اُردو ادب کے ممتاز شاعر نثرنگار سید جون اصغر المعروف
جون ایلیاء امروہہ ہندوستان علامہ شفیق حسن ایلیاء کے گھر پیدا ہوۓ- شفیق
حسن ایلیاء اپنے دور کے جید عالم اور ماہر فلکیات تھے-جون نے ابتدائی تعلیم
اپنے والد سے حاصل کی-جون ایلیاء اُردو عربی فارسی اور عبرانی زبان پر عبور
رکھتے تھے-جون ایلیاء نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز آٹھ برس کی عمر میں شعر
کہہ کر کیا -
چاہ میں ُاس کی تماچے کھاۓ ہیں
دیکھ لو ُسرخی میرے ُرخسارکی
بقول انکے یہ ایک حادثہ تھا - جون ایلیاء اپنی طرز کے منفرد شاعر ہیں انکی
شاعری میں کلاسکیھ اور جدت پسندانہ دونوں طرح کا رنگ موجود ہے-
انکی شاعری میں ُاداسی ، طنز، شدت، جذبات، داخلیت، خارجیت،جنسیت اور
انقلابیت پائی جاتی ہے- وہ ایک بڑے شاعر تو تھے ہی اپنے لہجہ کے خود خاتم
بھی تھے۔ لکھتے تو الفاظ ہاتھ باندھے کڑی در کڑی جڑتے جاتے مصرع سے شعر اور
شعر سے غزلیں بنتی چلی جاتیں۔ مشاعرے میں موجود ہوتے تو اپنے مخصوص انداز
میں سامعین کے دلو ں میں گھر کر جاتے گویا جون کے بغیر مشاعرے ہی نا مکمل
ٹھہرتے۔ مشاعرہ پڑھتے تو دادو تحسین ہمیشہ انکا مقدر ٹھہرتی۔ کتنے خوب صورت
شعر کہہ گئے۔
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
اک ہی شخص تھا جہان میں کیا
کیا کہا عشق جاودانی ہے
آخری بار مل رہی ہو کیا
ُاس کے و صال کے لیے اپنے کمال کے لیے
حالت دل کہ تھی خراب اور خراب کی گئی
ُاسکی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے عمر گزار دی گئی
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لو گ مر جائیں گے
غزل ہو یا نظم صنف شاعری کی تمام اصناف سے بخوبی واقف تھے انکی شاعری میں
وہ استاد انہ پن موجود تھا جو آجکل ناپید ہے۔ مشکل تو وہ لکھ ہی لتیے تھے
آسان لکھنے کی دشواریوں سے بھی واقف تھے ۔ قافیہ ہو یا ردیف بحر ہو یا
تشبہیہ استعارہ ہو یا کنایہ الفاظ کو جوڑنے کا ایسا فن کمال کہ جیسے
انگھوٹی میں نگینے جڑے ہوں۔ نثر نگاری کا آغاز کتب کے تراجم سے کیا ساتھ ہی
ساتھ انشائیے تحریر کیے جو انکی کتاب فرنود میں موجود ہیں۔ انکی تحریر میں
الفاظ کی بُنت کاری حقیقت کا چولہ پہنے کسی دلہن کے لباسِ عروسی کی طرح
چمکتی دمکتی آنکھوں کو خیرہ کرتی چلی جاتی ہے ۔ قاری کو اپنے سحر میں جکڑے
بغیر پڑھنے پر مجبور کرتی جاتی ہے ۔ انکی نثر کسی صورت محمد حسین آزاد ،
اور ابوالکلام آزاد سے کم نہیں الفاظ میں عربی ، فارسی اور عبرانی زبان کا
تگڑم تحریر کو دوچندکر دیتا ہے۔جون ایلیاء کی شاعری میں جابجا خون تھوکنے
کا ذکرآیا ہے انکی شاعری میں خون تھوکنے سے متعلق کافی شعر موجود ہیں۔ جون
کی یہ خون تھوکتی زندگی انکی ازدواجی زندگی کی ناکامی کا سبب بنتی ہے تو
اُداسی کے تلخ گھونٹ پیتے ہیں شبِ جدائی انکے جگر پارہ پارہ کر دیتی ہے تو
جذبات کی شدت اس جدائی پر یو ں نوحہ کناں ہوتی ہے۔
اس مسلسل شب جدائی میں
خون تھوکا گیا ہے مہ پارہ
جون ایلیاء مشاعروں میں اپنی شاعری سے زندگی پیدا کر دیتے تھے اپنے مخصوص
انداز سے سامعین سے داد تو وصول کرتے تھے ساتھ ہی اپنی قلبی واردات سے بھی
پردہ چاک کر دیتے تھے۔ جون اپنے اشعار میں کیسے خوبصورت انداز میں اپنی دل
شکستگی کا ذکر کرتے تھے۔
بول کر داد کے بول
خون تھکوا لو شعبدہ گر سے
اپنے حجرے کا کیا بیاں کہ یہاں
خون تھوکا گیا شرارت میں
میں ہنر مندِ رنگ ہوں میں نے
خون تھوکا ہے داد پائی ہے
رنگ ہی کیا تیرے سنورنے کا
ہم لہو تھوک کر سنورتے ہیں
جون جس انداز کے شاعر تھے۔ اس کو سمجھنے کیلئے ہمیں اُن کے فکری ڈسپلن کو
سمجھنے کہ ضرورت ہے ۔ جس میں وہ شعر کہتے تھے۔ مثلاً الفاظ کی ترکیب کو
سمجھنا۔ اسکے پیچھے ان علوم کو سمجھنا بہت ضروری ہے جس سے جون واقف تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری کم علمی ہمیں جون سے دور کر رہی ہے۔ ہمیں جون کو پڑھنے
اور انکے فکرو فن کو سمجھنے کہ ضرورت ہے۔ جب ہم نے جون کو صحیح معنوں میں
سمجھ لیا جون کی مقبولیت میں اور اضافہ ہو جاے گا کیونکہ اُنکی لہو تھوکتی
زندگی نے انکی شاعری کو جو سُرخ رنگ بخشا ہے اسکی چند چھنیٹیں ہی کسی بھی
ناقد کی ادبی زندگی کو سرخرو کرنے کیلئے کافی ہیں۔
جون ایک ایسا وجود تھا جس نے زندگی اپنی مخصوص جون ہی میں جی ہے وہ جذباتیت
، ہیجان ، یاسیت، انقلاب الغرض زندگی کی ہرجہت کا نمائندہ تھا- زندگی کا
جتنا قریبی مشاہدہ جون نے کیا اُتنا ہی بغیر لگی لپٹی لکھ دیا۔ جیسے سچ کا
سُرخ رنگ تاریخ کی زنیت بنا ویسا ہی جون کی شاعری کو چمکا رہا ہے۔
جون کی شخصیت کو بس جون ہی کے پیراےمیں بیان کیا جا سکتا ہے۔
یہ ایک جبر ہے اتفاق نہیں
جون ہونا کو ئی مذاق نہیں |