خاموش صدائیں
(Tooba Khan , Dera Ghazi Khan)
خاموش صدائیں (غزہ کے نام) "امی... مجھے بھوک لگی ہے... آپ سن رہی ہیں؟ "بابا! آپ آ گئے؟ دیکھیں نا، میں واقعی بھوکا ہوں۔" ایک ننھی سی آواز، محض چار سال کے بچے کی، ملبے کے درمیان گونجی۔ دھول نے اس کے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا اور پیٹ بھوک سے کراہ رہا تھا۔ لیکن ماں خاموش کھڑی تھی، ویران آنکھوں سے تباہ شدہ منظر کو تکے جا رہی تھی۔ آنسو جیسے آنکھوں کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ اُن کی نظریں ان جگہوں پر جمی تھیں جہاں کبھی ان کا گھر تھا۔ اُس نے بیٹے کو دیکھا، پھر فوراً نظریں جھکا لیں۔ سسکیاں گلے میں اٹک گئیں، مگر لب سلے رہے۔ "امی، دیکھیں نا، آپی ابھی تک سو رہی ہیں۔ مجھے لگتا ہے وہ بھی بھوکی ہے۔ کب سے سوئی ہوئی ہیں، اب اُٹھا لیں نا۔ مجھے یہ کھیل اچھا نہیں لگ رہا"۔ ماں کے ہاتھ سختی سے مٹھیوں میں بند ہو گئے۔ وہ کچھ نہ بول سکی۔ اس کی بیٹی، کچھ ہی قدم دور ملبے میں بے حس و حرکت پڑی تھی۔ ایک ننھی سی لاش، جس کا جسم جنگ کی درندگی کا گواہ تھا۔ ماں دھیرے سے بیٹی کے پاس گئی، اُس کے قریب بیٹھ گئی۔ اُدھر باپ چند قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا۔ آنکھیں سرخ، جبڑا بھینچا ہوا، مٹھیاں سخت۔ وہ غم کی آخری حد پر تھا، جیسے ایک قدم اور بڑھتا تو ٹوٹ جاتا۔ اُس کی بیٹی ایک بمباری کے دوران حملے میں شہید ہو چکی تھی. امن کے دعوے داروں کے ہاتھوں۔ :بچہ باپ کی طرف دوڑا، اُس کا دامن کھینچنے لگا "بابا، آپی کو کیا ہوا ہے؟ وہ جاگ کیوں نہیں رہی؟" باپ نے آنکھوں پر ہاتھ پھیرا، وہ طاقت جمع کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو اس میں بچی ہی نہیں تھی۔"بیٹا... آپی اللہ کے پاس چلی گئی ہے،" اُس نے آہستہ سے کہا۔ بچے نے معصومیت سے پلکیں جھپکائیں "بابا، وہ ہمارے بغیر وہاں کیسے رہیں گی؟" باپ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، بیٹے کے کانپتے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور بولا"اللہ اُن سے بہت محبت کرتا ہے، اسی لیے اپنے پاس بلا لیا۔ وہاں محفوظ ہے۔ اللہ پاک اُس کا خیال رکھے گا"۔ :بچے کے چہرے پر ہلکی سی چمک آئی "کیا اُسے وہاں بہت سارا کھانا ملے گا اور اچھے کپڑے بھی؟" ماں، جو بیٹی کے وجود پر جھکی ہوئی تھی، ایک ایسی چیخ نکالتی ہے جو پتھر کو بھی چیر دے۔ "ہاں بیٹا،" باپ نے سرگوشی کی، "وہاں سب کچھ ہے۔ جو جو وہ چاہتی تھی "کیا وہ ہمیں ملنے آئے گی؟" بچے نے پوچھا۔ باپ کا لہجہ لرزنے لگا، "ایک دن... ہم اُس کے پاس جائیں گے لیکن ابھی نہیں"۔ بچے نے سر ہلایا، جیسے اس سچ کو تسلیم کر رہا ہو۔ "پھر میں بھی جانا چاہتا ہوں، بابا۔ میں بھی اُس کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں"۔ "نہیں بیٹا، ابھی نہیں،" باپ کا لہجہ اچانک مضبوط ہو گیا۔ "تمہیں یہاں رہنا ہے۔ تمہیں اُس کے لیے جینا ہے۔" بچے نے اردگرد نظر دوڑائی، ٹوٹی ہوئی گلیاں، تباہ شدہ دیواریں: "ہمارا گھر ختم ہو گیا، میرے سب دوست بھی چلے گئے... کیا وہ بھی اللہ کے پاس چلے گئے ہیں؟" باپ خاموش رہا۔ صرف سر ہلایا۔ ہونٹ بند، دل میں بس ایک ہی دعا: رحم... میرے بیٹے پر، میرے شہر پر، میری قوم پر۔ کاش دنیا ہمیں صرف اعداد نہ سمجھے، بلکہ بکھرے ہوئے خاندانوں، خوابوں، اور کہانیوں کے طور پر یاد رکھے۔ پھر.... ایک اور سائرن۔ ایک اور دھماکہ۔ ایک چمکتی ہوئی روشنی۔ اور پھر مکمل خاموشی۔ جب بچے نے آنکھیں کھولیں، سب کچھ بدل چکا تھا۔ نہ گرد، نہ ملبہ، نہ دھواں۔ اُس نے اپنے لباس کی طرف دیکھا. سفید، روشن، نور سے بھرا ہوا۔"امی؟ بابا؟" اُس نے آواز دی۔ اور پھر وہ نظر آئے۔ ماں، باپ، اور آپی، سب سفید نور میں لپٹے، چہروں پر سکون اور مسکراہٹ۔ "ہم تمہیں لینے آئے ہیں،" اُنہوں نے ہاتھ بڑھایا۔ بچہ دوڑ کر اُن کے گلے لگ گیا اور وہ سب ساتھ چل پڑے… روشنی کی طرف۔ جہاں نہ سائرن تھے، نہ جنگ۔ بس ایک ایسا سکون، جو یہ دنیا کبھی نہ دے سکی۔ |