ورکنگ باؤنڈری لائن پر بھی بھارتی سیکورٹی فورسز کئی روز
سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، جس سے متعدد افراد شہید اور زخمی
ہوچکے ہیں۔بھارتی فوجیوں کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر فائرنگ اور
گولہ باری روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔گزشتہ جمعرات کو بھارتی فوج نے
سیالکوٹ میں ورکنگ باونڈری کے چاروا سیکٹر پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ
باری کی تھی، جس کے نتیجے میں 2 خواتین سمیت 3 افراد شہید اور 5 خواتین
سمیت 7 شہری زخمی ہوئے تھے۔بھارتی فورسز نے اگلے روز جمعہ کو بھی ورکنگ
باؤنڈی لائن کے چاروا، باجرہ گڑھی، ہرپال، سجیت گڑھ اور چپراڑ سیکٹروں پر
فائرنگ اور گولہ باری کی، جس کے نتیجہ میں مزید 4 شہری شہید جبکہ چار
خواتین سمیت دس افراد شدید زخمی ہوئے تھے۔بھارتی فورسز نے ورکنگ باؤنڈری
لائن پر سیالکوٹ چاروا، بجوات، باجرہ گڑھی، ہرپال، سچیت گڑھ اور چپراڑ
سیکٹرز پر تیسرے روز بھی فائرنگ اور گولہ باری کی، جس سے تین سالہ بیٹا اور
ماں سمیت 4 افراد شہید، جبکہ رینجرز کے 2جوانوں سمیت 14 افراد زخمی ہو ئے
تھے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز نے اگلے روز اتوار کو بھی ورکنگ باؤنڈری لائن پر
فائرنگ اور گولہ باری کی، جس سے پانچ افراد زخمی ہو ئے۔بھارتی فائرنگ اور
گولہ باری سے درجنوں مویشی بھی ہلاک و زخمی ہوئے، لوگوں کے گھروں، مساجد
اور دیگر عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔ بھارتی سیکورٹی فورسز کی بلااشتعال
فائرنگ اور گولہ باری کا پنجاب رینجرز نے منہ توڑ جواب دیا۔ سرحدی دیہات کے
مکینوں کی خواتین، بچوں اور مویشیوں سمیت محفوظ مقامات پر منتقلی جاری ہے۔
ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کی مسلسل خلاف ورزیوں پر بھارتی ڈپٹی ہائی
کمشنر جے پی سنگھ کو رواں ہفتے 5 ویں بار دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔ ترجمان
دفتر خارجہ کے مطابق بھارتی فورسز نے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر بلا
اشتعال فائرنگ کی، جو کہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ترجمان
دفترخارجہ نے کہا کہ بھارت کی سرحدی خلاف ورزیاں خطے کے امن کے لیے خطرہ
ہیں۔ ترجمان دفترخارجہ کے مطابق ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کی مسلسل خلاف
ورزیوں پر بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو پانچویں بار دفتر خارجہ
طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ معصوم شہریوں کی شہادت پر بھارتی
ڈپٹی ہائی کمشنر کو احتجاجی مراسلہ بھی تھمایا گیا۔ پاکستان کے احتجاج اور
بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کی دفتر خارجہ میں باربار طلبی کے باوجود بھارت
کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزیوں سے باز نہیں آیا اور بھارتی سکیورٹی فورسز
نے سیزفائر لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گزشتہ ایک ہفتے سے کنٹرول لائن کے
پار پاکستان کی جانب گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ مسلسل برقرار رکھا ہوا
ہے جس کے باعث اب تک دس بے گناہ شہری اور سکیورٹی اہلکار شہید اور ایک درجن
سے زاید زخمی ہوچکے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پرکشیدگی پر اقوام متحدہ کے
سیکرٹری جنرل نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سیکرٹری جنرل انٹو نیو گوٹیریس نے
پاکستان اور بھارت سے مذاکرات کرنے پر زور دیتے ہوئے ایک بار پھر ثالثی کی
پیش کش کی ہے۔ اقوام متحدہ کے چیف کے ترجمان نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر
پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے باعث دونوں ممالک کو
بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کا کہا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی پر جنگ بندی کے لیے 2003ء میں ایک
معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، لیکن اس کے باوجود بھی بھارت کی جانب سے جنگ
بندی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔ گزشتہ برس بھارتی کی
جانب سے ان خلاف ورزیوں کی تعداد1900 تک جا پہنچی تھی، جس کے نتیجے میں
متعدد پاکستانی شہری جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں، جبکہ رواں سال بھی بھارتی
فوج متعدد بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرچکی ہے، جس کے نتیجے میں کئی
شہری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو صرف
ایک ہفتے میں پانچ بار دفتر خارجہ طلب کیا جاچکا ہے، ۔ بھارتی فوج کنٹرول
لائن کے پار جس وحشیانہ انداز میں سول آبادیوں پر فائرنگ اور گولہ باری
کررہی ہے اور اس سلسلہ میں پاکستان کے باربار کے احتجاج کو بھی درخوراعتناء
نہیں سمجھا جارہا، اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ بھارت
پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے اس پر جارحیت مسلط کرنے کی منصوبہ
بندی کیے بیٹھا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے تسلسل کے ساتھ بھارتی فوجوں کی گولہ
باری سے درحقیقت وہ پاکستان کو اشتعال دلا کر جارحیت کے ارتکاب کا کوئی
جواز نکالنا چاہتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے بھارتی
فائرنگ اور گولہ باری پر اسے مسکت جواب دیا جارہا ہے جس سے بھارتی فوجوں کو
جانی نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے، تاہم پاکستان بھارتی سازشوں کے جال میں
آنے کی بجائے دانشمندی کے ساتھ صرف دفاعی جوابی کارروائی کررہا ہے، مگر
بھارت پر تو امریکا اور اسرائیل کی معاونت سے حاصل ہونے والی جنگی استعداد
و طاقت کا نشہ طاری ہے، چنانچہ وہ بدمست ہاتھی کی طرح چنگھاڑتا ہوا پاکستان
کی جانب رخ کرتا نظر آتا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ کنٹرول لائن پر سیزفائر
معاہدے کی خلاف ورزی بھی مسلسل بھارت کی جانب سے کی جارہی ہے اور اس کے
باوجود مودی سرکار پاکستان پر سیزفائر کی خلاف ورزیوں اور بھارت کی جانب سے
فائرنگ کا الزام عاید کرکے اپنی جارحیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے اور
گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کے وزیر پارلیمانی امور نے
پچھلے تین دنوں کے دوران کنٹرول لائن پر ہونے والے جانی نقصانات کی تفصیل
پیش کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کیے گئے اس اعتراف کے تحت اس امر کی تصدیق کی
ہے کہ فائرنگ میں پہل بھارت کی جانب سے کی جاتی ہے، جس کا پاکستان کی جانب
سے جواب دیا جاتا ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ 2003ء کے سیز فائر معاہدے کی
پاسداری کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب
دیا جائے گا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے
لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر کھوئی رٹہ اور اریان سیکٹرز کا دورہ
کیا، جہاں مقامی کمانڈرز نے آرمی چیف کو بھارت کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف
ورزیوں پر بریفنگ دی۔ افسران نے انہیں بھارتی فوج کی جانب سے شہری آبادی کو
نشانہ بنانے سے متعلق بتایا، جواب میں آرمی چیف نے پاک فوج کی طرف سے بھارت
کو مؤثر اور ذمہ دارانہ جواب دینے کے عمل کو سراہا۔ انہوں نے کہا ہم 2003ء
کے سیز فائر معاہدے کے پابند ہیں، لیکن بھارت کی طرف سے کی جانے والی
جارحیت کا بھرپور انداز میں جواب دیا جائے گا۔لائن آف کنٹرول جیر کوٹ
آزادکشمیر میں فوجی افسروں، جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیردفاع خرم دستگیر
نے کہا پاکستان دشمن کی جارحیت کو روکے گا اور اپنے شدید ردعمل کا مظاہرہ
کرے گا۔ جنرل آفیسر کمانڈنگ نے وزیردفاع کو لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر
تفصیلات بتائیں کہ 2017ء میں بھارت کی سیز فائر کے خلاف ورزیوں میں اضافہ
ہوا ہے، جبکہ پاک آرمی کے پیشہ ورانہ ردعمل اور طاقت میں اضافہ ہوا ہے اور
ان علاقوں میں پاک فوج نے سماجی شراکت میں حصہ لیا۔
کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر آئے روز بھارتی جارحیت اور 2003ء کے سیز
فائر کے معاہدے کی بھارتی خلاف ورزی یہ ظاہر کرتی ہے کہ بھارت امن و سکون
سے رہنا ہی نہیں چاہتا اور پاکستان اور بھارت کے تعلقات اگر آج تک اتار
چڑھاؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں تو اس کا ذمہ دار بھی بھارت ہی ہے۔ بھارت
دراصل ایک وقت میں کئی غلط فہمیوں کا شکارہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ روایتی
جنگ میں پاکستان سے جیت سکتا ہے۔ بھارت اگر بڑی فوج کے بل بوتے پر ہی خود
کو طاقتور سمجھتا ہے تو پھر تو اسے مقبوضہ کشمیر میں کامیابی مل جانی چاہیے
تھی، جہاں اس کی سات لاکھ سے زاید فوج کئی عشروں سے ریاستی دہشت گردی کا
مظاہرہ کر رہی ہے، لیکن اس کے تمام ظلم و ستم کے باوجود تحریک آزادی کی شمع
آج بھی پورے آب و تاب سے جل رہی ہے۔ بھارت کی یہی ناکامی اسے بدحواس کیے
ہوئے ہے، جس کے ردعمل میں وہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر سول آبادی
کو نشانہ بنانے لگتا ہے۔ بھارت کی ایک اور غلط فہمی یہ ہے کہ وہ اس خطے کا
چودھری بن چکا ہے۔ اس کا خیال ہے امریکا اس کی خطے میں چودھراہٹ قائم کرنے
میں اسے کامیابی دلا سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی پوزیشن بھی
خطے میں روز بروز اہمیت اختیار کر رہی ہے۔ امریکا جیسا سپر پاؤر بھی خطے
میں پاکستان کے بغیر زیرو ہے، پاکستان کے بغیر تو امریکا افغانستان سے نکل
نہیں سکتا، بھارت کو بھی پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہوجانا چاہیے۔ سی پیک
اور گوادر جیسے منصوبے بھی پاکستان کی علاقائی معاشی طاقت اور تزویراتی
اہمیت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں، اس لیے بھارت یہ خیال اپنے دل سے نکال
دے کہ وہ اپنی من مانیاں کرنے میں آزاد ہے اور پاکستان کو ایک چراہ گاہ کے
طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ بھارت کو یہ علم نہیں کہ پاک فوج کا پیمانہ صبر
لبریز ہو گیا تو پھر اسے جوابی کارروائی سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
بھارتی جارحیت 2003ء کے سیزفائر معاہدے سمیت عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی
ہے۔ بھارت پاکستان کو ٹینشن میں رکھنا چاہتا ہے، تاکہ وہ کشمیریوں کے حق
خودارایت کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت سے باز رہے، دوسرا یہ کہ وہ
دہشت گردی کے خلاف جنگ پر پوری توجہ نہ دے سکے اور تیسرا یہ بھی کہ وہ سی
پیک منصوبے کو آسانی سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ بھارت جس نے اب تک
پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا، پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور امن و
سکون کو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت پاکستان احتجاج
پر انحصار کرنے کی بجائے بھارتی جارحیت کے خاتمے کے لیے عالمی برادری کو
اعتماد میں لے اور عالمی اداروں میں بھارت کے معاندانہ رویوں کے خلاف آواز
اٹھائے۔ اگر پھر بھی بھارت اپنی روش ترک نہ کرے تو اینٹ کا جواب پتھر سے
دینے کا چوائس تو بہرحال موجود ہے۔ یقینا پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا منہ
توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ بھی
نوشتہ دیوار پڑھ لے۔ پاکستان کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ خانی اسے بہت مہنگی
پڑے گی۔ دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کا جو معاہدہ ہو چکا ہے، اس کا
احترام پاکستان تو کر رہا ہے، بھارت کو بھی ہر صورت کرنا ہو گا۔ |