۔لیکن خیر یہ ان کی ذاتی صواب دید
ہے کہ وہ کہاں کیا رویہ اپناتے ہیں۔
پارلیمان اور عدالت میں آج کل کئی وجوہات سے ان بن سی چل رہی ہے۔ اور کبھی
کبھی ججوں کے احتساب کی بات بھی پارلیمان کے درو دیوار سن لیتے ہیں، لیکن
یہ بات سپریم کورٹ کے دروازوں اور چھتوں کو بالکل اچھی نہیں لگتی۔ ججوں کا
احتساب اکیسویں صدی کے اخیر تک تو شاید نہ ہو،ہاں البتہ بائیسویں صدی میں
ضرور ہو گا۔ اس وقت جرنیلوں کا احتساب بھی ممکن لگتا ہے۔لیکن ہماری بحث اور
بات صرف چیف جسٹس صاحب تک محدود ہے اس لئے ہمیں اپنی حدود میں ہی رہنا
چاہیئے۔
سرکاری ملاز م کا یہ مستقل رویہ ہے کہ جب بھی اس کے احتساب کی بات کی جاتی
ہے یا اس سے کسی بات کی جواب طلبی کی جاتی ہے وہ فوراً اپنی مجبوریوں کی
ضخیم فائل کھول کے بیٹھ جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کے علاوہ اس کا کوئی چارہ نہیں
ہوتا ۔
سرکاری کالجوں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ سٹوڈنٹس کی تعداد بہت زیادہ ہے،
کمرے کم ہیں ، بہت سی سیٹیں خالی پڑی ہیں، بہتر رزلٹ نہیں دے سکتے۔ سرکاری
ہسپتالوں سے پوچھیں گے تو وہ کہیں گے مریض بے شمار ہیں، ڈاکٹر خال خال ہیں،
سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مشینری خراب ہے۔ اس لئے بہتر تنائج نہیں دے
سکتے ۔ اسی طرح کی بات ہمارے محترم چیف جسٹس صاحب نے بھی سنا دی ہے کہ
آبادی بہت زیادہ ہے، جج بہت کم ہیں، سہوتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، سستا اور
فوری انصاف نہیں دے سکتے۔ یہی ایکسکیوز تمام سرکاری محکموں کا ہے۔ لگتا ہے
کہ عام سرکاری محکموں میں چلنے والے ہوائیں سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی
چلتی ہیں۔
پاکستان کا قومی المیہ یہی ہے کہ ہر محکمہ اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتا
ہے یا حکومت پر ڈالتا ہے اور حکومت اپنی ذمہ داری وسائل پر ڈال دیتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ذمہ داری ایک فٹ بال ہے جسے ہر کوئی دوسرے کے گول میں
پھینک کر فتح یاب ہونا چاہتا ہے۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ساری
باتیں حقیقت بھی ہیں۔ اور ہر شخص سچا بھی لگتا ہے۔
پاکستان کا دوسرا المیہ ہے کہ یہاں ہر کوئی اپنا کام کرنے کی بجائے دوسرے
کا کام کرتا ہے۔ یہاں سیاسی لیڈر قانون سازی کے علاوہ ہر کام کرتے ہیں اور
یہی حال دوسرے سرکاری محکموں کا بھی ہے۔
چیف جسٹس صاحب نے بھی بڑی سادگی اور مہارت سے اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں
پیش کر دیا ہے اور اعداو شمار کی بنیاد پر بات کرتے ہوئے بتا دیا ہے کہ ایک
جج کے پاس روزانہ کتنے مقدمے ہوتے ہیں اور ایک مقدمے کو کتنے منٹ میسر آتے
ہیں تو ایسی صورتِ حال میں تیز اور سستا انصاف کیسے ممکن ہے۔ لیکن ساتھ ہی
چیف جسٹس صاحب محکمہ صحت کی ڈیوٹی بھی اپنے سر لے رہے ہیں جو کہ بلا شبہ
خوش آئند ہے۔
اگر سیاست دان قانون سازی کریں، استاد تعلیم و تدریس کا کام کریں، ڈاکٹر
مریضوں کا علاج معالجہ کریں اور جج مقدموں کے فیصلے کریں تو پاکستان کا
مستقبل کیوں نہ روشن ہو گا۔ لیکن یہ روشن پاکستان شاید اس نسل کی آنکھیں نہ
دیکھ سکیں۔
لیکن اس نسل کی اگلی نسل ان شاء اﷲ وہ روشن پاکستان ضرور دیکھے گی۔
|