قائداعظمؒ کا پاکستان اور عصری حقیقت
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
|
قائداعظمؒ کا پاکستان اور عصری حقیقت ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ برصغیر کی تاریخ میں پاکستان کا قیام محض ایک سیاسی تبدیلی نہیں بلکہ ایک تہذیبی فیصلہ تھا، ایک ایسا فیصلہ جو صدیوں کی غلامی، فکری زوال اور شناختی بحران کے پس منظر میں کیا گیا۔ یہ فیصلہ کسی جذباتی ابال کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک طویل تاریخی عمل کا حاصل تھا، جس میں مسلمانانِ ہند نے اپنے ماضی، حال اور مستقبل کو ایک ہی زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مسلمانوں نے یہ ادراک حاصل کیا کہ سیاسی آزادی اس وقت تک بے معنی ہے جب تک اس کے ساتھ تہذیبی آزادی اور فکری خودمختاری شامل نہ ہو۔ اسی شعور نے تحریکِ پاکستان کو جنم دیا اور اسی شعور نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو تاریخ کا وہ کردار بنا دیا جو محض ایک سیاسی رہنما نہیں بلکہ ایک فکری معمار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اگر اس تحریک کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ برصغیر میں مسلمان صرف اقتدار سے محروم نہیں تھے بلکہ اپنی تہذیبی شناخت کے تحلیل ہونے کے خطرے سے بھی دوچار تھے۔ انگریز دور میں ہندو اکثریت کی عددی برتری، تعلیمی و معاشی غلبہ اور سیاسی تنظیم نے مسلمانوں کو ایک ایسے مستقبل سے دوچار کر دیا تھا جہاں ان کا وجود ایک اقلیت کے طور پر سمٹ جانے والا تھا۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں دو قومی نظریہ محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک فکری ناگزیریت بن کر ابھرا۔ قائداعظمؒ نے اس نظریے کو جذباتی انداز میں نہیں بلکہ آئینی، منطقی اور تاریخی دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ قائداعظمؒ کے نزدیک قومیت کی بنیاد نہ صرف مذہب بلکہ مشترک تہذیب، تاریخ، سماجی اقدار اور طرزِ حیات پر استوار ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مسلمانوں کو ایک مکمل قوم سمجھتے تھے، نہ کہ ایک مذہبی اقلیت۔ ان کا یہ موقف کسی تعصب پر مبنی نہیں تھا بلکہ برصغیر کے تاریخی تجربے کا نچوڑ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر مسلمان اپنی سیاسی تقدیر کے خود مختار نہ ہوئے تو ان کا مذہب، تہذیب اور اجتماعی شعور رفتہ رفتہ ایک ثانوی حیثیت اختیار کر لے گا۔ تحریکِ پاکستان کے فکری مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کا مطالبہ محض ایک علیحدہ خطہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسا نظامِ حیات تھا جہاں دین اور دنیا کی تفریق ختم ہو جائے۔ قائداعظمؒ کے تصور میں پاکستان ایک ایسی ریاست تھا جہاں اسلام کو محض مذہبی علامت کے طور پر نہیں بلکہ ایک عملی نظام کے طور پر نافذ کیا جائے۔ ان کے نزدیک اسلام نے انسان کو جو عدل، مساوات اور مشاورت کا تصور دیا ہے، وہ کسی بھی جدید ریاست کی بنیاد بن سکتا ہے۔ قائداعظمؒ کی فکر کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ وہ مذہب کو تنگ نظری یا جبر کا ذریعہ نہیں بنانا چاہتے تھے۔ ان کے بیانات میں بار بار اس بات پر زور ملتا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا جہاں ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور ریاست کسی فرد کے ساتھ امتیاز نہیں برتے گی۔ یہ نقطۂ نظر دراصل اسلامی تعلیمات کی اس روح سے ہم آہنگ تھا جو انسانی وقار اور رواداری کو بنیادی حیثیت دیتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظمؒ کے بیانات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ وہ پاکستان کو ایک نظریاتی تجربہ گاہ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ ان کے نزدیک پاکستان کا قیام ایک وسیلہ تھا، مقصد نہیں۔ اصل مقصد ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا تھا جہاں اسلامی اصول عملی زندگی میں نافذ ہوں اور جہاں ریاست اپنے شہریوں کے لیے عدل و انصاف کی ضامن ہو۔ قائداعظمؒ کے تصورِ مملکت میں سب سے بنیادی اصول حاکمیتِ اعلیٰ کا تصور تھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اسلامی ریاست میں اقتدار کا سرچشمہ عوام ضرور ہیں، مگر حتمی بالادستی اللہ تعالیٰ کے احکام کو حاصل ہوتی ہے۔ قرآن و سنت ان کے نزدیک وہ مستقل اصول تھے جن کی روشنی میں آئین، قانون اور پالیسی تشکیل پاتی ہے۔ وہ اسلام کو جامد نہیں بلکہ ایک زندہ اور متحرک نظام سمجھتے تھے، جو ہر دور کے تقاضوں کا جواب دے سکتا ہے۔ آئین کے حوالے سے قائداعظمؒ کا تصور نہایت واضح اور متوازن تھا۔ وہ ایک ایسے دستور کے خواہاں تھے جو جمہوری ہو، مگر اخلاقی حدود کا پابند بھی ہو۔ ان کے نزدیک جمہوریت محض اکثریت کی حکمرانی نہیں بلکہ ایک ذمہ دار نظام ہے، جہاں انصاف، مساوات اور انسانی وقار کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام اور جمہوریت میں کوئی تضاد نہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے قائداعظمؒ کو یہ موقع نہ مل سکا کہ وہ اپنے تصور کو عملی شکل میں مکمل دیکھ سکیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں تاریخ ایک نازک موڑ لیتی ہے اور ہم پر یہ سوال چھوڑ جاتی ہے کہ کیا ہم نے ان کے افکار کو سنجیدگی سے اپنایا یا انہیں محض جذباتی نعروں تک محدود کر دیا۔ آج جب ہم موجودہ پاکستان کے حالات کا تاریخی اور تجزیاتی جائزہ لیتے ہیں تو ایک واضح خلیج نظر آتی ہے۔ انصاف، جو قائداعظمؒ کے تصورِ مملکت کی بنیاد تھا، آج کمزور دکھائی دیتا ہے۔ قانون کی عمل داری اکثر طاقت، دولت اور تعلقات کے تابع نظر آتی ہے۔ ایک عام شہری کے لیے انصاف کا حصول ایک طویل اور تکلیف دہ عمل بن چکا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ہم قائداعظمؒ کے تصور سے دور ہو چکے ہیں۔ طبقاتی تفاوت ہماری ریاستی ساخت میں گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ اسلام جس مساوات کا درس دیتا ہے، وہ عملی زندگی میں کمزور نظر آتی ہے۔ تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی حقوق عام آدمی کے لیے مسلسل مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال قائداعظمؒ کے اس خواب سے مطابقت نہیں رکھتی جس میں ریاست اپنے شہریوں کی فلاح کی ذمہ دار ہو۔ جمہوریت، جو قائداعظمؒ کے نزدیک اسلامی اصولوں کا عملی اظہار تھی، آج ایک رسمی اور کمزور ڈھانچے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اداروں کی کمزوری، سیاسی عدم استحکام اور ذاتی مفادات نے جمہوری روح کو نقصان پہنچایا ہے۔ عوام کی شمولیت محدود ہوتی جا رہی ہے اور فیصلے چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ مذہب، جسے قائداعظمؒ اتحاد اور اخلاق کا سرچشمہ سمجھتے تھے، بدقسمتی سے بعض اوقات تقسیم اور تصادم کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ فرقہ واریت، عدم برداشت اور انتہاپسندی نہ صرف اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں بلکہ قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان سے بھی صریح انحراف ہیں۔ ریاست اور شہری کے تعلق کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی ایک فکری خلا محسوس ہوتا ہے۔ قائداعظمؒ کی نظر میں ریاست عوام کی خادم تھی، مگر آج اکثر شہری ریاست کو ایک جابر قوت کے طور پر دیکھنے پر مجبور ہیں۔ یہ عدم اعتماد اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے ریاستی اخلاقیات کو نظرانداز کیا ہے۔ اس تمام تجزیے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ موجودہ پاکستان مکمل طور پر قائداعظمؒ کے تصورِ مملکت سے ہم آہنگ نہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کا تصور آج بھی ہمارے لیے ایک زندہ فکری سرمایہ ہے۔ یہ تصور ہمیں بار بار آئینہ دکھاتا ہے اور یہ سوال پوچھتا ہے کہ ہم نے اس نظریاتی امانت کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ قائداعظمؒ کا پاکستان کوئی مثالی یا غیر عملی ریاست نہیں تھا بلکہ ایک قابلِ عمل نظریہ تھا، جس کی بنیاد عدل، مساوات، جمہوریت اور اخلاق پر رکھی گئی تھی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کے افکار کو تاریخ کی کتابوں سے نکال کر عملی زندگی میں جگہ دیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں فکری انتشار سے نکال کر ایک باوقار قوم کی حیثیت دلا سکتا ہے۔ قائداعظمؒ کا خواب ابھی مرا نہیں، مگر وہ ہماری توجہ اور سنجیدہ عمل کا منتظر ہے۔ سوال صرف یہ نہیں کہ قائداعظمؒ کیا چاہتے تھے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور ہم اس کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ جب تک ہم اس سوال کا دیانت دارانہ جواب نہیں دیں گے، پاکستان اور قائداعظمؒ کے تصور کے درمیان یہ فاصلہ باقی رہے گا۔ |
|