منو بھائی اور اُمید کے جگنو

اُمید خوشبو کی طرح ہے، جو زندگی سے محبت ، اُسے ہر حال اور ہر طرح سے تسلیم کرنے کی ہمت دیتی ہے۔زندگی خوب صورت ترین نعمت ہے ،جسے رب ِ کائنات نے اپنی سب سے عظیم ترین مخلوق کے لئے تخلیق کیا۔ایک مٹی کے پتلے میں اپنا نور طلسم پھونکا ، اُسے انسان کا نام دیتے ہوئے نیکی کرنے کا حکم دیا ۔جیسا کہ سورۃ عصر میں اﷲ تبارک تعالیٰ نے فرمایا۔
ترجمہ : ’’زمانے کی قسم، انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے، جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘

یہی زندگی کا حسن اور تعلق کی معراج ہے، آسانیاں بانٹنا اور برائیوں سے روکنا ۔ انسانوں کی تخلیق کے اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے خواجہ میر دردنے کیا ہی خوب کہا تھاکہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرّ وبیان

مشہورکالم نگار منو بھائی ، جو اب ہم میں نہیں رہے۔ جن کے لفظ مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ، سے میری کئی ملاقاتیں ہیں ، خاص طور پر ان دنوں جب میں ان کی تنظیم سندس فاؤنڈیشن کا حصہ تھی۔ہر نشست میں اُن کی شخصیت کا جو پہلو نمایاں رہتا،وہ اُمید تھا۔اُن کا کہنا تھا ہمارے معاشرے میں اُمید ختم ہوتی جا رہی ہے ، جب اُمید ختم ہو جائے تب وہی کچھ ہوتا ہے جو آج پاکستان میں ہو رہا ہے۔ انہوں نے بہت گہری بات کی تھی، نہ حکمرانوں کو گالی دی اور نہ نظام کو برا بھلا کہا۔ جیسا کہ آج ہمارا ہر دوسرا کالم نگار اور تجزیہ نگار کر رہا ہے۔ اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں پر تنقید کرنا ایک ایساکلچر بن گیا ہے ، جس سے ہمارے رویے متشدد شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔جو معاشرے کو ایک ایسی بند گلی کی جانب دھکیل رہے ہیں جہاں نا امیدی اور مایوسی کے سوا ء کچھ نہیں۔

منو بھائی کے الفاظ سے یہ تو سمجھ میں آگیا تھا،ہمارے موجودہ حالات کا مرکزی کردار کون ہے ؟ وہ ہے ہماری سوچوں اور رویوں میں پلنے والی نا اُمیدی کی آکاس بیل ،جو غیر محسوس طریقے سے ہمار ی قوم کے بچے بچے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اسی سبب وطن عزیز میں اماؤس کی راتیں طویل تر ہوتی جا رہی ہیں۔

اُمید ختم ہو جائے تو معاشرے میں بے صبرا پن جنم لیتا ہے ،جب صبر اور شکر کی عادت نہ رہے تو جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے، خوشگوار رویے ختم ہو جاتے ہیں۔غربت گالی بن جاتی ہے اور گالی بن کر جینے والے ہر بات سے بے نیاز بس وہی کرتے ہیں جو انہیں اچھا لگتا ہے۔

محترم منو بھائی سے بات کرتے کرتے جو کچھ دماغ میں آ رہا تھا یہ یہی تھا کہ پاکستانی معاشرے میں اُمید ختم ہو ئی یا ختم کی گئی اور ان کا کہنا تھا کہ یہی بات سمجھنے کی ہے۔ ہمارے بہت سے لکھنے والے اس حوالے سے منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔ہمارے ٹی وی ٹاک شوز بھی نا امیدی کو بڑھ چڑھ کر فروغ دے رہے ہیں۔ ہر ٹاک شو کے اختیام پر عام بندے کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ اﷲ معاف کر ے جیسے پاکستان آج رات بھی نہیں کاٹ سکے گا۔

یہ لوگ پاکستان سے کل کے اچھے پاکستان کی اُمید ختم کر رہے ہیں، لگتا ہے کہ ان کو اسی کام کے لئے چنا گیا ہے،وہ اس قوم کی سوچ میں منفی لہر کو اتنا توانا کر دیں کہ آنے والا ہر دن امید کو ختم کرتا چلا جائے۔ منو بھائی کی شخصیت ، کام ، کردار اور سوچ کو پرکھا جائے تو یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے
شکوہ ِ ظلمت شب سے توکہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

سندس فاؤنڈیشن ان کے حصے کی شمع ہی تو ہے جہاں انہوں نے امید کی دیئے جلا رکھے ہیں ۔وہ 6 ماہ کی
تھی جب اُسے میجر تھلیسمیا تجویز ہوا وہ آج 24سال کی ہے،جرنلزم کے ساتھ بی اے کر رہی ہے۔اُسے ہر پندرہ دن بعد خون لگتا ہے اور اگر وقت پر خون نہ ملے تو زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اُسکی باقی بہنوں کو کوئی ایسی تکلیف نہیں۔اُس نے یہ جنگ خود نہیں لڑی ،اُس کی اُمید اُس کے ماں باپ ہیں،جنہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اَ س کی بیماری کے خلاف جنگ شروع کی۔ان میں اس امید کو جوان کرنے میں منو بھائی پیش پیش تھے۔وہ جینے کے خواب نہیں دکھاتے تھے وہ انگلی پکڑ کر راستہ دکھاتے تھے۔وہ ایسا راہبر تھا جو منزل تک ساتھ چلتا ہے۔ زندگی اور موت پر ان کا اختیار نہیں تھا مگر اپنی امید کے ساتھ جینے میں انہوں نے اپنا کردار خوب نبھایا۔ یہی ان کے کردار کی معراج تھی ۔

ہم میں سے اکثریت کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ہم وقتی ناکامیوں ، لوگوں کے منفی رویوں کو خود پر طاری کر لیتے ہیں۔ ہم خود کو اپنے نہیں لوگوں کے دئیے ہوئے آئینے میں دیکھتے ہیں، اپنی ناکامیوں کو مقدر سمجھ کر اندھروں میں ڈوب جاتے ہیں ، کبھی نہ ابھرنے کے لیے۔

اس دن منو بھائی سے باتیں کرتے کرتے میرے اپنے اندر موجوداندھیرے ختم ہو رہے تھے ،جو اکثر میرے گرد اپنا حلقہ مضبوط کر لیتے ہیں، مجھے غصہ دلاتے ہیں۔اچھا لگتا ہے ایسے لوگوں سے ملناجو بغیر کسی مطلب کے آپ کے اندر امید کے دیئے روشن کرتے ہیں، اور ملتے رہنا چاہیے۔وہ تھلیسیما کے مریض بچوں سے کہا کرتے تھے ،اﷲ جن سے محبت کرتا ہے اُن کو کوئی نہ کوئی آزمائش دے دیتا ہے،تمہاری یہ تکلیف ،یہ بیماری کوئی سزا نہیں تم اس کو پیاری ہو لہذٰااُ س نے تم کو اپنے شکر کے لئے چن لیا ہے ۔اس لیے میں نے سندس فاؤنڈیشن میں تھلیسمیاکے مرض میں مبتلا بچوں کو ہنستے مسکراتے ہوئے پایا۔

وہاں ایسی مائیں بھی تھیں جن کو طلاق ہو گئی کہ بیمار بچے پیدا کئے ہیں۔مگر وہ نا اُمید نہیں تھیں اور راضی بر رضا تھیں، یہ مائیں نہیں اور نا اُ ن کے بچے عام بچے، یہ سب جگنو ہیں اُمید کے جگنو ۔جن کو امید دلانے میں منو بھائی ہمیشہ آگے آگے ہوتے۔ منو بھائی جیسے لوگ پیدا نہیں ہوتے تخلیق کئے جاتے ہیں ، کچھ ایسے کاموں کے لیے جنہیں کرنا آسان نہیں ہوتا۔مستقل ایک ہی گھر میں برسوں رہنا ،لکھنا ،پڑھنا اورامیدیں بانٹنا کوئی آسان کام نہیں تھا مگر جس کی تخلیق ہی اس مقصد کے لیے کی گئی ہو ، وہ بھلا کیسے تھکتا۔منو بھائی اب ہم میں نہیں مگر ان کی امید کے جگنو سندس فاؤنڈیشن کے معصوم بچوں کی صورت میں ہمارے ساتھ ہیں۔ آئیں مل کر منو بھائی کے جگنوؤں کو سنبھالیں۔

 

Maleeha Hashmi
About the Author: Maleeha Hashmi Read More Articles by Maleeha Hashmi: 11 Articles with 11131 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.