“کچھ بات ‘راجہ گدھ‘ پر“

'راجہ گدھ' مرحومہ بانو قدسیہ کا چھتیس برس پہلے لکھا ہوا زندگی بدلنے والا کلاسیکل ناول ہے. اس ناول کا موضوع حلال اور حرام میں فرق اور اسکا انسانی زندگی پر اثر ہے. ناول میں انسان کو گدھ (ایک پرندہ جو مردہ جانوروں کا گوشت کھاتا ہے) سے تشبیہ دی گئی ہے. جس طرح گدھ مردار جانوروں کا گوشت کھاتا ہے اسی طرح انسان بھی دوسروں کا حق چھینتا ہے اور حرام کما کر اپنا پیٹ بھرنے کے چکر میں لگا رہتا ہے.

یہ کہانی چار مرکزی کرداروں قیوم، پروفیسرسہیل، سیمی شاہ اور آفتاب کے گرد گھومتی ہے. کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ قیوم جو ایک دیہاتی لڑکا ہوتا ہے اسے اپنی کلاس فیلو سیمی (جو ایک ماڈرن اور اس قدر پرکشش لڑکی ہے کہ عام لڑکے تو ایک طرف یونیورسٹی کا ایک ٹیچر پروفیسرسہیل بھی اس کے عشق میں مبتلا تھا) سے محبت ہو جاتی ہے جبکہ سیمی اپنے ایک اور کلاس فیلو آفتاب کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے. لیکن آفتاب کو خاندانی مجبوریوں کے پیش نظر کہیں اور شادی کرنی پڑتی ہے. آفتاب کے اس قدم سے سیمی تنہا اور بے بس ہو جاتی ہے تو قیوم کو اپنا راستہ صاف ہوتا نظر آتا ہے اور وہ سیمی کے قریب هونے کی کوشش کرتا ہے. اس دوران وہ کئی دفعہ سیمی کی بے بسی کا فائدہ اٹھا کر اپنی جنسی خواہشات پوری کرنے کیلیے اسے استعمال کرتا ہے مگر ذہنی طور پر وہ اس لڑکی کو اپنے قریب لانے میں ناکام رہتا ہے. پھر سیمی اپنے عشق لاحاصل کے آگے ہار کر ذہنی مریض بن جاتی ہے اور بلا آخر خودکشی کر لیتی ہے. اب قیوم عشق لاحاصل، لا متناہی تجسس، حلال اور حرام کے فرق اور موت کی آگاہی سے آشنا ہوتا ہے. سیمی کی موت کے بعد قیوم کی زندگی بے رنگ ہو جاتی ہے. پھر پروفیسر سہیل جو کہ قیوم، سیمی اور آفتاب کا ٹیچر ہوتا ہے وہ اپنی ریسرچ سے ایک تھیوری پیش کرتا ہے اور قیوم کو بتاتا ہے کہ انسان کی دیوانگی کی وجہ رزق حرام کھانا ہے. حلال اور حرام کا ہمارے خون کی ساخت پر اثر ہوتا ہے. حرام کھانے والے نہ صرف خود دیوانگی کا شکار ہوتے ہیں بلکہ ان کی اولاد اور اگلی کئی نسلیں ابنارمل اور ناامید ہوتی ہیں. اس طرح حرام رزق نسلوں کو تباہ کر دیتا ہے. اس کے بعد قیوم دو اور خواتین کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور پھر خود ایک باکردار لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر اس کی شادی جس سے ہوتی ہے وہ بدکردار نکلتی ہے اور قیوم کو اسے طلاق دینی پڑتی ہے. اس طرح اسے دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی سزا مل جاتی ہے.

اس ناول میں جنگل کے پرندوں کی کہانی بیان کی گئی ہے کہ کس طرح جنگل کے تمام پرندے اکٹھے ہو کر گدھ کو الله پاک کی مقرر کردہ حدود تجاوز کر کے حرام کھانے پر جنگل بدر کر دیتے ہیں. یہ آفاقی موضوع اور لازوال کرداروں پر مشتمل ناول ہے جو روحانیت اور باطنی دنیا کی طرف جانے والے کئی راستے کھولتا ہے. کچھ لوگوں کے مطابق 'راجہ گدھ' میں قابل اعتراض اور بیہودہ باتیں شامل ہیں جو ذہنوں کو خراب کرتی ہیں. لیکن اگر غور کیا جائے تو وہ تمام باتیں اور حوالے جنہیں بیہودہ کہا گیا ہے وہ ہمارے معاشرے کے تلخ حقائق اور تاریک پہلو ہیں جو کہ ہماری اصلاح کیلیے اجاگر کیے گئے ہیں. ہمارے اردگرد اور ہمارے درمیان ہی قیوم جیسے کئی کردار موجود ہوتے ہیں جو گدھ بنے بیٹھے ہیں اور دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنا راستہ بنانے میں لگے رہتے ہیں. پروفیسر سہیل کا کردار دو قسم کے لوگوں کی نشاندہی کرتا ہے. ایک وہ لوگ جو شرافت کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ دوسری قسم کے وہ قابل لوگ ہوتے ہیں جو ملک و قوم کا سرمایہ بن سکتے ہیں لیکن ہمارا المیہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی قدر نہیں کرتے. جبکہ سیمی اور آفتاب جیسے لوگوں کا ہر دوسرا شخص فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے. یہ تمام کردار حقیقت میں ھمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں. اور جہاں تک ذہنوں کو خراب کرنے کی بات ہے تو یہ ناول کچے ذہنوں کے پڑھنے والا نہیں ہے. کم از کم سولہ سال سے زائد عمر کے افراد اسے پڑھیں کیونکہ اس سے کم عمر افراد ناول میں موجود پوشیدہ معنوں کو سمجھ نہیں سکتے اور ذہن پر غلط اثر لے سکتے ہیں. اگر اس ناول کو مکمل طور پر سمجھ کر اس پہ بات کریں تو بانو قدسیہ صاحبہ کی فلسفے، روحانیت، زندگی کے تجربات اور مذہبی و معاشرتی اصلاحات سے بھرپور یہ تحریر امر ہے. یہ ناول لکھ کر انہوں نے اردو ادب میں اہم حصہ ڈالا ہے. جہاں کہیں اردو ادب کی بات ہو اور 'راجہ گدھ' کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ زیادتی ہو گی. اس ناول کیلیے بانو قدسیہ صاحبہ کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے....

Malik Abdullah Awan
About the Author: Malik Abdullah Awan Read More Articles by Malik Abdullah Awan: 8 Articles with 18471 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.