جس طریقے سے ہمارے ہاں بے ثباتی پائی جاتی ہے۔اس کی مثال
دوسری کسی جگہ شاید ہی ملے۔یہاں ادارے متغیرنظر آئے۔ان کی ترجیحات بدلتی
نظر آئی۔ہماری قیادت نے بھی پل پل رنگ بدلنے کا رویہ اپنایا۔بجائے کسی لانگ
ٹرم پالیسی کے ہمیشہ ڈنگ ٹپاؤ حکمت عملی کو چنا گیا۔اس روش کا نتیجہ جیسا
نکلنا چاہیے تھا۔ویسا ہی نکل رہاہے۔نہ اداروں کی ساکھ بن پائی نہ قیادت کا
کوئی مستقل نام بن پایا۔بجائے اپنے ارادوں اور فیصلوں پر ڈٹ جانے کہ ہم ہوا
کے رخ پر چلنے والے ثابت ہوئے۔اس رو ش نے نہ تو کوئی پہچان بننے دی۔نہ کوئی
سمت بن پائی۔میڈیا میں ان دنوں ڈاکٹر شاہد مقصو دکو لے کر جو بحث مباحثے
ہورہے ہیں۔وہ اسی بے ثبات رویے کی جھلک ہے۔ابھی کل تک جوپیٹی بھائی ڈاکٹر
صاحب کی آواز سے آواز ملاتے آرہے تھے۔آج وہ انہیں غیر پیشہ ورانہ اپنانے کا
خطاوار ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔سپریم کورٹ نے ڈاکٹر صاحب کو طلب کیا
تھا۔اس پیشی کے بعد یک جہتی کرنے والوں کی اکثریت دوسری طرف ہوگئی۔حامد میر
نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ثبوت نہیں ہیں تو عدالت سے معافی مانگ لینی
چاہیے۔ان کا کہنا تھاکہ مجھ پر بھی اس طرح کی غلط رپورٹنگ کے الزامات لگائے
جاتے رہے ہیں۔میں نے الزامات لگانے والوں کے خلاف ہتک عزت کے دعوے کیے۔ان
میں سے کئی کااب تک فیصلہ نہیں سنایا جاسکا۔ڈاکٹر شاہد مسعود پر تنقید کرنے
والوں کا رویہ بدل لینا اہل صحافت کی بے ثبات روش کا ثبوت ہے۔جیسے ہی ڈاکٹر
صاحب عدالت میں ثبوت پیش نہیں کرپائے۔ان کی نظریں بدل گئی۔اس قدر تبدیلی
آگئی کہ بعض اینکرحضرات ڈاکٹر صاحب کے لیے ناموزوں الطاظ استعمال کرنے
لگے۔کہاں جانے لگاکہ ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب جیسے لوگوں نے میڈیاپر انگلیاں
اٹھانے کا موقع دیاہے۔ان جیسے لوگ میڈیا کی ساکھ کمزور کرنے کا سبب بن رہے
ہیں۔صحافت بھی عجب دنیا ہے۔یہاں رویے بدل لینے کا مظاہر ہ کئی بار کیا
جاتارہاہے۔ڈاکٹر شاہدمسعود سے نظریں پھیر لینے والوں پر گلہ جائزہے۔مگر خود
ڈاکٹر شاہدمسعود نے جس طرح موجودہ نواز دورمیں اپنے قلم کے نشتر سے جو
اپریشن کیے ہیں۔وہ ان کی پچھلے کچھ سالوں کی نشتر زنی کے بالکل الٹ ہیں۔کل
تک وہ آمریت کو ایک زہر قاتل بیان کیاکرتے تھے۔اب وہ نوازشریف جو کہ واحد
اینٹی اسٹیبلشمنت لیڈر ہیں کے خلاف قلم زنی کررہے ہیں۔مشر ف اور زردری دور
میں ان کی قلم کاری کاجو رنگ ہواکرتاتھا۔اب باقی نہیں رہا۔تب وہ قومی بلکہ
عالمی سطح کے تجزیاتی مضامین تحریرکیا کرتے تھے۔اب ان کا پیمانہ تحریر بڑا
محدود ہوچکا۔نوازشریف کے خلاف دھرنوں اور عدالتی جنگ کے دوراں محترم شاہد
مسعود نے ایک کھلے فریق ہونے کا تاثر دیا۔سابق وزیر اعظم کے بار بار وطن سے
بھاگ جانے کے دعوے کیے۔متعدد بار ڈاکٹر صاحب نے جب نوازشریف کسی سبب وطن سے
باہر گئے تو ان کے فرار ہوجانے اور واپس نہ آنے کا پراپیگنڈا کیا۔اپنے
پروگرام میں انہوں نے جو ترتیب اور اسلوب روا رکھا وہ نوازشریف حکومت کے اس
دکھڑے کے عین مطابق تھاکہ کچھ لوگوں کو ہر حال میں حکومت میں کیڑے نکالنے
کی ذمہ داری دے دی گئی ہے۔آج کل جس رپورٹ کو لیکر سپریم کورٹ ان پر برس رہی
ہے۔وہ بھی کچھ اسی طرح کی رپورٹ ہے۔جس میں دنیا بھر کی خرابیوں کی جڑ کسی
مخصوص پارٹی کو قرار دینا تھا۔زینب قتل کیس پر تحقیقاتی رپورٹ اس قدر الزام
بازی پر مبنی تھی جس نے سپریم کورٹ کو نوٹس لینے پر مجبور کردیا۔اس رپورٹ
کے مطابق قاتل عمران علی ایک چھوٹا سامہرہ ہے۔اصل میں ذمہ داران کچھ اور
لوگ ہیں۔جن کو بھارت سے بھی سپورٹ مل رہی ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اس مافیا میں
حکومت اور دیگر اداروں کے لوگوں کی شرکت کا دعوی کیا۔اس رپورٹ میں کچھ ایسا
بھیانک منظر نامہ بیان کیا گیاکہ رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ایک کھلبلی مچ
گئی تھی۔اب ڈاکٹر صاحب بجائے کسی مدلل گفتگو کرنے کے آئیں بائیں شائیں کرتے
نظر آرہے ہیں۔کبھی چیف جسٹس سے کہتے ہیں کہ آپ کیوں ہسپتالوں کے دورے کرتے
ہیں؟ کبھی کہتے ہیں کہ میں ثبوت اسے نہیں دوں گا۔اسے دوں گا جانے سپریم
کورٹ سے بڑھ کر کون سا فورم ہے؟ جس میں ڈاکٹر صاحب دل کی بات کرنا درست
سمجھیں گے۔
حامد میر اس موقع پر ڈاکٹر صاحب کو معافی مانگنے کا مشورہ د ے کر اہل صحافت
کی بے ثباتی بیان کررہے ہیں۔شاہد مسعود صاحب نے اپنے طویل کیرئیر میں جو
رنگ برنگی قلم کاریاں کی ہیں۔حامد میر بھی ان رنگینوں سے آشنائی کا ثبوت دے
رہے ہیں۔ان کے قلم کی نوک کا جھکاؤ تو کچھ عرصہ سے محسوس کیا جارہاتھا۔مگر
جب سے ان کے بھائی نے پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تب سے میر
صاحب کے کالموں کی سمت اور ترتیب میں نمایاں تبدیلی آچکی۔وہ حامد میر صاحب
جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ رکھنے کے سبب نوازشریف کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے۔اب
ان کی تحریریں جناب زرداری کی حکمتیں گنوانے کا کتابچہ بن رہی ہیں۔ڈاکٹر
شاہد مسعود جس دردسے اپنا رخ بدلنے پر مجبور ہوئے۔شاید میر صاحب کو وہ
عارضہ نہ ہو۔مگر دونوں کی راہیں بدل جانے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔بے
ثباتی ہر سو ہے۔میڈیا کے یہ دو نگینے تو ادنی مثال ہیں۔یہاں تو سیاست کی صف
بندی بد ل چکی۔ڈوگر کورٹ کی جگہ چوہدری کورٹ آئی تھی۔اب ایک او رہی کورٹ
قائم ہوچکی۔جو نہ ڈوگر کورٹ کہلوانے پر خوش ہے۔جسے چوہدری کورٹ کہنے کو دل
نہیں مانتا۔ہر کوئی بدل رہاہے۔ے ثباتی ہرسو ہے۔ہر کوئی اپنی اپنی ضرورت اور
فائدے پر اپنی سمت بد ل رہاہے۔یوں لگتا ہے جیسے سب نے بدل جانا ہے۔کوئی چیز
باقی رہے گی تو وہ میرے رب کا نام ہے۔وہ باقی ہے او رباقی رہے گا۔قدرت بے
ثباتیوں سے ہمارے ارادو:ں اور نیتوں کو جانچ رہی ہے۔ ہم ہیں کہ مسلسل فیل
ہورہے ہیں۔ |