سوئی ہوئی قوم کو جاگنا ہوگا

میں نے پچھلے دنوں ایک اخبار میں ایک کالم پڑھا جس کا عنوان تھا ڈھیٹ قوم اس کالم میں لکھے ہوئے ہر ہر لفظ سے میں متفق ہوں اور میں نے بھی اپنے کئی کالمز میں ہمارے ملک کی اس عوام کے ڈھیٹ ہونے کا ذکر دوسرے الفاظوں میں کیا ہے کیوں کہ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے ممالک میں اگر کبھی انقلاب آیا تو عوامی طاقت سے ہی آیا اور اس انقلاب کے لئےقربانی دینا پڑتی ہے اپنا آپ داؤ پر لگانا پڑتا ہے صرف اس لئےکہ جن مسائل کا ہم سامنا کررہے ہیں جو مشکلات ہم پر مسلط ہوئی ہیں وہ ہماری آنے والی نسل پر مسلط نہ ہو ورنہ یہاں وہی کچھ ہوگا جو آج تک ہوتا آرہا ہے
 .
قصور کی زینب کا ایک طرف تو قاتل مل ہی نہیں رہا تھا سب سے پہلے تو سارے ہل محلہ سارے رشتہ دار اور سارے عزیز واقارب کو اکٹھا کیا گیا ان سے سختی سے پوچھ کجھ کی گئی اور ان کے ڈی این اے ٹیسٹ لئے گئے پھر ان ڈی این اے کے ذریعے قاتل کو گرفتار کیا گیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قاتل پکڑا گیا اور اس نے اقرار جرم بھی کرلیا تو پہر اسے اس کے منتقی انجام تک کیوں نہیں پہنچایا گیا لیکن بات پہر وہی آگئی کہ عوام دھرنا بھی دیتے ہیں مظہرہ بھی کرتے ہیں آنسو گیس کے شیل بھی کھتے ہیں اور پہر حکومتی وفد کی جھوٹی تسلیوں کے بعد اپنے اپنے گھر کی طرف چلے جاتے ہیں لیکن ہوتا کچھ بھی نہیں ہے کیوں کہ عوام کی وہ طاقت نظر نہیں آتی جو ایک بڑے انقلاب کے لئے ضروری ہے ورنہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو آج انصاف مل گیا ہوتا زینب کے قاتل کو پکڑنے پر شہباز شریف تالیاں نہ بجوا رہے ہوتے جب زینب کے والد نے پریس کانفرنس میں بات کرنا چہی تو ان کا مائک میڈیا کے لوگوں کے سامنے بند نہ ہوتا اور انہیں سخت دباؤ کے تحت اس پریس کانفرنس میں نہ بیٹھنا پرتا لیکن یہ سب کیوں ہے اس لئے کہ عوام کے اندر وہ طاقت نظر نہیں آتی جو ایک بڑے انقلاب کے لئے ضروری ہے .

اب آپ ہی بتائیں جب ہماری پولیس اور رینجرز کے جوان کسی جگہ چھاپہ مارتے ہیں تو وہاں انہیں پوری انفارمیشن ہوتی ہے بھاری مقدار میں سامان اور دہشتگردوں کو پکڑلیا جاتا ہے اور ملک کے ایسے ایسے علاقوں سے انفارمیشن ملتی ہے جھاں کسی کو اندازہ تک نہیں ہوتا تو پہر ایک ایسا شخص جو جعلی پولیس مقابلے میں کتنے بیگنہ نوجوانوں کو موت کی نیند سلا کر اپنے آقاؤں کو خوش کرکے اس وقت مفرور ہے اور وہ کسی کے ہاتھ نہیں لگ رہا کیا اسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی آخر ہماری پولیس اور ان پر رکھے ہوئے ہاتھ کب تک عوام کے ساتھ یہ کھیل کھیلتے رہیں گے لیکن یہ سب کیوں ہورہا ہے اس لئے کہ ہماری عوام میں وہ طاقت نظر نہیں آرہی جو ایک بڑے انقلاب کے لئے ضروری ہے .
آخر اس ملک میں کیا ہورہا ہے جو ملک ایک آزاد اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام پر قائم ہوا وہاں یہ عوام غلامی کی زندگی کیوں بسر کررہے ہیں کیا یہ ملک اس لئے قائم ہوا تھا کہ یہاں چند مخصوص چہرے اپنی نسل در نسل حکومت کریں اور دنیا کےامیر ترین لوگوں میں ان کانام شامل ہوجائے جبکہ عوام کا ایک مخصوص طبقہ غریب سے غریب ہوتا جائے کیا اس ملک میں اسی طرح ظالم مظلوم پر حاوی رہے گا کیا اس ملک میں عمران جیسے درندہ صفت انسان کو سزا دینے پر قانون اور عدالت کو سوچنا پڑے گا کیا اس ملک میں راؤ انوار جیسے خطرناک مجرم کی اسی طرح پشت پنہی ہوتی رہے گی اور اسے بحفاظت کسی جگھ چھپا دیا جاتا رہے گا ہاں یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک یہ سوئی ہوئی عوام جاگ نہیں جاتی اور اس عوام کے اندر وہ طاقت نظر نہیں آتی جو ایک بڑے انقلاب کے لئے ضروری ہے .

ایک ایسا شخص جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے نا ہل قرار دے دیا ہو اور وہ اپنے چند مخصوص لوگوں کے ساتھ مل کر ملک کے کونے کونے میں جاکر اپنے آپ کو بیگنہ ثابت
 کرنے پر تلا ہوا ہو اور عدلیہ کے خلاف مسلسل نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہو پہر بھی اس کے خلاف حتمی اور سخت فیصلہ نہیں ہوتا پاکستان کی افواج کے خلاف اول فول بکنا جس شخص کی اس وقت عادت بن چکا ہو اور اپنی ہر جگہ ہر تقریر میں کھلے عام فوج اور عدلیہ پر اپنی تنقید کے تیر برساتا ہو اور اس پر حیرت کی بات یہ ہے افواج پاکستان کی طرف سے مسلسل خاموشی کیوں ہے کیوں افواج پاکستان اس کا جواب نہیں دیتی یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے آخر یہ سب کچھ کیوں اور کیا ہورہا ہے آخر صرف چند لوگوں کی وجہ سے عدلیہ , افواج پاکستان , پولیس اور قانون کیوں بے بس ہے لیکن اس میں بھی میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمارا یعنی اس قوم کا قصور ہے کیوں کہ اس سوئی ہوئی قوم کے اندر وہ طاقت نظر نہیں آتی جو ایک بڑے انقلاب کے لئے ضروری ہے اور خاص طور پر اس وقت .اگر ہم اس وقت پاکستان میں موجود بڑی سیاسی جماعتوں کے ان چہروں کی طرف دیکھتے ہیں جو مسلسل پاکستانی سیاست کا حصہ رہے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ سب ایک بہت بڑے معافیہ کی شکل میں اس ملک کو آگے لے جانے کی بجائے پیچھے دھکیلنے کی اپنی سی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور یہاں آوا کا آوا بگڑا ہوا نظر آتا ہے جس کی دم اٹھاؤ وہ ہی مادہ ہے کوئی بھی اس ملک سے مخلص نظر نہیں آتا سب کے سب اپنی اپنی جیب بھرنے اور اپنا آپ سنوارنے پر لگے ہوئے ہیں اور اس ملک کی دولت کو دونوں ہاتوں سے لوٹ کر اسے بہر منتقل کرکے اس ملک کی معیشت کو کھوکھلا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں صرف اور صرف اسلئے کہ یہ قوم سوئی ہوئی ہے اور اس میں وہ طاقت نظر نہیں آتی جو ایک بڑے انقلاب کے لئے ضروری ہے
.
خدارا ہوش کے ناخن لیجیئے اور اٹھ کھڑے ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری آنے والی نسل ہم سے اس آزاد ملک کی آزادی کا حساب نہ مانگ لے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی آنی والی نسلوں کو اس نام نہاد آزاد ملک میں بھی غلامی کے دلدل میں دہنسا کر اپنی اپنی قبروں میں عبدی نیند سورہے ہوں اور ہماری نسل ہمیں سوائے برے الفاظوں کے کبھی یاد تک نہ کرے کیوں کہ جہاں غریب کے لئے انصاف نہ ہو ,جہاں زینب جیسی کئی لڑکیوں کے قاتل کھلے عام گھوم رہے ہوں , جہاں راؤ انوار جیسا درندہ صفت انسان صرف اس لئے گرفتار نہ ہو سکا ہو کہ اس کو کسی بڑے کی پشت پنہی حصل ہو , جہاں مقتول کے گھر والوں کو دھمکی اور پیسوں کا لالچ دے کر خاموش کردیا جائے , جہاں عوام کی محنت اور عوام کے دئیے گئے ٹیکس کے پیسوں کو اپنی ضرورت سمجھ کر کرپشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہو تو وہاں لفظ آزادی کیا معنی رکھتا ہے بلکہ یہ بھی ایک طرح کی غلامی ہے لیکن یہ سب کچھ کیوں ہے اس لئے ہے کہ یہ قوم سو رہی ہے اور اس میں وہ طاقت نظر نہیں آتی جو ایک بڑے انقلاب کے لئیے ضروری ہے .
آخر ہم لوگ کب تک خاموش تماشائی بن کر اس ملک کو اس طرح تبہ ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں گے آخر ہم لوگوں میں مسلمانوں والا جذبہ کیوں نظر نہیں آتا اب کوئی محمد بن قاسم نہیں آئے گا اب کوئی صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوسکتا اب ان ظالموں کا مقابلہ اگر کرنا ہے تو ہمیں نکلنا ہوگا اپنی بند زبان کو کھولنا ہوگا ان ظالموں سے ان کے کئے گئے ظلم کا حصاب لینا ہوگا اس ملک کی بہتر معیشت اور بہتر مستقبل کے لئے ان ظالموں پر انحصار کرنے کی بجائے ہمیں خود کوئی اقدام اٹھانے ہوں گے اور اس کے لئے ہمیں جاگنا ہوگا اور اپنے اندر وہ طاقت پیدا کرنا ہوگی جو ایک بڑے انقلاب کے لئے ضروری ہے اور وہ طاقت اس قوم میں موجود ہے صرف اس کے لئے ہمت اور جرأت کی ضرورت ہے اور یہ بھی ہماری اس قوم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے بس اپنی طاقت کا صحیح استعمال کرکے یہ قوم ان لوگوں سے چھٹکارا بھی حاصل کرسکتی ہے اور اس ملک کا مستقبل اپنی آنے والی نسل کے لئے روشن بھی کرسکتی ہے .
ہو روشن مستقبل بھی اس ملک کا اے ر ہی
ہوجائیں سارے مل کر آپس میں بھائی بھائی
 

محمد یوسف راهی
About the Author: محمد یوسف راهی Read More Articles by محمد یوسف راهی: 112 Articles with 73874 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.