ابھی صبح ہونے کوہی تھی کہ ۰۰۰

29؍ جنوری کی صبح ابھی پرندوں کی چہچہاہٹ ، مرغ کی بانگ اور کوئل کی کو کو کی آوازیں بلند ہوہی رہی تھیں کہ ظالم دنددہ صف انسانوں نے اس سہانی فضاء کی تازگی سے لطف اندوز ہوکر نیند سے بیدار ہونے والے بے قصور لوگوں کوموت کی آغوش میں پہنچا دیااور کئی افراد کو موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا کردیا۔خودکش حملہ آوروں نے دہشت گردانہ کارروائی کے ذریعہ کابل میں فوجی اکیڈیمی مارشل فہیم نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں حملہ کر دیا ۔افغانستان میں انسانیت کے دشمن اپنی ظالمانہ کارروائیوں کے ذریعہ بے قصور لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں ۔ سوپر پاور طاقتیں ان دہشت گردوں کے سامنے ناکام ہوچکی ہیں۔ سوپر پاور طاقتوں کی انٹلی جنس کتنی مضبوط اور مستعد اور کارکردہے ان حملوں کے بعد پتہ چل جاتا ہے اگر ان سوپر پاور ممالک کی انٹلی جنس واقعی مستعد اورذہین و مضبوط ہوتیں تو افغانستان میں ایسے دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ نہیں ہوتا۔ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سوپر پاور امریکہ کی ناکامی ہے یا دہشت گردوں کی طاقت میں اضافہ۔؟ اب رہا مسئلہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہا ہے یا نہیں۔ پاکستانی حکمراں اور فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پالیئے ہیں لیکن جب جب پاکستانی فوج اور حکومت اس قسم کے دعوے کئے ہیں اس کے چند دن بعد ہی پاکستان میں دہشت گردوں نے خطرناک کارروائیاں کیں ہیں۔افغانستان میں ہونے والی ان کارروائیوں کو طالبان یا حقانی نیٹ ورک سے جوڑا جارہا ہے اور طالبان نے بھی ان کاررائیوں کی انجام دہی کو قبول کیا ہے ۔اب رہا مسئلہ اگر طالبان واقعی ان دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دیئے اور دے رہے ہیں تو پھر انکا تعلق اسلام سے کس طرح ہوسکتا ہے کیونکہ اسلام تو امن و سلامتی کا مذہب ہے اور بے قصور افراد کو مارنے کی اسلام میں کہیں اجازت نہیں۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جس طرح دہشت گردانہ حملوں میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کو کسی صورت میں چین و سکون سے دیکھنا پسند نہیں کرتے۔

افغان وزارت دفاع کے مطابق اس فوجی اڈے پر حملے میں 11افغان سیکیورٹی اہلکار اور چار حملہ آور ہلاک ہوگئے جبکہ 16فوجی زخمی ہوئے ہیں۔حکام نے ایک حملہ آور کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے ۔ اگر یہ گرفتاری سچ ہے تو پھر اس حملہ کے دشمن کون ہیں اس کا پتہ چل جائے گا۔ وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیےری نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ پانچ میں سے دو حملہ آوروں نے خود کو دھماکہ خیز مادے سے اڑالیا جبکہ دو سکیوریٹی فورسز نے ہلاک کردیئے اور ایک کو گرفتار کیا گیا۔ اس حملہ سے صرف دو دن قبل ہی دارالحکومت کابل کے ریڈ زون علاقے میں ایمبولینس کے ذریعے دھماکے کی کارروائی انجام دی گئی جس کے نتیجے میں کم ازکم 95 افراد جاں بحق اور 158 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ اس سے قبل 21؍ جنوری کو کابل میں واقع انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں فوجی لباس میں ملبوس دہشت گردوں نے حملہ کردیا تھا جس میں 30 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔صرف جنوری کے مہینے میں دارالحکومت کابل میں تین بڑے حملے کئے گئے ان حملوں کے پیچھے کیا مقاصد ہے اس سلسلہ میں ابھی تک کوئی بات منظر عام پر نہیں آئی۔ ایک طرف سوپاور امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی کو محسوس کرچکا ہے یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے اسے دی جانے والی امداد معطل کردی ہے۔ یہ کتنی بڑی شرم کی بات ہے کہ افغان صدر اشرف غنی لون نے خود کہا ہے کہ اگر امریکہ کی امداد اور تعاون افغان حکومت کے ساتھ نہ رہا تو تین دن بھی چلنا محال ہے ۔ ان کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان کو امریکہ کی کتنی ضرورت ہے اور امریکہ اس ضرورت کو پوری کرنے کے لئے کس طرح پاکستانی مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے۔ اگر امریکہ کی انٹلی جنس واقعی بہترین صلاحیتوں کی حامل ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ پناہ گاہیں کہاں ہیں ۔ کئی مرتبہ امریکہ نے ڈرون حملوں کے ذریعہ بے قصور انسانوں کا قتل عام کیا ہے اور اب بھی امریکہ یہی چاہتا ہے۔ ایک طرف دہشت گرد عام شہریوں کا قتل عام کرتے ہیں تو دوسری جانب امریکہ اور ان ممالک کی فوج و سیکیوریٹی عہدیداروں کی کارروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں ہونے والے ان بڑے حملوں کے بعد دنیا کی تمام قوموں پر زوردیا ہے کہ وہ کابل میں دہشت گردی کے حملے میں ہلاک کرنے والے طالبان گروپ کے خلاف جنگ کریں۔امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق پیر29؍ جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’ہم طالبان کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔بعد ازاں وائٹ ہاؤس نے بھی ایک بیان جاری کیا جس میں امریکی حکام نے کابل میں دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے دنیا کی تمام قوموں سے مطالبہ کیا ہیکہ وہ اس حملے کے پیچھے موجود طالبان دہشت گردوں کے خلاف جنگ کریں۔بیان میں امریکی صدر کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ قاتلانہ حملہ ہمارے عزم اور افغان شراکت داروں کے حوصلے کم نہیں کرسکتا جبکہ طالبان کا ظلم کبھی غالب نہیں آسکے گا،امریکہ ایسا افغانستان چاہتا ہے جو پر امن ہو اور دہشتگردوں سے پاک ہو، جو بھی امریکیوں، ہمارے اتحادیوں اور کسی شخص کو نشانہ بنائے گا وہ ہمارے نظریات کیخلاف ہوگا، لہٰذا تمام ملکوں کو چاہیے کہ وہ طالبان اور دہشتگروں کو سہولت فراہم کرنے والوں کیخلاف کارروائی کریں۔اسی طرح کا ایک بیان امریکی معتمد دفاع ریکس ٹیلرسن کی جانب سے بھی جاری کیا گیا جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ جو دہشت گردوں کی حمایت یا انہیں پناہ گاہیں فراہم کرتیں ہیں انہیں اب برداشت نہیں کیا جائے گا۔امریکی صدر اور سیکریٹری کی جانب سے دیئے جانے والے بیان سے صاف ظاہر ہوتاہے اس کا اشارہ پاکستان کی طرف ہے ۔ اسی لئے واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر اعجاز احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ کابل میں دہشت گردوں کے ہر حملے کے بعد اس کا الزام پاکستان پر لگانا امریکی کوششوں میں مدد گار ثابت نہیں ہوگا۔انہوں نے امریکہ کے اس دعوے کی تردید کی کہ ہفتے کو کابل میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے ذمہ دار پاکستان میں موجود دہشت گرد گروپ ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں اضافہ کردیا ہے جبکہ واشنگٹن امریکی فوجیوں کی تعداد کو 8500 سے بڑھا کر 14 ہزار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ امریکہ ، افغانستان میں کس قسم کی کارروائی کرتاہے اور اسکے لئے پاکستان اس کا ساتھ دیتا ہے یا نہیں اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ بہت جلد امریکہ افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے نام پر بڑی کارروائی کرسکتا ہے۔جس میں پھر ایک مرتبہ معصوم اور بے قصور انسانیت کا قتل عام ہوسکتا ہے ۔

صدر امریکہ کی مسلم دشمنی کے اعلان کا ایک سال مکمل
امریکی صدر کی مسلم دشمنی سے کون واقف نہیں ۔ سوپاور ملک کی صدارت پر فائز ہونے سے قبل ہی انہوں نے مسلم دشمنی کا اظہار کرچکے تھے ۔ سمجھا جارہا تھا کہ صدارت پر فائز ہونے کے بعد وہ بدل جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ انہوں نے سب سے پہلے اپنے صدارتی حکم نامے کے ذریعہ مسلم اکثریتی ملکوں کے شہریوں کی امریکہ آمد روکنے کا آرڈر دیدیا تھاجس کا ایک سال مکمل ہوچکا ہے ۔ ایک سال مکمل ہونے پر وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ کیا گیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق نیویارک کے واشنگٹن اسکوائر پارک میں ہونے والے مظاہرے میں شریک مسلم شرکاء نے باجماعت نمازِ ظہر بھی ادا کی۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن اور ہیلتھ پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران مظاہرین کی جانب سے صدر ٹرمپ کے مواخذے کا مطالبہ کیا گیا۔مظاہرے میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی پالیسیاں لوگوں کو تقسیم کرنے والی ہیں۔مظاہرین نے صدر ٹرمپ کی جانب سے افریقی ممالک کیلئے بے ہودہ الفاظ استعمال کرنے کی بھی مذمت کی۔صدر امریکہ نے گذشتہ برس 28 ؍جنوری کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے 7 مسلم ممالک ایران، عراق، شام، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے کے حوالے سے سفری پابندیاں عائد کردی تھیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے ان متنازع احکامات کے بعد امریکہ سمیت دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔اسی دوران امریکہ کی وفاقی عدالت نے 2 ریاستوں کی درخواست پر صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو معطل کردیا تھا، جن کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اپیل دائر کی گئی تھی۔بعدازاں5 ؍دسمبر 2017 کو امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 6 مسلم اکثریتی ممالک سمیت 8 ملکوں کے باشندوں پر سفری پابندی کے حکم نامے کے نفاذ کی اجازت دے دی، جسے صدر ٹرمپ کی فتح قرار دیا گیا۔امریکہ کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ان ممالک کے شہریوں پر لگائی گئی سفری پابندی مکمل طور پر نافذ العمل ہو سکتی ہے۔جن ممالک پر سفری پابندیاں عائد کی گئیں، ان میں شام، ایران، لیبیا، یمن، صومالیہ، چاڈ، شمالی کوریا اور وینزویلا شامل ہیں۔یہ تو امریکی صدر کا اپنے ملک میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی عائد کرنے کا مسئلہ تھا لیکن انہو ں نے اسلام دشمن صیہونی ریاست اسرائیل کا بھی ساتھ دیتے ہوئے فلسطین کے ساتھ ناانصافی کی ہے امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا صدر مقام تسلیم کیا ہے تو دوسری جانب تل ابیب سے یروشلم کو اپنا سفارت خانے منتقل کرنے کا اعلان کیایہی نہیں بلکہ اب یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بیت المقدس اسرائیل کے حوالے کردیا جائے ان کے اس بیان کے بعد عالمی سطح پر مذمت کی جارہی ہے اور دنیا بھر کے ممالک میں احتجاج منظم کیا گیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے فلسطین کو دی جانے والی امداد میں بھی کمی کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد اقوام متحدہ نے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔امریکی صدر کا کہنا ہیکہ امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر فلسطینیوں نے امریکہ کی تضحیک کی ہے۔واضح رہے کہ یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے پر فلسطینی قائدین نے کہا تھا کہ اب امریکہ غیر جانبدار ثالث نہیں رہا اس کے علاوہ فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ میں امن کوششوں کو اس صدی کا طمانچہ قرار دیا تھا ۔ اور پھر امریکی نائب صدر مائیک پینس سے ملنے سے بھی انکار کردیا جس کے بعد امریکہ اسے اپنی توہین محسوس کرتا ہے ۔

لندن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کی مذمت
امریکی صدر کی اسلام دشمن پالیسی کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج بلند ہورہا ہے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں عظیم الشان دفاع القدس کانفرنس منعقد کی گئی۔اس کانفرنس میں برطانیہ میں موجود علما ء کرام، مذہبی اور سماجی شخصیا ت سمیت بڑی تعداد میں عام شہریوں نے شرکت کی۔ کانفرنس سے خطاب میں مقررین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کے حوالے کئے جانے کے اعلان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے امریکی اعلان القدس کو باطل قرار دیا۔اس موقع پر پیش کردہ ایک قرارداد میں عرب ممالک اور عالم اسلام کی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ بیت المقدس کے دفاع کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا اداراک کرتے ہوئے بیت المقدس کی قابض اسرائیل سے آزادی کے لیے کوششیں تیز کریں۔کانفرنس میں امریکہ کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد بند کیے جانے کی بھی شدید مذمت کی گئی اور کہا کہ امریکہ صہیونی ریاست کے جرائم کی روک تھام کے بجائے مظلوم فلسطینی قوم پر دبا ڈال رہا ہے۔

فلسطینیوں کے حقوق کیلئے ہرمحاذ پر لڑیں گے۔ترکی
ترک وزیر خارجہ جاویش اوغلو نے کہا ہے کہ فلسطینی قوم اور قضیہ فلسطین کے لیے صرف سفارتی محاذ پر نہیں بلکہ زندگی کے تمام محاذوں پر فلسطینیوں کے حقوق کا مقدمہ لڑیں گے۔ ترک وزیرخارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ فلسطینیوں کی حمایت ہرسطح پر جاری رکھی جائے گی۔ صرف سفارتی جنگ نہیں بلکہ اقتصادی، سماجی ، ثقافتی اور دیگر شعبوں میں فلسطینیوں کی مدد اور حمایت جاری رہے گی۔ایک تقریب سے خطاب کے دوران انہوں نے کہاکہ ترکی القدس کی مدد اور نصرت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ترک وزیرخارجہ جاویش اوغلو نے فلسطینی قوم کو اپنی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق انکا کہنا تھا کہ فلسطینیوں میں یکجہتی اور باہمی تعاون قضیہ فلسطین کو آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ امریکہ کی جانب سے فلسطینیوں کی مالی امداد بند کرنے کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانے کی بات کہی اور اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ ترکی فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے مالی معاونت جاری رکھے گا اور اس ضمن میں اپنے وعدے پورے کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اورترک وزارت خارجہ مل کر فلسطینیوں کے حقوق کیلئے کام کریں گی اور فلسطینیوں کے حقوق کا ہرسطح پر مقدمہ لڑا جائے گا۔

کویت کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینون کیلئے امداد
مشرق وسطیٰ کا ایک اہم ملک کویت نے فلسطینی پناہ گزینوں کی فلاح و بہبود کے ذمہ دار اقوام متحدہ کے ادارے اونروا کو فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے سروسز فراہم کرنے کیلئے 9 لاکھ ڈالر کی امداد جاری کی ہے۔کویت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے گزشتہ دنوں بتایا کہ کویتی حکومت کے ایک وفد نے امریکی شہر نیویارک میں اونروا کے عہدیداروں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے موقع پرکویت کی جانب سے 9 لاکھ ڈالر کا امدادی چیک دیا۔ اونروا کے ہائی کمشنر پییر کرینپول نے گذشتہ پیر کو ادارے کیلئے نئی فنڈ ریزنگ مہم شروع کرتے ہوئے امداد دینے والے ملکوں سے مزید امداد کی درخواست کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ امداد دینے والے ممالک امریکہ کی طرف سے روکی گئی 65 ملین ڈالر کی کمی پوری کرنے کے لیے ادارے کی مدد کریں۔کرینپول نے کہا کہ اونروا کو تاریخ کے بدترین مالی بحران کا سامنا ہے۔ عالمی برادری نے امداد نہ دی تو فلسطینی پناہ گزین مزید مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں۔جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے ذمہ دار اداریاونروا کو دی جانے والی سالانہ 300 ملین ڈالر کی امداد میں سے 65 ملین ڈالر کی امداد کم کرنے کا اعلان کیا تھا۔واضح رہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے زیراہتمام ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کا قیام 1949 میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس ادارے کے ذمہ اردن، شام، لبنان، غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں پناہ گزین کیمپوں میں موجود فلسطینیوں کو خوراک، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں مدد فراہم کرنا ہے۔امریکہ ، اسرائیل کا ساتھ دیتے ہوئے اگر فلسطین کی امداد روکتا ہے تو اس سے بے شک فلسطینی عوام کے لئے وقتی طور پر تکلیف دہ ہوسکتاہے لیکن دیگر اسلامی ممالک اگر فلسطین کی امداد میں اضافہ کریں تو امریکہ کی جانب سے بند کی جانے والی امداد کا کوئی اثر نہ پڑے گا بلکہ اس سے امریکہ کوہی شرمندگی کا سامنا ہوگا۔

سعودی شہزادوں کی رہائی ۰۰۰
سعودی عرب میں بدعنوانی کے خاتمے کے نام پر شروع کی گئی ایک مہم کے تحت دو ماہ سے زائد عرصہ سے ہوٹل رٹز کارلٹن میں قید رہنے والے 381سعودی شہزادوں اور اعلیٰ افسروں کی 106بلین ڈالر کے سجھوتہ کے بعد رہائی عمل میں آئی ان شہزادوں میں ارب پتی شہزادہ ولید بن طلال بھی شامل ہے جن کی رہائی بھی سمجھوتہ کے بعد عمل میں آئی۔437افراد کو بدعنوانی کے تحت گرفتار کیا گیا تھا لیکن سعودی اٹارنی جنرل شیخ سعود المعجب کے مطابق 381افراد رہائی پاچکے ہیں۔ جبکہ 56افراد کو حراست میں رکھا جائے گا کیونکہ حکومت نے ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا ہے ان افراد کے خلاف دیگر مقدمات بھی بتائے جارہے ہیں۔ سعودی اہلکاروں کے مطابق ولید بن طلال اپنی کمپنی کنگڈم ہولڈنگ کے سربراہ برقرار رہیں گے جبکہ ایک اور شہزادہ ولید الابراہیم کو بھی رہا کیا گیا لیکن ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی حکام نے ولید الابراہیم کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کے حوالے معلومات ظاہر نہیں کیں تاہم اطلاعات کے مطابق ان کو ایم بی سی پر اپنا کنٹرول کھونا پڑے گا۔ اسی طرح خالد التویجری جو شاہ عبداﷲ مرحوم کے وقت شاہی کورٹ کے سربراہ ہوتے تھے انہیں بھی رہا کردیا گیا۔سعودی ولیعہد محمد بن سلمان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس مہم کا مقصد ان کے تخت تک پہنچنے کی کوشش ہے ۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مملکت سعودی عرب میں شہزادوں کو حراست میں لیا گیا ورنہ شاہی خاندان کے افراد کو کئی سہولتیں فراہم تھیں اور انکے خلاف مملکت میں کوئی خلاف بات کرنے سے بھی گھبراتے تھے ۔ آج سعودی عرب کے اندرونی حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں کئی شہزادے شاہ سلمان اور انکے ولیعہد محمد بن سلمان کے خلاف ہوتے جارہے ہیں ۔ سعودی عرب ان دنوں اندرونی اور بیرونی حالات سے نبردآزما ہے۔ یمن اور شام کی خانہ جنگی میں سعودی عرب کا اہم رول ہے اور یہی وجہ ہے کہ گذشتہ تین سال سے سعودی عرب کا بجٹ خسارہ میں بتایا جارہا ہے۔

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255857 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.