روشنی کی ایک کرن

ہمارے ملک کے بیشتر سیاست دان مارشل لا کی پیدوار ہیں یہ ایک اٹل حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جو کہ خود ایک مارشل لا کے ذریعے سے اقتدار میں آئے تھے اور جن کے آنے کے بعد ان کے کا اروبار کو جو کہ ان کے ابا جی کرتے تھے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنا شروع کر دی ہر زی شعور پاکستانی جانتا ہے کہ پاکستان میں کاروبار کے لئے کیا حالات ہمیشہ سے ہی رہے ہیں ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر آپ کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاست بھی کرتے ہیں تو پھر آپ کا کاروبار بھی چلے گا بلکہ دوڑے گاا ور آپ کی سیات بھی چمکے گی یہی حالات ہمارے سبھی سیاست دانوں کا ہے جنھوں نے سیاست کو کاروبار بنا یا ہوا ہے یہ کسی ایک کا نہیں سبھی کا وطیرہ ہے کہ سیاست کو عوام خدمت کے بجائے آپنے کاروبار کی ترقی و ترویج کے لئے استعمال کیا یوں یہ سیاسی لوگ پاکستان کی عوام کے اس قدر دشمن ہوئے کہ آج ملک بھر میں کرپشن، کرپشن کا شور سب سے زیادہ ہے ان کے پیچھے اگرچہ دیگر لوگوں کو بھی سمجھا جاتا ہے مگر سب سے زیادہ تعداد یہا ں سیاسی لوگوں کی ہے جو اپنے فائدے کے لئے سیاست کرتے ان کے لئے سیاست ان سے شروع ہو کر ان پر ہی ختم ہو جاتی ہے ایسے میں اگر چند منچلے تبدیلی کے خواہاں لوگ نعرے لگاتے ہوئے کسی میاں ،رانے ،راجے ،چوہدری کے لئے یہ ذہن میں خیال پالتے ہیں کہ وہ جناب اگر الیکشن جیت گیا تو بڑا ہی اچھا ہو گا وہ آتے ہی ترقی کے وہ زینے تعمیر کرئے گا جن پر چڑھ کر ہم اپنی منز ل پالیں گے تو جناب یہ صرف ہماری بھول ہے پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ان سیاست دانوں میں سے چند ایک کے سواء کسی نے بھی عوام کے لئے نہیں سوچا اگر سوچا تو اپنے لئے اپنی اولادوں کے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے لیکن چند ایک نے اگر عوام کی فلا ح کے لئے کوئی کام کیے تو عوا م آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں۔ موجود ہ حکومت جو ترقی و کامرانی کے دعوے کرتی ہر جگہ نظر آتی ہے مگر یہ ترقی اس غبارے کی مانندد ہے جس میں ہوا بھری جائے اور پھر کہا جائے کہ جناب اس کا حجم اتنا ہی بڑا ہے مگر دوسرے ہی لمحے جب ہوا نکلے گی تو غبارہ اپنی اصل جسامت پر واپس آجائے گا ملکی معیشت کو جادو کے ذریعے سے مستحکم کرنے والے ڈار صاحب کو تو کھبی آپ نے دیکھا ہو گا ان کے دور میں پاکستان کا خزانہ تو خالی رہا مگر ان کے اپنے خزانے لبا لب بھر چکے ہیں ان کی دولت کا شمار کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے ماہرین کو لانا ہو گا جو ان کی دولت کا حساب کریں گے اور بتائیں گے کہ ڈار صاحب نے وزیر خزانہ ہوتے ہوئے وہ عظیم ترقی کی جو کسی اورکو پاکستان میں کاروبار کر کے نہیں مل سکی اﷲ تعالیٰ کی پکڑ بھی بڑی سخت ہوتی ہے سو ویسا ہی ہوا کل کے حاکم آج عدالتوں میں خجل ہو رہے ہیں اور ان لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ ان کو کیوں نکالا گیا حالانکہ سارا کچھ پوری قوم کے سامنے ہے کہ کس طرح ان لوگوں نے ہمارے ملک کا دیوالیہ نکال کر اپنے پیٹ بھر لیے اور عوام بیچارے وہیں کے وہیں ہیں جہاں سے چلے تھے اس طرح بڑے میاں صاحب جو اپوزیشن میں تو حکومت کو عدالتوں کا احترام کرنے کے سلیقے بتایا کرتے تھے آج کل خود بے احترامے ہو چکے ہیں اور لفظوں کی وہ گولہ باری شروع کی ہوئی ہے جو اعلیٰ عدلیہ کے لئے ہے مگر مجھ سمیت ہر پاکستانی کو پتا ہے کہ اس کا اثر ان پر الٹا ہی پڑے گا اگر چاند پر تھوکو گے توتھوک کہا جائیگا ۔ چھوٹی سی مثال ہے کہ اگر ایک عام آدمی کسی بھی چھوٹی سے چھوٹی عدالت سے سزا یافتہ ہو جائے تو کیا وہ کھبی عدالت کے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر سکتا ہے ایسی کوئی مثال ہمارے ملک میں موجود نہیں مگر قربان جائیں بڑے میاں صاحب کے جنھوں نے اس ملک کی سب سے بڑی عدلیہ کا ناصرف فیصلہ ماننے سے انکا ر کیا بلکہ الٹا چور کی طرح کوتوال کو ڈانٹ رہے ہیں اب تو جو جو فیصلے ان کے خلاف آئیں گے اس میں انھیں سازش ہی نظر آئے گی اور اگر بات کی جائے ان کے خلاف ہونے والی وہ سازش جومیاں صاحب کی انکھ سے ہی نظر آتی ہے تو پھر یہ بات بھی سامنے آتی ہے اور وہ سازش بھی ان کے اپنے لوگوں کی ہی تیار کردہ ہو گی ان کی اپنی پارٹی کے لوگ آئے روز ان کے خلاف وہ بیانات دے رہے ہیں جو واقعی سازش معلوم ہوتی ہے جب کسی ملک کا حاکم ناہل ہو تو اس ملک کے وہ تمام ادارے جو اس کے تابعے تھے وہ بھی ناہل تصور کیے جاتے ہیں کیونکہ ان میں بیٹھے لوگوں کا تقرر اس نے ہی کیا ہوتا ہے اور جب کسی ملک کا سربراہ خود بھی ملک کو لوٹے اور کہیے کہ یہ چوری نہیں ہے جناب یہ تو ہمارا کاروبار ہے تو پھر اس ملک کی ترقی کا وہی حال ہوتا ہے جو آج ہمارے سامنے ہے ملکی قرضے بڑھ کر وہاں پہنچ رہے ہیں جہاں کھبی تاریخ میں نہیں پہنچے معیشت بیٹھ چکی ہے بجلی کا بحران سر اٹھا رہا ہے کرپشن کا گراف آسمان کو چھو رہا ہے مگر ہمارے حاکم چین کی بانسری بجا کر عوام کو یہ بتا رہے ہیں کہ جناب ہم تو کام کرنا چاہ رہے ہیں مگر ہمیں کرنے نہیں دیا جا رہا ایسے حاکموں سے اگر ہمارے ملک کو نجات مل جائے تو ہم حقیقت میں ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں ورنہ جن جھمیلوں میں ہمیں ہمارے حاکموں نے ڈال دیا ہے اس سے سے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہی نظر آتا ہے مگر ہمیں مایوس نہیں ہونا کیونکہ جب گھپ اندھیرا چھا جائے تو روشنی کی کرن کہیں نہ کہیں سے پھوٹتی ہے جو گھپ اندھیرے کو روشنی میں بدل دیتی ہے اور اب کی بار یہ امید کی کرن نوجوانوں سے نکلی ہے اور یقینا ہمارے نوجوان ملک میں تبدیلی لائیں گے اور ایک بار پھر اس ملک کو ترقی یافتہ اور پر امن پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227060 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More