اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 2010کی قرارداد کے مطابق
صاف، محفوظ پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی بنیادی انسانی حقوق میں
شامل ہیں یہ انسانی زندگی کا جز ہے۔اس کے بغیر کسی قسم کی انسانی، حیوانی،
زرعی یا صنعتی سرگرمیاں ناممکن ہیں۔ اگرچہ کرۂ ارض کا75فیصد حصہ پانی پر
مشتمل ہے لیکن اس پانی کا 97.5فیصد حصہ کھاراہے جبکہ صرف 2.5فیصد میٹھا ہے۔
میٹھے پانی کی فراہمی میں گلیشیئرز کا حصہ 68.7فیصد، زیر زمین 30.1فیصد، ُ
Permaforest 0.8 فیصد اور زمینی اور بخاراتی پانی کا تناسب 0.4فیصد ہے۔
پانی کی کمی سے خوراک میں کمی، مال مویشی کی ہلاکتیں، بڑے پیمانے پر آبادی
کا انخلاء اندرون و بیرون ملک ہجرت، انسانی صحت اور خوشحالی، بچوں میں پانی
سے پیدا ہونے والی بڑھتی ہوئی بیماریاں حضرت انسان کے لیے خطرے کا باعث ہیں
بین الاقوامی دنیا کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا پانی کی قلت کی وجہ
آسمانی یا قدرتی آفت نہیں ہے بلکہ انسانی غفلت اوربری گورنس ہے یادر رکھنا
چاہیے کہ میٹھے پانی اورآبادی کا تناسب ہر براعظم میں یکساں نہیں ہے شمالی
اوروسطی امریکہ دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 8فیصد ہیں لیکن اس کے پاس پانی
کے تقریباً 15فیصد وسائل ہیں جبکہ جنوبی امریکہ دنیا کی کل آبادی کا 6فیصد
ہے اوراس کے پاس پانی کے 26فیصد ذخائر ہیں اسی طرح یورپ کل آبادی کا 13فیصد
ہیں اس کے پانی ذخائز 8فیصد ہیں اسٹریلیا کل آبادی کا 1فیصد ہے اس کے پانی
کے ذخائر 5فیصد ہیں افریقہ کل آبادی کا 13فیصد ہے اس کے پانی کے ذخائر
11فیصد ہیں ایشیاء کل آبادی کا 60فیصد ہے اس کے پاس 36فیصد پانی کے ذخائر
ہیں ایک جائزہ کے مطابق ہر سال0.11ٹریلین لیٹر بارش ہوتی ہے جس کا 92فیصد
ضائع ہوجاتا ہے ایشیاء میں اس پانی کے ضائع ہونے کی وجہ ریاستی مشینری کی
غفلت اور لاپرواہی کے وجہ سے ہے اس وقت فی کس پانی کی دستیابی کی
شرح6000کیوبک میٹر سالانہ ہے انسانی، زرعی ، صنعتی اور ماحولیاتی ضرورت کے
لئے 1000کیوبک میٹر سالانہ کی ضرورت ہوتی ہے امریکہ میں پانی کا سالانہ
استعمال 3000کیوبک میٹرہے۔ شام اردن میں 500اور یمن میں 200کیوبک میٹر
سالانہ پانی دستیاب ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں پانی کے فی کس استعمال کی شرح
زیادہ ہے لیکن پانی کے بہترانتظام کی تکنیکوں اور عمل کی بدولت وہ اپنی
آبادی کی مستقبل کی ضروریات پورا کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔انسانی
آبادی سال1927میں صرف2ارب تھییہی آبادی 2050میں9.3 ارب ہو جائے گی۔ جس کے
لئے پینے،زراعت ، ،توانائی ،خوراک صنعت کے لئے صاف پانی کی مزیدذخیروں کی
ضرورت ہو گی۔ عالمی ادارہ خواک کے مطابق2050تک آبادی کی ضروریات کو پورا
کرنے کے لئے خوراک کی پیداوار میں70، انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق
تونائی کی پیداوار میں2035تک 36فیصد اور عالمی واٹر ریسورسز گروپ کے
اندازوں کے مطابق تازہ پانی کے ذخائر میں نمایاں اضافہ کرنا ناگزیر
ہے۔اندیشہ ہے کہ2025تک 3ارب لوگ پانی کی کمی کا شکار ہوں گے۔ جس میں ایشیاء
اور افریقہ کے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی ایک سروے کے مطابق دنیا کے
مختلف ممالک میں پانی استعمال کرنے کی شرح مختلف ہے اگرچہ جنوبی ایشیاء میں
کل زمین کے ایک تہاتی قابل استعمال پانی کے ذخائر ہیں لیکن یہاں کے لوگوں
کو کل کرۂ ارض کے 43,659ارب مکعب میٹرسالانہ قابل استعمال پانی کا صرف
4.2فیصد یعنی 1945ارب مکعب میٹرپانی دستیاب ہے ۔زراعت کے لئے عالمی سطح
پر70فیصداستعمال کے برعکس اس خطہ میں تقریباً 90 سے 95فیصد پانی زراعت کے
مقاصد کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ جبکہ صنعتی اور گھریلو استعمال کی
شرح خاصی کم ہے۔ شرح نمود کی نسبت پانی کی دستیابی کے لئے سرمایہ کاری کی
شرح عالمی سطح پر پانچ بڑے ممالک برازیل، چین، فرانس میکسیکو اور امریکہ کے
24ڈالر فی معکب میٹر پانی کی نسبت جنوبی ایشیاء میں یہ شرح1.4 سے 4ڈالر ہے۔
اس خطہ میں انسانی آبادی اورصنعتی سرگرمیوں کا شدید دباؤ ہے۔ پانی کے
استعمال میں توازن رکھنے کے لئے یہاں پانی کے دستیاب زخیروں سے استفادہ
حاصل کرنے کے لئے آبادی کو صاف پانی کی فراہمی ، نکاسی آب، زراعت و خوراک،
بجلی کی پیداوار، سیلابوں پر قابو، سیم و تھور اور موسمی تغیرات سے بچاؤ،
ماحولیاتی آلودگی، بڑے ایشو ہیں جنوبی ایشیاء کومسقبل قریب میں پانی کی
شدید قلت کا سامناہوسکتا ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ہر چھ
میں سے ایک شخص ، 2025میں دنیا کے آدھے ممالک اور2050میں ہر پانچ میں سے
تین شخص پانی کی کمی کا شکار ہوں گے پاکستان میں زیرزمین پانی کی سطح میں
دن بدن کمی واقع ہورہی ہے اور 80فیصد پاکستانی آلودہ پانی استعمال کرنے پر
مجبور ہیں اس تمام صورت حال کے باوجود پانی سے متعلق امور، اس کے ذخیرہ ،
اس کی ری سائیکلنگ ، انفراسٹرکچراور استعمال کو دور جدید کے تقاضوں کے
مطابق ڈھالنے پر کوئی خاص کام نہیں کیا جارہا ہے زیر زمین پانی کے نکالنے
کا کوئی ضابطہ نہیں ہے، جس کا جہاں اور جتنا دل چاہے زمین سے پانی نکال
سکتا ہے۔ ان ٹیوب ویلوں کے علاقوں میں زیر زمین پانی کا لیول مسلسل گر رہا
ہے۔صنعتی اور زرعی صارفین کے جہالت خود غرضی اور برے انتظام کی بدولت
دریاؤں، نہروں اور زیر زمین پانی کی آلودگی بڑھ رہی ہے اور میٹھے پانی کے
موجودہ ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ پانی کے وسائل میں بد
انتظامی، زیر زمین گنجائش سے زیادہ پانی کی نکاسی، بڑھتی ہوئی آبادی، موسمی
تغیر، ماحولیاتی تبدیلی، کم ہوتی بارشیں برفانی تودوں کا پگلاؤہے۔ بری
انتظامیہ، فرسودہ قوانین، صنعتی، زرعی ، حیواناتی انسانی فضلہ، آبادی میں
اضافہ نے اس صورتحال کومذید گھمبیر کررہی ہے زندگی کو بچانے کے لئے میٹھے
پانی کو بچانا ہو گا ہمیں پانی سے متعلق قومی پالیسی مرتب کرنا ہوگی اور
پانی کے دستیاب وسائل کوضائع ہونے سے بچانا ہو گا پانی سے متعلق قوانین کو
جدید دور کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ پانی کی سپلائی لائینوں کو ٹھیک حالت میں
رکھنا ہوگا اور اس کو گٹر کی لائنوں سے ملنے اور رسنے سے روکنا ہو گا۔ پانی
کے استعمال سے متعلق عوام کے رویوں میں تبدیلی لا نی ہو گی ۔ ان اقدامات سے
ہم اپنی آئیندہ نسلوں کے لئے قدرت کی اس نعمت اور بنیادی ضرورت کو بچا سکیں
گے قومی قیادت کے چاہیے کہ ذاتی مفادات کی بجائے قومی مفادات پر توجہ مرکوز
کریں تاکہ پیش آمدہ مسائل چھٹکارا پایا جاسکے اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے
مطابق پاکستان کا شمار ان پانچ ممالک میں ہوگیا ہے جنہیں پانی کی شدید قلت
کا سامنا ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ 60 برسوں کے دوران پاکستان
میں ہر شخص کو دستیاب پانی کی سالانہ مقدار میں4360کیوبک میٹر کمی واقع
ہوئی ہیں۔1951میں ہرشخص کوسالانہ 5260 کیوبک میٹرپانی دستیاب تھا جب کہ
2016 میں مزید کم ہوکرفی شخص سالانہ پانی کی دستیابی محض900 کیوبک میٹر تک
رہ گئی۔اگر پاکستان نے پانی کے ذخائرنہ بنائے اورسیلابی پانی کا دانشمندانہ
اقدام نہ کیاتو 2035 تک فی کس پانی کی دستیابی کی شرح مزید کم ہوکر 500
کیوبک میٹر تک رہ جائیگی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سٹینڈرڈ کے مطابق
کسی بھی ملک کی مجموعی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کم از کم 120
دنوں کی پانی زخیرہ ہونا ضروری ہے لیکن اس کے برعکس اس وقت پاکستان کی اوسط
ضروریات کو پوراکرنے کے لیے محض 30 دنوں کے لیے ذخیرہ ہے اگر پانی کے تحفظ
کے لیے کوئی قومی پالیسی ترتیب نہ دی گئی تو اس کے اثرات لوڈشیڈنگ اوردہشت
گردی سے بھی زیادہ بھیانک ہوں گے ارباب اقتدار کو جلدازجلد اپنی توجہ اس پر
مرکوز کرنی چاہیے۔ |