ابھی اصل فیصلہ باقی ہے !

متحدہ اپوزشین جماعتوں کی مسلم لیگ (ن) کے خلاف ناکام جلسہ مہم کے بعد پیر حضرات کے نفاذ شریعت دعوے بھی مصلحت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ختم نبوت کے مسئلے پر خادم حسین رضوی کے بعد پیر حمید الدین سیالوی کی معیت میں جو قافلہ رانا ثنا اﷲ اور خادم اعلیٰ کے استعفوں کے لیے پیران و مریدان کے جاہ و جلال سے نکلا وہ انجام کو پہنچا اورحکومت کے خلاف شرع ہونے والی تحریک ٹائیں ٹائیں فش ہو گئی ۔دوسری طرف ننھی کلی زینب کے قاتل کی گرفتاری پر خادم اعلیٰ کی پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے افسوسناک رد عمل سیاسی ، سماجی اور صحافتی حلقوں میں زیر بحث تھا مگر زینب کے والد کے انعامی لالچی بیانئے کے بعدسب کو سانپ سونگھ گیا علاوہ ازیں ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشاف نے اس کیس کا رخ بدل دیا ہے ۔تاریک راتوں میں مارے گئے ان گنت معصوموں کا لہو پوچھ رہا ہے : میں کس کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں ؟ راؤ انوار کی مفروری بھی زرداری حاکمیت پر سوالیہ نشان ہے۔سمجھ سے بالاتر ہے کہ کس کے بارے لکھا جائے اور کیا لکھا جائے کہ اس حمام میں تقریباً سبھی ننگے ہیں اگرچہ چند چہرے بے نقاب ہو چکے ہیں لیکن جسے بھی چھان پھٹک کر دیکھیں دل یہی کہتا ہے : دھندا ہے پر گندا ہے !حتہ کہ اعلیٰ عدلیہ بھی بھرپور برداشت کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہے ۔

اگر ہم مسلم لیگ ن کے سیاسی ادوار کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ن لیگ کی کارکردگی ہمیشہ سے سوالیہ نشان ہی رہی مگر خادم اعلیٰ کی پھرتیاں اور ان تھک کاروائیاں ہمیشہ زیر بحث رہیں اسی وجہ سے لکھنے والوں نے میاں شہباز شریف کے لیے ہمیشہ ایسے تعریفی کلمات لکھے جو اکثرسیاستدانوں کو کم نصیب ہوئے گزرتے وقت کے ساتھ ثابت ہوا کہ خادم اعلیٰ کو ٹیم اچھی نہیں ملی اور اب میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد عقدہ کھلا کہ قیادت بھی اچھی نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ گڈ گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔شریف فیملی کی دس آف شور کمپنیوں کی لندن حکام نے تصدیق کر دی ہے درحقیقت میاں نواز شریف کی سیاست کا اخلاقی جواز مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے لیکن دوسری طرف شہباز شریف کو گرانے ، ہٹانے اور پھنسانے کے منصوبے بنانے والوں کو دھول چاٹنا پڑی کیونکہ میاں شہباز شریف کی طبیعت میں جھکاؤ ، ٹھہراؤ اور موقع پرستی ہے ۔ اسی کا سبق وہ بڑے بھائی اور بھتیجی کو بھی دیتے رہتے ہیں مگرمیاں صاحب کہتے ہیں کہ میں نہیں تو کوئی نہیں ! جڑانوالہ جلسہ میں کی گئی تقریر کو ہی دیکھ لیں ۔کیسے انھوں نے عدلیہ اور افواج پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا اور با بانگ دہل تحریک عدل کا راگ آلاپا جسکی تائید میں مریم بی بی نے عدلیہ کے لیے ’’مجرمانہ ‘‘ کا لفظ بھی استعمال کر ڈالا مگر اس کے برخلاف میاں شہباز شریف نے پنجاب کے بگڑتے معاملات ،حالات اور خطرات کو یوں سنبھالا کہ سبھی کہنے پر مجبور ہوگئے کہ سیاسی بابے تو بہت ہیں اور دعوے دار بھی بہت مگر دوسرے سیاستدانوں کو ان سے سیاست سیکھنی چاہیے کیونکہ خادم اعلیٰ موقع کی سیاست کے شہنشاہ نکلتے ہیں یہاں تک کہ نیب نے بھی گھیرنے کی بھرپورکوشش کی مگر وہ بھی کچھ نہیں بگاڑ سکی بلکہ وہ اور مضبوط ہو گئے ہیں اب آپ تھالی کا بینگن کہیں یا جو بھی کہیں سیاسی منظر نامے پر خادم اعلیٰ چھا رہے ہیں-

بلاشبہ یہ ن لیگ سیاست کی ہیٹ ٹرک ہے کہ یکے بعد دیگرے تخت لاہور کو درپیش تمام خطرات پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں سمیت نام نہاد مذہبی سیاستدانوں کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے علاوہ ازیں سبھی کو الٹی میٹم مل گیا ہے کہ کمزوروں کا مائک بند ہوسکتا ہے اور طاقتوروں کے گھٹنے پکڑے جا سکتے ہیں۔ویسے مریدان کے ساتھ یہ کھلی زیادتی ہے کہ پیروں نے ختم نبوت پر اتنا بھڑکایا کہ مریدان کے ساتھ پورا پاکستان غم کھاتا رہا ،خود انھی کے ساتھ کھانا کھا لیا ور باقی سب کو ہوا کھلا دی لہذا مبصرین کے مطابق ان پیروں کو شرعی فتوی دینے کا حق کس نے دیا اور اگر حق حاصل ہے تو اس حق کا سودا کرنے کا حق کس نے دیا ہے ؟تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان مبینہ مفاہمت کے بعد پیر سیالوی اور حکومت کی مبینہ مفاہمت کی موشگافیاں بھی عروج پر ہیں لیکن دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومت نے تمام مزاروں اور آستانوں کو محکمہ اوقاف میں لینے کا فیصلہ کر لیا تھا بایں وجہ پیران و مریدان کو ہتھیار ڈالنا پڑے بہرحال جو بھی ہے اب ہر شخص کہہ اٹھا ہے کہ :
اب گناہ و ثواب بکتے ہیں ۔۔۔۔۔مان لیجئے جناب بکتے ہیں
پہلے پہلے غریب بکتے تھے ۔۔۔۔اب تو عزت ماٰب بکتے ہیں
بے ضمیروں کی راج نیتی میں ۔۔جاہ و منصب خطاب بکتے ہیں
دور تھا انقلاب آتے تھے ۔۔۔۔۔آج کل انقلاب بکتے ہیں

دوسری طرف زینب قتل کیس سامنے آنے کے بعد ہر روز نت نئے انکشافات کا سلسلہ جاری ہے قصور کی زینب اور دیگر بچیوں کے مبینہ قاتل عمران کی گرفتاری کے بعد اس وقت پاکستانی عوام کے اوسان خطا ہوگئے جب سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ڈاکڑ شاہد مسعود نے زینب کے قتل کو پیڈو فیلیا یا وائلنٹ چائلڈ پورن گرافی کے بین الاقوامی جرم کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس کے قاتل عمران کے سینکڑوں بینک اکاؤنٹس کا انکشاف کر ڈالا ۔اس انکشاف کے بعد الیکٹرانک ،سوشل اور پرنٹ میڈیا ہر جگہ ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ڈاکٹر شاہد مسعود کا مبینہ انکشاف ہے ۔پیڈوفیلیا یا وائلنٹ چائلڈ پورن گرافی کا ذکر ہوا تو اس کی تفصیلات بھی سوشل میڈیا اور کالمز میں عام ہوگئیں جنکے مطابق بچوں پر اذیت ناک جنسی تشدد کو براہ راست دوسرے ممالک میں دکھایا جاتا ہے اور بھارت میں ایک بچی کے ساتھ ایسا ہی دردناک واقعہ ہوا بعد ازاں اس کی ویڈیو ڈارک ویب پر دیکھی گئی تھی بھارت ، بنگلہ دیش ،نیپال ، افغانستان وغیرہ اس مقصد کے لیے آسان ہدف سمجھے جاتے ہیں ۔ بین الاقوامی جریدوں اور سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق اس جرم میں ایسے با اثر لوگ ملوث ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا انتہائی مشکل ہے ۔تاہم پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ڈاکٹر شاہد مسعود کی طرف سے کیا گیا یہ دعوی بھی شکوک و شبہات پر مبنی تھا مگر ڈاکٹر نے اس دعوی کے ساتھ جناب چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے ٹی وی پر سر عام چیلنج کر دیا کہ اگر یہ سچ نہ ہوا تو اُسے بے شک پھانسی پر چڑھا دیا جائے ۔اکثر اینکروں اور تجزیہ نگاروں کا حال اس غائب دماغ پروفیسر والا ہو چکا ہے جس نے اپنے شاگردوں کو ایک جانور کا دماغ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ افریقہ کے کالے گدھے کا دماغ ہے جوکہ اب نایاب ہوچکا ہے ، اس کی نسل دنیا سے مٹ چکی ہے اور اس طرح کہ اب صرف دو ہی دماغ ہیں ایک برطانیہ کے عجائب گھر میں ہے اور ایک آپ کے اس ٹیچر کے پاس ہے ۔
اب صورتحال یہ ہے کہ پورا میڈیا اصرارکر رہا ہے کہ ثبوت فراہم کریں کیونکہ انھوں نے دعوی کیا ہے حالانکہ انھیں خبر دیکر تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیئے تھا مگر ہمارے ملک میں یہی مسئلہ ہے سبھی خود کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں اور جو صحافی حضرات ان کے خلاف زیادہ بول رہے ہیں ان میں سے 80فیصد کی خبریں غلط ہوتی ہیں جو کہ ریکارڈ پر ہے اور ریٹنگ کے چکر میں ایسا کیا جاتا ہے درحقیقت کسی بھی شعبے میں چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے بلکہ جو زیادہ بدنام ہوتا ہے اسی کا نام ہوتا ہے۔ فی الحال ڈاکٹرشاہد کاکیرئیر تو داؤ پر لگ گیا ہے کہ جناب چیف جسٹس نے بھی کہہ دیا ہے:’’ اگر آپ ہمیں ثبوت فراہم کریں تومیں آپ کو ایمان داری کا سرٹیفکیٹ دوں گا لیکن ا گر آپ جھوٹے نکلے تو آپ کے خلاف سخت کاروائی ہوگی ‘‘۔اس پر ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا:’’ میں راؤ انوار کی طرح نجی طیارے پر یہاں سے فرار ہوجاؤں گا۔‘‘ تو جناب چیف جسٹس نے غیر متعلقہ باتوں پر سزنش کی اور کہا :’’آپ ثبوت فراہم کرنے تک یہاں سے نہیں جا سکتے، اگر بھاگنے کی کوشش کی تو آپ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دینگے ،آئندہ جوڈیشیل کمیشن نہیں بنے گا ، واقعات کی تحقیقات جے آئی ٹیز کریں گی اور عدلیہ مخالف تقاریر کا درست وقت پر نوٹس لیں گے ‘‘۔قیاس آرائیاں تو یہی ہیں کہ راؤ انوار نجی طیارے پر ملک سے فرار ہو چکاہے ،وہ بھاگا ہے یا انڈر گراؤنڈ ہے مگر ایک بات تو طے ہے کہ ’’تا تریاق ازعراق آوردہ شود ‘‘کے مصداق جب تک پولیس اور ادارے دور ازکار باتیں اور کاروائی کریں گے تب تک عوام بھلا چکے ہونگے اور تبھی صلح و معافی کے بعد اس مسئلے کو نپٹا دیا جائے گا ۔ وارثان کا رونا اور انصاف کے لیے دردر ٹھوکریں کھانا انکا نصیب بن چکا ہے ویسے یہ ایک’’ نقیب اﷲ‘‘ تو نہیں جو بے گناہ مارا گیا ایسے پتہ نہیں کتنے نقیب اﷲ’’ جعلی پویس مقابلوں‘‘ کی نذر ہوگئے توجب راہنما راہزن بن جائیں تو سوال یہ نہیں رہتاکہ میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں بلکہ پھر تو کہنا پڑتا ہے :
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو ۔۔؟

مگر یاد رہے کہ ’’تدبیر کند بندہ ،تقدیر زند خندہ ‘‘کہ انسان تدبیر کرتا ہے مگر تقدیر اس پر ہنستی رہتی ہے گویا کام کا دارومدار محض تدبیر اور کوشش پر نہیں بلکہ حقیقی قوت قسمت ہے جو تدبیر کو ناکام بنا کر اپنے الگ فیصلے دیا کرتی ہے اور ابھی اصل فیصلہ باقی ہے !
 

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 90155 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.