اٹھارویں صدی عیسوی تاریخِ انسانیت کی وہ حیران کن صدی
ہے،جس میں جدید دنیا کی بنیاد رکھی گئی۔سائنسی ایجادات نے انسانیت کو وہ
محیرالعقول کرشمے دکھاناشروع کیے جس کی مثال ہزاروں سالہ انسانی تاریخ میں
ملنا مشکل تھی۔یہی وہ صدی تھی جس میں صنعتی انقلاب پروان چڑھنے لگا جو
انیسویں صدی میں اپنے جوبن پر آیا،جس نے پوری دنیا کو گلوبل ویلج بنا
کرانسانی تاریخ کاحیرت انگیز کارنامہ سرانجام دیا ۔دنیا کو گلوبل ویلج
بنانے میں بنیادی عمل دخل اللہ کی پیدا کردہ ان معدنیا ت اور قدرتی وسائل
کا ہے جن کے ذریعے جدید دنیا کو تسخیر کیا گیا۔ان معدنیا ت میں پٹرول
سرفہرست ہے۔پٹرول کی جدید تاریخ انیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوتی
ہے۔انیسویں اور بیسویں صدی کی ایجادات کاسہرا پٹرول کے سر ہے۔استعماری غارت
گروں نے پٹرول کی دریافت ہی سے نئی دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرلیا تھا کہ
پٹرول ہی وہ طاقت ہے جس کے ذریعے آنے والے دنوں میں دنیا پر بادشاہت قائم
کی جائی گی۔اسی وجہ سے استعماری غارت گروں نے ایک منظم منصوبہ سازی کے تحت
پٹرول سے مالا مال خطوں پر قبضے کے لیے پر مارنے شروع کیے۔چنانچہ سلطنت
عثمانیہ( جسےدنیائےپٹرول کی جنت کہا جاتا تھا)کوڈھانےکےلیے برطانہ ،فرانس،روس،اٹلی،جرمنی،امریکا
سمیتاستعماری طاقتوں نےپنجہ آزمائی شروع کی،جس کے لیے باقاعدہ سلطنت
عثمانیہ کے آخری مضبوط بادشاہ عبدالحمید ثانی کو مجبور کیا گیا اور اس کو
تخت سے اتارنے کے لیے خوفناک سازشیں کی گئیں۔اس پنجہ آزمائی کے نتیجے میں
سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے کرکے ابتداًموجودہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی شکل میں
ڈھالا گیا۔پھر ان ممالک کو استعماری طاقتوں نے باہمی طورپر تقسیم کرکے ان
کے وسائل اور معدنیا ت کو ہڑپ کرنا شروع کردیا۔طاقت کے نشے میں سرشار ان
استعماری غارت گروں میں اس قدر رسہ کشی ہوئی کہ دو بڑی عالمی جنگیں لڑنا
پڑیں،جس میں کروڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا۔یہ سلسلہ دوسری عالمی جنگ
کےاختتام سے لے کر نائن الیون تک سرد جنگوں کی صورت مسلسل چلتارہا۔اس دوران
پٹرول اور دیگروسائل سے مالا مال ممالک کو کنٹرول کرنے کے لیے وہاں کی
حکومتوں کو اپنی گرفت میں لیا گیا۔لیکن جب کبھی ان حکومتوں نے حکم عدولی کی
تو انہیں برباد کردیا گیا۔افغانستان ،عراق،لیبیا، شام،یمن اس کی واضح
مثالیں ہیں۔ان ممالک کو برباد کرنے کے لیے عالمی غارت گروں نے اگرچہ مختلف
اسباب گڑھے،مگر ہدف سب کا مشترکہ تھا کہ ان ممالک کے وسائل پر کس طرح قبضہ
کیا جائے۔یقین نہ آئے تو15 مارچ2011 سے شام میں شروع ہونے والی7سالہ خانہ
جنگی کو نکال کردیکھ لیا جائے،جس کے پیچھے چھپے اصل اہداف اب کھل کر سامنے
آرہے ہیں۔
پچھلے 7 سال سے شام کے مستقبل پر عالمی طاقتیں کئی بار سرجوڑ کر بیٹھ چکی
ہیں کہ شام کا سیاسی مستقبل کیا ہوناچاہیے؟اورشام کے نظم ونسق کو کون
کنٹرول کرے ؟۔اس کے لیے ا ب تک دو درجن سے زائد بڑی بڑی عالمی رہنماؤں کی
کانفرنسیں ہوچکی ہیں،جن میں عرب لیگ پیس پلان سے لے کر،
جنیوا،ویانا،آستانہ،ریاض اور سوچی کانفرنسیں سرفہرست ہیں۔دو درجن سے زائد
ان بڑی بڑی کانفرنسوں میں شامی خانہ جنگی کے مستقل خاتمے اور شام کےسیاسی
مستقبل پرغوروفکرکیاگیا،شام میں لڑنے والے تمام فریقوں کو یک جا
کرکے،روس،چین،امریکا،فرانس،برطانیہ،سعودیہ،ترکی اور ایران سمیت تمام عالمی
طاقتیں ایک میز پر اکھٹی ہوئیں۔لیکن تاحال یہ عالمی طاقتیں کسی نتیجے پر
نہیں پہنچ پائیں ۔اس کی بنیادی وجہ عالمی طاقتوں کے وہ مختلف مفادات ہیں جو
ان طاقتوں کو کہیں متحد نہیں ہونے دیتے۔امریکا،روس،ایران اور ترکی سمیت
شامی خانہ جنگی کی چاربنیادی اوربڑے کردارہیں۔امریکا کے ساتھ یورپ اور دیگر
بعض خلیجی ممالک شامل ہیں۔جب کہ روس،ایران اور ترکی پر مشتمل علیحدہ ایک
اتحاد ہے۔جن میں سے ہرایک اپنے مفادات کے لیے برسرپیکارہے۔یوں امریکا اور
روس کی شکل میں دو بڑے فریق بن جاتے ہیں۔یہی دو فریق ہیں جنہوں نے شامی
خانہ جنگی کو بڑھایا،ایک نے داعش کے فتنے کو پروان چڑھا کرتودوسرےنے
بشارالاسد جیسے ظالم شخص کو سپوٹ کرکے خانہ جنگی کو طول دیا اورمظلوموں کا
قتل عام کروایا۔یہی دو فریق ہیں جو شام کے پرامن مستقبل کی راہ میں رکاوٹ
بنےہوئے ہیں۔کیوں کہ ان میں سے ہر فریق یہ چاہتاہے کہ شام کاکنٹرول اور اس
کے قدرتی وسائل کی ملکیت اس کے ہاتھ میں آجائے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ شام جہاں معدنی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے،
وہیں ان قدرتی وسائل کی یورپی منڈیوں میں ترسیل کا بہترین سنگھم بھی
ہے۔چنانچہ دنیا کی قدرتی گیس کا اکثروبیشتر حصہ خلیج فارس میں واقع ہے،جو
ایران اور قطر کے پاس ہے۔ روس کے بعدایرا ن قدرتی گیس کے ذخائر رکھنے میں
دنیا کا دوسرا جب کہ قطر دنیا کا تیسر ا بڑا ملک ہے۔ شامی خانہ جنگی سے
پہلے قطر نے شامی حکومت سے بات چیت کی کہ وہ اپنی قدرتی گیس یورپی منڈیوں
تک پہنچانا چاہتاہے،جس کے لیے قطرسے براستہ سعودی عرب،اردن،شام ،ترکی یورپ
تک پائپ لائن بچھانا چاہتاہے۔مگر شامی حکومت نے انکار کردیا۔ادھر ایران کی
بھی یہی خواہش تھی،مگر عراق میں مسلسل بدامنی کے باعث ایران بھی یہ خواہش
تاحال پوری نہیں کرپایا۔البتہ شامی خانہ جنگی میں بشار الاسد کی سپوٹ کی
وجہ سے ایران شام کے پٹرولیم اور گیس کے قدرتی ذخائر سمیت کنسٹرکشن وغیرہ
کے پروجیکٹ حاصل کرچکاہے۔جس کے بعد اگلا مرحلہ گیس پائپ لائن کا ہے۔دوسری
طرف روس نے شام میں پنجے مضبوط کرنے کے لیے 2015سےبشارالاسد کا خانہ جنگی
میں بھرپور ساتھ دیا،جس کے عوض بشارالاسد نے روس کو شام میں دو فوجی اڈے
بنانے کی اجازت دی ،جن میں سے شام کی بندرگاہ طرطوس پر واقع روسی فوجی اڈے
پر بیک وقت 11جنگی بحری جہاز مستقل موجود رہیں گے۔اس کے علاوہ رو س بھی یہ
چاہتاہے کہ وہ شام اور عراق میں موجود قدرتی گیس کے ذخائر خرید کر ان کو
یورپی منڈیوں میں بیچے۔
رہی بات ترکی کی ،تو چوں کہ ترکی شام کا پڑوسی ملک ہے اور ترکی کی شام کے
ساتھ822کلومیٹر کی طویل سرحد لگتی ہے۔شامی خانہ جنگی سے سب سے زیادہ ترکی
کو نقصان ہوا۔جس میں ایک طرف ترکی کو 30لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو ترکی
میں پناہ دے کر ان کے اخراجات برداشت کرنا پڑے،دوسری طرف شامی کرد باغیوں
اور داعشی دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ترکی کو وقتافوقتاجنگ بھی لڑنا
پڑی۔اس وقت بھی ترکی حلب کے قریب واقعے عفرین نامی شہر میں کرد باغیوں سے
برسرپیکار ہے۔یوں ترکی شامی خانہ جنگی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔یہی وجہ ہے
کہ شامی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے ترکی سب سے زیادہ کوششیں کررہاہے۔تاکہ
شام کو پرامن بناکر ترکی کو پرامن بنایا جاسکے۔لیکن امریکا اور اس کے حواری
دیگر یورپی ملک جو ترکی کی بڑھتی ہوئی ترقی سے خائف ہیں وہ ترک مخالف
کردباغیوں سمیت دیگر دہشت گردوں کو سپوٹ فراہم کرکے ترکی کو مزید خانہ جنگی
میں الجھانا چاہتے ہیں۔جس کا اقرار ترک حکومت کئی بار کرچکی ہے اور دنیا کے
سامنے امریکا کی کرد باغیوں کی درپردہ سپوٹ کو بھی منطر عام پر لاچکی ہے۔
29اور30 جنوری 2018 کو روس کے جنوبی شہر سوچی میں شام کے مستقبل کے بارے
دوروزہ کانفرنس منعقد ہوئی۔جس میں 1600 کے قریب شام کےمختلف شہروں اور
مختلف سیاسی وجہادی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے سیاست دان، دانشور وغیرہ
شریک ہوئے۔اس کانفرنس میں ترکی،روس،ایران سمیت دیگر ممالک کے نمائندگان بھی
شریک ہوئے۔کانفرنس کے اختتام پر اعلامیہ میں کہا گیا کہ شام کا سیاسی
مستقبل انتخابات کے ذریعے طے کیا جانا چاہیے اور شام کے موجودہ دستور میں
تبدیلی واصلاحات کے لیے 150لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی،جو حکومت
سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا سوچی
کانفرنس کے بعد شام میں مکمل طور پر امن آجائے گا؟کیا سوچی کانفرنس کے
اعلامیے پر مکمل طور پر عملدرآمد ہوگا؟کیا شام میں آزاد حکومت انتخابات کے
ذریعے قائم ہوجائےگی؟اگر گزشتہ سات سالوں سے شامی خانہ جنگی کے حل کے لیے
منعقد ہونے والی بڑی بڑی کانفرنسوں کا ٹریک ریکارڈ نکال کردیکھاجائے تو
جواب نفی کی صورت ملتاہے۔اس کی بنیادی وجہ شام میں موجودایران،روس،امریکا
سمیت وہ بیرونی قوتیں ہیں جوا پنے اپنے مفادات کے لیےبرسرپیکار ہیں۔جب تک
یہ بیرونی قوتیں شام سے نہیں نکل جاتیں ،شام میں مکمل طور پر امن نہیں
آسکتا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک متحد ہوکر شام کے معاملے کے لیے
کمربستہ ہوں اور ترکی کی قیادت میں آگے بڑھ کر بیرونی قوتوں کو شام سے بے
دخل کرنے کے لیے اپنا اثرروسوخ استعمال کریں اور بھرپورسفارتی دباؤ
ڈالیں۔اخوت اسلامی اور اتحادِ عالم اسلامی کا یہی تقاضا ہے۔ |