امریکی اراکین کانگریس کا پاکستان مخالف بیانیہ

تحریر: شاہین اختر

13اکتوبر 2017ء کو دو امریکی اراکین کانگریس Dana Rohrabacher اور Brad Sherman نے ایوان نمائندگان کے اجلاس میں پاکستان مخالف بیانیہ دہرایا۔ براڈ شیرمین نے الزام لگایا کہ سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور لوگوں کی گمشدگیاں ہو رہی ہیں جبکہ ڈانا روہرباشیر نے الزام تراشی کی کہ پاک فوج نے مشرقی پاکستان میں مظالم ڈھائے جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا اور یہی کچھ کراچی میں مہاجر کمیونٹی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اُس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکہ کو بلوچوں اور سندھیوں کی مدد کرنی چاہئے۔ جنہیں آئی ایس آئی اور افواج پاکستان ستا رہی ہیں۔ یہ ہرزہ سرائی بھی کی گئی کہ حکومت کا کنٹرول پنجابیوں اور پختونوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگست 2017ء میں کانگریس مین براڈ شیرمین نے قائم مقام سیکرٹری برائے جنوبی و شمالی ایشیائی امور ایلیس جی ویلز اور پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو خط لکھا کہ جس میں سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ اس مہم میں دیگر نمائندے باربرا، ٹرینٹ فرانکس، کارولین مالونے، ایلینور ہولمس نورٹن، ڈانا روہرباشیر اور ایڈم شیف کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اس خط نے بہت سارے تحفظات اٹھا دیئے جس میں اشارہ دیا گیا کہ جبری گمشدگیاں ہو رہی ہیں۔ مذہبی انتہا پسندوں کے حملے ہو رہے ہیں اور جبراً مذہبی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ خط میں وزارت خارجہ پر زور دیا گیا کہ وہ حکومت پاکستان کے ساتھ انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر رکھے۔ شیرمین نے Conressional Sindh Caucus کی صدارت کی اور رینکنگ ممبر کے طور پر ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی برائے ایشیائی ذیلی کمیٹی سامنے آئے۔ بھارتی لابی کانگریس اور میڈیا میں بھرپور طریقے سے پاکستان مخالف پراپیگنڈے میں پیش پیش رہے۔ 17فروری 2012 ء کو امریکی کانگریس مین ڈانا روہرباشیر نے امریکی ایوان نمائندگان میں ایک قرارداد متعارف کرائے جس میں پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ بلوچوں کے حق خودمختاری کو تسلیم کرے۔ اس تحریک کی ایوان نمائندگان کے دو اراکین لیوئی گوہمرٹ اور سٹیو کنگ نے بھی تائید و حمایت کی۔ مجوزہ بل میں بلوچوں کے حق خودمختاری کی حمایت کی گئی اور انہیں ایک موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اپنی خودمختار ریاست کا انتخاب کرے۔ اس طرح کی قراردادیں ایک چھوٹی سی اقلیت کی طرف سے پیش کی گئی ہیں جن کی زیادہ اہمیت نہیں لیکن یہ پاکستان اور اُس کے اداروں کو بدنام کرنے کی کاوش ضرور ہے۔ کچھ عرصہ سے بلوچستان میں امریکی حکمت سازوں کی طرف سے گریٹ گیم کے تحت جاری کیے گئے نقشوں پر پوری طرح عملدرآمد ہو رہا ہے۔ صوبہ بلوچستان کو ایرانی سیستان بلوچستان ریجن میں ضم کرکے گریٹر بلوچستان کے طور پر شائع کیا گیا ہے لیکن بلوچستان میں صورتحال کو سیاسی سطح پر بھرپور انداز میں سنبھالا دیا گیا ہے۔ منتخب حکومت کام کررہی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں کمی آئی ہے۔ سورش بھی بہت کم ہو چکی ہے۔ بلوچستان کے عوام اپنی حب الوطنی کے لئے جانے پہچانے جاتے ہیں اور علیحدگی پسندوں کی فسادی سرگرمیوں سے کبھی بھٹکائے نہیں جا سکیں گے۔ آدھا درجن امریکی اراکین نمائندگان کی طرف سے یہ تمام تر اقدامات پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور قابل مذمت ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ نے ایسے عناصر سے فاصلہ رکھتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نہ تو اس طرح کے معاملات میں شریک ہیں نہ ہی اُن کی گستاخانہ جسارت میں شامل ہیں لیکن بلوچستان میں امریکی گہرا مفاد اور پاکستان کے حساس صوبے میں گہری دلچسپی نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی اور انتہائی سٹریٹجک لوکیشن داناروہرباشیر اور پاکستان مخالف ریبلکن کانگریس مین کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے جنہوں نے اس طرح کی سماعت کا اہتمام کیا۔ اس طرح کی پاکستان مخالف سازشیں اور پراپیگنڈا قراردادیں ایسے امریکی عناصر کے دہرے معیار کا ثبوت ہیں جنہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی اور بھارت میں 22 سے زائد آزادی کی تحریکیں اور اقلیتوں کے ساتھ بدترین مظالم نظر نہیں آتے۔ تاہم بھارت کی طرف سے پاکستان مخالف لابی کے زیر اثر وہ اس طرح کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Raja Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104866 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.