سرحد کے باسیوں کی مادری زبان پشتو ہے اور کہا جاتا ہے کہ
انسان سب سے اچھی تخلیق اپنی زبان میں کرتا ہے کیونکہ وہ اپنی زبان میں ہی
سوچتا ہے اور اسی کو وہ زبان پر لاتا ہے جبکہ اسی طرح اگر کسی انسان پر
کوئی اور زبان مسلط کر دی جائے تو وہ اس میں اس طرح تخلیق نہیں کرسکتا جو
وہ اپنی زبان میں کر سکتا ہوں لیکن سرحد کے لوگوں کا نیچر ہی ایسا ہے کہ
جنہوں نے نہ صرف اپنی زبان میں نامور ادیب ،شاعر اور فلسفی پیدا کئے بلکہ
اس خطے کی دوسری زبانوں میں بھی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہییہی وجہ ہے کہ
اردو زبان کی ترقی میں سرحد کے باسیوں کے بھی خدمات قابل ذکر ہے پروفیسر
ڈاکٹر نذیر تبسم نے ایک کوشش کی جس میں انہوں نے سرحد کے اردو غزل گو شعراء
کے عنوان ایک کتاب مرتب کی ہے جس پر جامعہ پشاور سے انکو ڈاکٹریٹ کی ڈگری
سے نوازا گیا اس کتاب میں سرحد کے اردو غزل کہنے والے شعراء پر تبصرہ کیا
گیا ہے اور اس میں ان کے کلام سے بھی واضح مثالیں دی ہیں اس کتاب کے ابواب
کو کچھ اسطرح سے تقسیم کیا گیا ہے کہ پہلا باب بیسویں صدی اور اردو غزل کا
سیاسی و فکری منظر نامہ کے عنوان سے ہے جس میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد
جو ہندوستان کے لئے ایک المیہ ثابت ہوا اور اس کے بعد آنگریزوں کا ہندوستان
پر قبضہ کرنا ان سب سیاسی حالات کت جو بھی اثرات اردو غزل پر پڑے اور اس سے
جو تبدیلیاں رونما ہوانکا پہلی باب میں جائزہ لیا گیا ہے اس دور میں اردو
ادب میں نئے رجحانات بھی سامنے آے اور جسطرح حالات نے پلٹا کھایا وہی اثر
ادب پر بھی پڑا ۔اسی کتاب کا باب دوئم صوبہ سرحد کے صاحب دیوان غزل گو
شعراء (1947 تا1970) کے عنوان سے ہے اور 1947سے 1970تک جتنے بھی صاحب دیوان
غزل گو ہیں انکا تعارف بمعہ کلام موجود ہیں اشرف سرحدی،قتیل شفائی ،فارغ
بخاری،احمد فراز،وغیرہ کے نام شامل ہیں باب سوئم میں 1971سے1980تک جو شاعر
منظر عام پر آئے اور جنکا کلام شائع ہو گیا تھا یہ باب ان پر مشتمل ہیاور
شجاعت علی راہی سے لے کر نرجس آفروزیدی تک کا ذکر ہے باب چہارم میں 1981سے
1990تک کے شعراء اور اسی طرح باب پنجم میں 1991تا2000ء تک کا ذکر ہے چونکہ
پہلے پانچ ابواب میں صاحب دیوان شعراء کا ذکر کیا گیا ہے لیکن بعض ایسے
شاعر بھی سرحد کے غزل گو اردو ادب کے حوالے سے ہیں جن کا کلام کسی وجہ سے
دیوان میں یا مجموعے کی شکل میں شائع نہ ہو سکا اب یہ پروفیسر ڈاکٹر نذیر
تبسم کی وسعت نظری ہے کہ انہوں نے ان شعراء کو فراموش نہیں کیا اور انکی
بھی پہچان کرائی اور ان پر تبصرہ کرنے کے لئے غیر صاحب دیوان شعرا کے عنوان
سے باب ششم میں ذکر کیا ہے اور انکی تعداد 194 ہے آخری باب ہفتم سرحد کے
اردو غزل گو شعرا کا مجموعی طرز احساس کے عنوان سے شعرا کا مجموعی جائزہ
لیا گیا ہے آج ضرورت اس کی ہے کہ ہر اردو کے طلباء کو چاہئے کہ اس کتاب کا
مطالعہ کرے کیونکہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو جاتاہے کہ سرحد کے
باسیوں نے بھی اردو میں نہ صرف لکھا بلکہ اس میں نام بھی پیدا کیا ہیاردو
ادب کو یہ کتاب عطا کرکے پروفیسر نذیر تبسم نے احسان کیا اور انکی اس احسان
کی وجہ سے باہر کے لوگ اردو غزل میں نام پیدا کرنے والے سرحد کے شاعروں کے
علم میں آجائیگا خصوصی طور پر آج کے دور جب سرحد موجودہ خیبر پختونخوا کے
بارے ایک سوچ پایا جاتا ہے کہ دہشتگردی اس میں پھیلی ہے اور خاص کر پٹھانوں
سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے اب ایسی سوچ رکھنے والوں کو علم ہونا چاہئے
کہ علم و ادب میں بھی خہبر پختونخوا کا نام سر فہرست ہونا چاہئے بجائے اسکے
کہ ہم نفرت اور تعصب کی نظر سے دیکھے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم بھی کسی
سے کم نہیں احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ برتری کا سوچ لے کر
علم کے سمندر میں ایک غوطہ لگانا ہے کہ اپنا مستقبل روشن کر سکے اور نہ صرف
اردو ادب میں بلکہ تمام علوم میں سرخرو ہو جائے اور دہشتگردی کا ٹیگ خود سے
مٹا کر تعلیم و تعلم کا لیبل ہمارے نام اور ہر کام کے ساتھ شامل ہو جائے - |