بسم اﷲ الرحمن الرحیم
قیدوبند کی صعوبتیں دراصل راہ وفا کے لازمی سنگ ہائے میل ہیں۔سونے کو جب تک
بھٹی میں سینکانہ جائے اس کا کھوٹ اس سے جدا نہیں ہو پاتا۔اخلاص کا سکہ اس
کرہ ارض پر سب سے زیادہ چلت کاحامل سکہ ہے،اور یہ سکہ آزمائشوں کے بعد اپنی
قیمت ومالیت میں اضافہ کرتا چلا جاتاہے۔پس قیدوبند اور قربانیوں کی
داستانوں سے خلوص کی منزل کاحصول انسانی تاریخ کا خاصہ ہے۔وقت کی عدالت میں
کرسی اختیارپرموجودسامراج نے کبھی بھی کوئی تاریخ ساز کردار ادانہیں کیا ،اس
اہم تر کرسی کی بجائے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے آہنی زیورسے آراستہ عظمت کے
میناروں نے انسانیت کے بھٹکے ہوئے قافلوں کو درست راستوں کی طرف صحیح
راہنمائی کی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ قانون کی گرفت نے ہی ہمیشہ قانون کے ساتھ
سنگین مذاق کیاہے،یہ گرفت جن پر مضبوط ہونی چاہیے تھی انہیں کادست اقتداراس
گرفت پر مضبوط رہااور قانون کے شکنجے قانون شکنوں کے لیے نرم و
گدازاورحاملین عظمت انسانیت کے لیے یہ شکنجے سخت سے سخت تر ہوتے رہے۔یہ سب
حقائق دراصل تفسیر ہیں کلام الہی کی اس آیت کی زمانے کی قسم انسان نقصان
میں ہے۔
تاریخ کا مسافر مشرق سے مغرب تک چلے یا آدم تا ایں دم ،کہیں کسی عدالت پر
نمرود بیٹھاہے توکٹہرے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہیں،کہیں کرسی
اقتدارپرفرعون براجمان ہیں تو فرد جرم حضرت موسی علیہ السلام پر لگائی جا
رہی ہے اورتاریخ کا مسافرکبھی نہیں بھولے گاکہ جب شباب یوسف علیہ السلام
نذردیوارزنداں ہوگیا۔اور پھرسورج نے ان ایام کا بھی تو مشاہدہ کیا جب عالمی
جہالت نے شعب ابی طالب میں آفاقی نورانیت کوپابندسلاسل
کیاہواتھا۔اوریزیدجیسے کے لیے تخت اقتدارتھاجبکہ فرزنداہل بیت کے لیے تختہ
دار۔کیاقصور تھا ان سورج چاندستاروں کا؟؟؟اورکیااستحقاق تھاان طاغوتی
طاقتوں کاجنہوں نے عظمت وبزرگی اورطہارت و نفاست کے ان آفاقی سلسلوں کواپنی
آلودگیوں وگندگیوں سے گہناناچاہاتھا۔تاریخ کادھاراپھربھی اپنی رفتارسے
چلتارہتاہے اورپہاڑجیسے کردارتواس کا رخ موڑ سکتے ہیں اورموڑ دیتے
ہیں،اگرچہ ان کی گردنوں پر چھریاں چلائی جائیں یاوہ آگ کے گڑہوں میں ہی ڈال
دیے جائیں تاہم خش و خاشاک کے طوفان ہوں یا سمندر کی جھاگ جیسے پوپلے
وکھوکھلے لوگ،بڑے بڑے سابقوں ولاحقوں اورالقابات و خطابات اورجبوں قبوں
ودستاروں وخلعتوں کے باوجود تاریخ کے گندے نالے میں سے ہوتے ہوئے اس گڑھے
میں جاگرتے ہیں جوزمانے بھرکے فضلوں سے عنوان ہوتاہے۔
’’قیدی نمبر100‘‘تاریخ کی کوئی نئی کتاب نہیں ہے اورنہ ہی کسی نئی روایت کی
تاسیس ہے،ہاں البتہ انجم زمرد حبیب قافلہ سخت جاں میں ایک حسین اضافہ ضرور
ہیں۔خاتون ہوتے ہوئے بھی پہاڑ جیسی استقامت اور عزم و ہمت میں قرون اولی کی
زندہ مثال اگرکسی نے دیکھنی ہوتواس کتاب کے مندرجات میں بآسانی مشاہدہ کی
جاسکتی ہے۔بظاہر سادہ سی کتاب اپنے اندرپس دیوارزنداں کی خونچگاں داستاں
لیے ہوئے ایک طوفان بلاخیز رکھتی ہے،ایک ایک جملہ آتش فشاں سے کم نہیں خاص
طور واقعات کے بعد جو نقدوتبصرے کیے گئے ہیں وہ بہت قابل غور ہیں۔کہیں کہیں
تو محسوس ہوتاہے کہ صرف ظالم کی تلوار ہی خون آلود نہیں ہے بلکہ مصنفہ بھی
اپنا قلم روشنائی کی بجائے خون میں ڈبوکے تاریخ کے اوراق میں خون آلود
تحریر رقم کرتی چلی جارہی ہے،بس فرق صرف اتنا ہے کہ ظالم کی تلوار کسی
دوسرے کی رگ جاں سے رنگین ہوئی ہے جب کہ مصنفہ،انجم زمرد حبیب،نے اپنے ہی
لہو سے کشمیر کی داستان کورنگین کیاہے۔رات کتنی ہی طویل ہو،نورسحرکاآنا
بحرحال ایک یقینی امر ہے۔
کتاب کے مندرجات سے صاف طورپر محسوس کیاجاسکتاہے کہ تیسری نسل پر ننگ
انسانیت جبرمسلسل کی بھارتی مساعی کے باوجود مایوسیت نام کو نہیں ہے۔اﷲتعالی
کی رسی کوپکڑنے والے یاسیت کو گناہ کبیرہ گردانتے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت یوسف علیہ السلام،حضرت موسی اور حضرت عیسی
علیھماالسلام اور ختمی مرتبت ﷺکے ماننے والے یاسیت کاشکارہوجائیں۔اﷲاکبرکی
صداؤں کے ساتھ بدروحنین کی وادیوں کو زندہ کرنے والے رسم شبیری کے وارث کل
انسانیت کے لیے امید کی کرن نہیں بلکہ یوم امید کا طلوع ہوتاہوا سورج
ہیں۔بھارتی افواج اوردیگر بدنام زمانہ بھارتی سامراجی اداروں نے جو کچھ بھی
ظلم کے پہاڑ توڑنے تھے اس زیرنظرکتاب کے مطابق وہ اپنی انتہاکی آخری حدتک
توڑ لیے گئے ہیں لیکن کشمیری مجاہدین کا لاالہ الاﷲکے ناطے پاکستان سے جڑنے
والا رشتہ یک موئے کے برابربھی سست نہیں پڑ سکا۔بلکہ کتاب کے آخری صفحات سے
یہ بات مترشح ہے کہ ہر گزرتاہوا لمحہ اور بھارتی زیادتیوں میں ہونے والا ہر
ضافہ کشمیریوں کی پاکستان اور پاکستانیوں کے قریب تر لانے میں بہت اہم
کردار اداکرتاچلا جارہاہے۔’’قیدی نمبر100‘‘کی مصنفہ تیسری نسل کی نمائندہ
ادیبہ ہیں اور اگرچہ تحریک آزادی کشمیر اپنے آغازسے پاکستان کے ساتھ جذباتی
وابستگی رکھتی ہے لیکن نسل در نسل اس لگاؤ میں اضافہ اس کتاب سے چھلک چھلک
کر امڈتاچلا آرہاہے۔
اس کتاب کاقاری عمومی طورپر سیکولرازم کی حقیقت سے اور خصوصی طور پر بھارت
کے سیکولرازم سے آشنائی حاصل کرسکتاہے۔بھارت نے سیکولرازم کی حقیقت کو
دنیاکے سامنے طشت ازبام کیاہے۔اہل مغرب کی بعض خوبی نماجھوٹی صفات نے
سیکولرازم کے کذب و نفاق کی پردو پوشی کی تھی لیکن آفرین ہے برہمن راج کو
جس نے اس مکروہ نظریے کی حقیقت سے پردہ فاش کردیاہے۔انسانی حقوق،آزادی
نسواں،بااختیارعدلیہ،غیرجانبدارانتظامیہ،بے لاگ قانون سازی اور سب سے
بڑافریب عالمی ’’جمہوری تماشا‘‘،سیکولرازم کے ان نعروں کی قلعی بھارت کی
حکومت نے خوب خوب کھول دی ہے۔آج کے ہندوستان میں مشرق تا مغرب ایک بے چیبی
کی لہرہے جسے دنیاکے دوسرے کونوں تک میں محسوس کیاجارہاہے اور سب سے زیادہ
مشق ستم کشمیریوں پرجاری ہے کہ ان کا گناہ دوآتشہ ہے،فرزندان توحیدہونا اور
اسلامی ریاست پاکستان سے عقیدت و محبت اور الحاق کی خواہش۔
’’قیدی نمبر100‘‘انجم زمرد حبیب،ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کاایک مسلسل
سفرہے۔احدکے میدانوں سے تجدیدسفرکرنے والاتاریخ کایہ نسوانی کردار ماضی کی
طرح آج کے فراعین مصرکی دھرتی پر بھی زندہ ہے،اس کردارکوانسانیت کے
سیکولرٹھیکیدار امریکہ کے عقوبت خانوں میں بھی دیکھاجاسکتاہے،گزشتہ صدی کے
نصف آخرسے فلسطین کی سرزمین سرخ پر بھی اس کردارنے اپنی عزم و ہمت کی کتنی
ہی داستانیں رقم کرچھوڑیں ہیں اورسلام ہواس پیکرعفت وحریم پرکہ شہداکوجنم
دینے والے اس کردارنے امت کی کوکھ کوکبھی بنجرنہیں ہونے دیا۔جنت کی حواسے
زمانے کی ہواتک اورتاقیامت ،جب تک قافلہ حجازمیں فاطمہ بنت
عبداﷲکاکردارزندہ ہے ،یہ امت زندہ پائندہ رہے گی،انشاء اﷲتعالی۔اور سلام ہے
دخترکشمیرانجم حبیب زمردکو کہ جنہوں نے اس کتاب کی بابت دنیاکویہ
باورکرایاکہ نسوانیت کے پیمانے سیکولزازم کے بازارمیں بکنے والے لبرل ازم
کے شاخصانے نہیں ہیں اور نہ ہی نسائیت کی پیمائش کو پردہ سکرین پرجنبش کرتے
ہوئے مجموعہ ہائے عکس سے ناپاجاسکتاہے بلکہ اصل میں تو انسانی جذبات کی
بہترین عکاس عورت کے جذبات ہیں جنہیں زیرنظرکتاب میں ایک خاتون کے مقدس قلم
سے کس خوبصورتی وذہانت سے سپرد قرطاس کیاگیاہے۔کتنافرق ہے سیکولرازم
اوراسلام کے نسوانی کردارمیں ۔
وہ قومیں بہت خوش قسمت ہیں جن کی ماؤں کی گودمیں پرورش پانے والی نسل ان کی
اپنی میراث کی حامل ہو۔اور بہت بدقسمت ہے وہ قوم جو اپنے تعلیمی اداروں میں
غلامی کے شعائراور بدیسی زبان کی تعلیم پر فخور ہو۔مقبوضہ وادی کی ماں نے
اپنے بطن میں شہداکی نسل کو پرورش کیاہے اور اپنے دودھ میں انہیں جہاد کی
لوریاں پلائی ہیں،پس جس قوم کے نوجوان اک ہاتھ میں الکتاب اور دوسرے ہاتھ
میں تلوار تھامے ہوں اسے دنیاکی کوئی قوت نابود نہیں کرسکتی ۔بلکہ تاریخ نے
کتنے ہی ایسی اقوام کامشاہدہ کیااور آسمان گواہ ہے ایسے لوگوں سے ٹکرانے
والی بڑی بڑی قوتیں پاش پاش ہو کر ماضی کا عبرت انگیز باب بن گئیں۔اورتاریخ
نے کتنی ہی ایسی کئی اقوام کو کتابوں میں دفن کررکھاہے جنہوں نے اہل حق سے
ٹکرانے کی ناکام کوشش کی۔کشمیرکامستقبل بلآخر لاالہ الااﷲسے وابسطہ ہے اور
یہی پاکستان کا مطلب ہے،پاکستان اور کشمیر لازم و ملزوم ہیں کہ کشمیر
پاکستان کی شہ رگ ہے اور شہ رگ ہی رگ حیات ہوتی ہے۔پاکستان کشمیر کے بغیر
نامکمل ہے اور کشمیر پاکستان کے بغیرنامکمل ہے۔اﷲتعالی نے چاہاتو’’قیدی
نمر100‘‘بھارتی قیدخانوں کاآخری قیدی ہوگا اور پھر نوید صبح ہے،انشااﷲ
تعالی۔ |