قصور میں سات سالہ معصوم زینب کے زیادتی کے بعد بہیمانہ
قتل کے دلخراش سانحے کی وجہ سے پورا ملک سوگوار اور اشکبار ہے۔ اس المناک
واقعے پر ہرآنکھ پرنم ہے اور ہر دل درد سے تڑپ اٹھا ہے۔ اس دل سوز واقعہ نے
پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ آج ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کی کس
انتہا کو چھو رہا ہے، جہاں معصوم بچوں کی عزتیں اور زندگیاں بھی اپنے محلوں
اور گلیوں میں محفوظ نہیں رہیں۔ ہوس کے پچاری انسان نما جانور اتنے آزاد
ہوگئے کہ اب ان کی حیوانیت سے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ذرا تصور
کیجیے! ان والدین پر کیا گزرتی ہوگی جن کے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ
بنایا گیا ہو اور پھر قتل کردیا گیا ہو۔ یہ تصور ہی اتنا خوفناک ہے کہ ذہن
میں آتے یقینا ہر والدین کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، خدا جانے کتنے والدین
کی کتنے دن تک رات کی نیندیں حرام ہوجاتی ہوں گی۔
بچی کے اغوا کے بعد ورثاء نے پولیس سے تعاون کی اپیل کی، مگر پولیس نے کوئی
تعاون نہیں کیا۔ پانچ دن بعد بچی کی لاش ملنے کے بعد بچی کے لواحقین اور
اہل علاقہ جب انتظامیہ کے خلاف احتجاج کرنے باہر نکلے تو پولیس نے ان پر
بھی گولیاں برسا کرد و افراد کوموت کے منہ میں دھکیل دیا۔ پولیس اور حکومت
نے اپنی نااہلی سے شہریوں میں یہ سوچ راسخ کردی ہے کہ غریب آدمی کی کہیں
بھی کوئی شنوائی نہیں ہوتی، ظلم کے شکار شہری انصاف کے لیے کئی کئی سال
خوار ہوتے ہیں، مگر انہیں انصاف نہیں ملتا۔ صرف قصور میں ایک سال میں بچوں
کو اغوا کرنے اور جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کے 12 واقعات ہو چکے ہیں،
لیکن پولیس ملزموں کو پکڑنے میں ناکام رہی اور اب ایک ملزم گرفت میں آیا ہے۔
ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں،
لیکن ہر بار مجرم آزاد رہتے ہیں۔ حیوانیت و شیطانیت کا ایسا افسوسناک واقعہ
پہلی بار نہیں ہوا، اس سے پیشتر بھی ایسے واقعات پورے ملک میں رونما ہو چکے
ہیں اور ہورہے ہیں، جن میں درندہ نما انسانوں نے معصوم بچوں کو اپنی ہوس کی
بھینٹ چڑھا دیا۔ رواں سال کم عمر بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں 7فیصد
اضافہ ہوا ہے۔
ایسے حالات میں والدین، میڈیا اور حکومت کو اس حوالے سے سنجیدگی دکھاتے
ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی، بصورت دیگر ایسے دل سوز واقعات رونما
ہوتے رہیں گے۔ ان معاشرتی حالات میں سب سے بڑی ذمہ داری والدین پر عاید
ہوتی ہے کہ وہ بچوں کا ہر طرح سے خیال رکھیں۔ نہ صرف بچوں کی حرکات و سکنات
پر نظر رکھیں، بلکہ ان سے ان کے دوستوں کے بارے میں بھی گفتگو کے ذریعے
آگاہ رہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ دوستی کا رشتہ استوار کریں،
انہیں اعتماد میں لیں اور ان سے ہر وہ بات شیئر کریں جس سے ان کی ذہنی اور
شعوری نشو نما ہونے کے ساتھ انہیں اچھے یا برے کی تمیز ملتی ہو۔ اگر بچہ
کسی خاص فرد سے گھبرائے یا خوفزدہ ہو تو نظر انداز مت کریں۔ بچوں کو کسی کے
پاس اکیلا مت چھوڑیں۔ بچہ کسی دن بھی گبھرایا ہوا یا غیر معمولی ایکسائیٹڈ
ہو تو نوٹس لیں اور وجہ جانیں۔ خدا نخواستہ اگر کسی بچے کے ساتھ کوئی سانحہ
پیش آجاتا ہے تو اسے موردِالزام نہ ٹھہرایے، بلکہ انتہائی پیار سے اسے
سمجھائیں کہ اس معاملے میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے اور یہ کہ وہ اس کا اثر
اپنے ذہن پر ہرگز نہ لے۔ میڈیا پر بھی ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ ایسے تمام
رویوں کو معاشرے میں پروان چڑھنے سے روکے جن سے معاشرے میں جنسی ہیجان پیدا
ہو اور اس کی وجہ سے لوگ ذہنی مریض بن کر ایسے شرمناک اقدام کرگزریں۔ ایسے
واقعات میں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ملک میں تیزی کے ساتھ فروغ پاتی مغربی
تہذیب اور فحاشی و عریانی کا بھی حصہ ہے، جس کو میڈیا ہی کنٹرول کرسکتا ہے۔
معاشرے کو سنوارنے اور بگاڑنے میں میڈیا کا اہم کردار ہوتا ہے۔
حکومت پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کو کڑی سے
کڑی سزا دی جائے۔ انسان برائی سے خدا کے خوف سے رکتا ہے یا پھر سزا کے خوف
سے۔ اگر ایسے واقعات میں ملوث مجرموں کو پکڑکر سولی پر لٹکادیا جائے تو اس
کے بعد کوئی شیطان صفت انسان کسی بچے کو بری نیت سے چھوتے ہوئے بھی ہزار
بار سوچے گا، مگر افسوس حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ حکومت کی
غیر سنجیدگی صرف قصور میں کئی سالوں سے بچوں کی زندگیوں سے کھیلتے درندوں
کی آزادی سے ہوتی ہے۔ دو سال قبل اسی علاقے میں بچوں کے ساتھ زیادتیوں کا
سکینڈل سامنے آیا تھا۔ کچھ انسانیت دشمن گروہ منظم طریقے سے گھناؤنا سلسلہ
جاری رکھے ہوئے تھے، بچوں کی سیکڑوں اخلاق باختہ ویڈیو سامنے آئیں، مگر
متعلقہ اداروں کی کوتاہی غفلت اور ملزموں سے ملی بھگت کے باعث کسی ملزم کو
بھی عبرت کا نشان نہ بنایا گیا۔ گزشتہ تین برسوں میں صرف قصور کے علاقے میں
بچوں کے اغوا و زیادتی اور انہیں ہراساں کرنے کے 720 واقعات پیش آئے۔ صرف
2017ء میں اس طرح کے 129 واقعات رپورٹ ہوئے۔گزشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں
کل 1764 کیسز میں سے پنجاب میں 62 فیصد، سندھ میں 28 فیصد، بلوچستان میں
58، کے پی میں 42 اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نو فیصد رجسٹرڈ
ہوئے۔ نجی سطح پر کام کرنے والی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق وفاق اور صوبائی
سطح پر اس قسم کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں، جس میں بچوں کے حقوق کی خلاف
ورزیوں سے متعلق مستند معلومات اور اعداد و شمار اکھٹے کیے جائیں۔ صوبائی
اور وفاقی حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں کے تحفظ میں اقدامات اور قوانین
پر عملدرآمد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کے کسی ادارے، محکمے یا
افسر نے اس کی وجوہ تلاش کرنے اور ان وجوہ کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔
حکمرانوں نے ہر واقعہ کے بعد زبانے دعوے تو بہت کیے، مگر عمل کسی پر بھی
نہیں ہوا، کوئی بھی مجرم نہیں پکڑا گیا۔ زبانی دعوؤں سے کچھ نہیں ہوگا۔
حکومت کو نہ صرف زینب کے قاتلوں کا پتہ چلا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانا
ہو گا، بلکہ قصور اور پورے ملک میں بچوں کے اغوا، زیادتی اور انہیں جنسی
طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں
گے۔
ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کو روکنے کے لیے حکومت
کو ایک اور اہم قدم بھی اٹھانا ہوگا جس کی جانب اکثر توجہ نہیں جاتی، وہ یہ
کہ انٹرنیٹ سے فحش مواد ختم کرنا ہوگا۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ
دنیا میں جنسی تشد د انٹر نیٹ پر فحش ویب سائٹس کے آنے کے بعد سے زیادہ ہوا
ہے۔ ماہرین نفسیات بھی فحش مواد کا جنسی جرائم کے ساتھ ہمیشہ سے گہرا تعلق
بتلاتے آئے ہیں۔ ماہر نفسیات و سماجیات کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی
زیادتی کے بڑھتے واقعات کی وجہ میڈیا اور انٹر نیٹ کے ذریعے دستیاب ایسا
(فحش) مواد ہے جو نوجوانوں کو مسلسل اشتعال کی حالت میں رکھتا ہے اور پھر
وہ اپنی تسکین اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے آسان ہدف کی تلاش کرتے ہیں اور
بچے سب سے آسان ہدف ہوتے ہیں۔ جب تک ایسے واقعات کو جنم دیتے تمام اسباب کا
سدباب نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک کچرے کے ڈھیروں سے ’’زینبوں‘‘ کی لاشیں
ملنے کا سلسلہ نہیں رک سکتا۔ |