سیف اﷲ خالد،صدرملی مسلم لیگ
گاندھی نے کہا تھا کہ یہ تقسیم دوبارہ متحدہ ہندوستان کی راہ ہموار کرے گی
،نہرو نے بھی یہ بلند بانگ دعوی کیا تھا کہ دیکھ لینا عنقریب یہ گھٹنوں کے
بل چل کر آئیں گے اور پاکستان کو ہندوستان میں ضم کرنے کی ہم سے درخوست
کریں گے۔ دور حاضر کاچانکیہ وی پی مینن جو ریاستوں کی وزارت کے سیکریڑی تھے
نے کہا کہ یہ تقسیم عارضی ہے ۔ہندؤوں نے بلوچستان میں پیسہ بھیجا تاکہ وہاں
کا ووٹ خریدا جا سکے لیکن وہاں جو گرینڈ جرگہ ہوا اس نے پاکستان کے حق میں
فیصلہ دے دیا پھر سرحد اور سلہٹ میں انہیں یقین تھا کہ فیصلہ ہمارے حق میں
آئے گا وہاں ریفرنڈم کروایا وہ بھی پاکستان کے حق میں ہوا ۔یہاں منہ کی
کھانے کے بعد جب کشمیر سمیت ریاستوں کے الحاق کی بات چلی تو طے پایا کہ
جہاں مسلم اکثریت ہے وہ پاکستان کو اور جہاں ہندو اکثریت ہے وہ ہندوستان کو
دے دی جائیں ۔ہندو کی چالاکی دیکھئے کہ جہاں ہندو اکثریت تھی کہا یہ ہماری
ریاست ہے جہاں مسلم اکثریت میں تھے لیکن حکمران ہندو تھے تو انہوں نے کہا
یہ بھی ہماری ریاست ہے کیونکہ وہاں حکمران ہندو ہے یعنی’’ سر تو میرا ہے
لیکن دم بھی تمہاری نہیں‘‘۔ہندوبنیا یہ اصول حیدرآباد،جونا گڑھ اور مناوادر
میں بھول گیا ۔اسی مکارانہ سوچ کے تحت انہوں نے حیدرآبادسے بھی پہلے کشمیر
پر جابرانہ قبضہ کیا انہیں کامل یقین تھا کہ کشمیر جہاں پاکستان کی حیات ہے
، دریاوں کے سوتے پھوٹتے ہیں اور پاکستان کی معیشت کا انحصار انہی دریاوں
پرہے اس لئے پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے بنیانے کشمیر کو
ہتھیایا لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ کشمیر ہی ان کے گلے کی ہڈی بن جائے گا
جسے وہ نہ نگل سکیں گے اور نہ اگل سکیں گے ۔کشمیر جنت نظیر پاکستان کے لئے
کس قدر اہمیتکی حامل ہے۔ جموں کشمیر چوراسی ہزار چار سو اکہتر مربع میل پر
مشتمل ہے اس کی 82فیصد سرحدیں پاکستان،چین اور افغانستان سے ملتی ہیں جبکہ
18فیصد سرحد ہندوستان سے ملتی ہے اور18فیصد میں سے بھی صرف دو فیصدی پٹی
اکھنور اوربھارتی پنجاب کو ملاتی ہے جو آمدورفت کے قا بل نہیں ۔کشمیرکوبیرونی
دنیاسے ملانے والا اہم راستہ صرف راولپنڈی مظفرآباد روڈ ہے ۔دنیا بھرکے
سیاح اسی راستے سے آتے تھے خود گاندھی بھی یکم اگست 1947کو سری نگر اسی
راستے سے آیا تھا۔7 194میں جب تحریک پاکستان برصغیر کے نقشے میں ترمیم کا
اشارہ دے چکی تھی تو قائد اعظم بھی اسی راستے سے طوفانی دورے پر سری نگر
تشریف لائے اور ارض کشمیر کے جغرافیائی ،سیاسی اور اقتصادی حقائق کو مد نظر
رکھتے ہوئے انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا ۔قائداعظم کا
یہ تاریخی بیان پاکستان کے استحکام کا ضامن ہے ۔سید علی گیلانی اﷲ ان کی
عمر دراز کرے اور وہ کشمیر کی آزادی کا مبارک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔ان
کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے 5فروری کا دن
اسی جذبے اور دینی وارفتگی کا احساس لئے ہوئے ہے ۔اہل کشمیر’’پاکستان سے
رشتہ کیا لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ‘‘کے نعرے اتنے بلند کر رہے ہیں کہ ان
کی گونج کے سامنے ہمالیہ بھی پست نظر آتا ہے۔ کشمیری خونی لکیر ایل او سی
کو توڑ کر آر پار جوڑنے کے عزم کو روز دہراتے اور بھارت کی تمام تر سہولتوں،
پیکجز اور دلفریب رعایتوں کو جو تے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ پاکستان سے پانچ
فروری کے دن سید علی گیلانی اور پوری قوم کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ہم سب
کشمیری ہیں اور کشمیر ہمارا ہے ۔پاکستان کے چپے چپے پر جماعۃ الدعوۃ،ملی
مسلم لیگ اور دیگر مذہبی وسیاسی جماعتوں سے وابستہ ہزاروں لوگ مظلوم کشمیری
بہن بھائیوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہارکے لئے جلسے،جلوسوں اور سیمینارزمیں
ہر سطح پر ساتھ دینے کے عہد کا اعادہ کرتے ہیں کیونکہ یہ رسم بھی ہے ،عزم
بھی اورمیدانوں میں معرکہ آراجذبوں کو جلا دینے کا دن بھی ہے ۔بلا شبہ یہ
تقریبات اور روایات قابل تحسین ہیں لیکن بحیثیت قوم ہمیں یہ جائزہ لینا ہو
گا کہ کیا ہم ان توقعات پر پورا اترتے ہیں جو کشمیری شہدا کی ماؤں ،بہنوں
اور بیٹیوں نے ہم سے وابستہ رکھی ہیں ۔کشمیری شہدا قبر میں بھی اپنے جسموں
پر پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لپیٹ کر اترتے ہیں مگر ہمارے حکمران ہندوستان
سے دوستی اور تجارت کے لئے کشمیری شہداء کے خون سے غداری کر رہے ہیں ۔پاکستانی
قوم اور قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لئے مودی کا یہ بیان کافی ہے کہ خون
اورپانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے ۔مودی کشمیر میں ہمارا خون بہا رہا ہے اور
پاکستان کے حصے کا پانی بند کر کے اسے صحرا بنانے کے ایجنڈے پرکار بند ہے ۔
جب راوی بہتا تھا تو لاہور میں زیر زمین پانی صرف دس فٹ کی گہرائی پر مل
جاتا تھا لیکن دو مہینے پہلے کی بات ہے پنجاب اسمبلی کے عقب میں ٹیوب ویل
لگایا گیا جہاں سے 1350فٹ کی گہرائی سے پانی دستیاب ہوا ہے یہ لمحہ فکریہ
ہے ۔کشمیر کے لوگ مزاحمت نہ کرتے تو تو بھارت اب تک سینکڑوں ڈیم بنا چکا
ہوتا جس سے پنجاب اور سندھ بنجر ریگستان بن چکے ہوتے ۔ جبکہ کشمیریو ں نے
جانوں کے نذرانے پیش کر کے پاکستان کو سیراب کرنے والے دریاؤں کی حفاظت کی
اور پاکستان کو بد ترین قحط سے بچا یاہے۔پنجاب اور سندھ کی لہلہاتی فصلوں
میں پانی کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کا خون بھی شامل ہے ۔کشمیری بھارت کا راستہ
نہ روکتے تو پاکستان کے اندر ہزاروں کلبھو شن تخریب کاری کر رہے ہوتے۔
دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کا جہاد کوئی علاقائی لڑائی یا محض
زمین کا تنازعہ نہیں بلکہ یہ تکمیل پاکستان کی جنگ ہے جو کشمیر ی لڑ رہے
ہیں۔ہمارے حکمرانوں کو منافقانہ رویہ ترک کر دینا چاہیے وہ کشمیریوں کی
وکالت کریں یا بھارت سے دوستی نبھائیں۔کشمیری قوم نے اپنی آزادی کے لئے جو
تاریخی قربانیاں دیں وہ بے مثال ہیں ،سینکڑوں بوڑھوں کی داڑھیاں خون میں تر
بترہوچکیں ،ماؤں اور بہنوں کی عزتیں پامال ہو چکیں ،جوانوں کو شہید کیا جا
چکا ،کشمیری اکابرین اور رہنما زبان بندی ،گرفتاریوں اور مقدمات کا نشانہ
بنتے رہتے ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کشمیر ی عوام اقوام عالم اور
امت مسلمہ کی جس توجہ کے مستحق ہیں تاحال ان کو وہ توجہ حاصل نہیں ہو سکی ۔کشمیریوں
کی نسل کشی کو 70سا ل ہو چکے مگر عالمی برادری نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔قابض
فورسز کی طرف سے ممنوعہ پیلٹ گن کے استعمال سے ہزاروں نوجوان ،معصوم طلباو
طالبات کے چہرے بری طرح مسخ کردیے گئے ہیں ۔بھارت یہ الزام لگاتا ہے کہ
سرحد پا ر سے مجاہد آتے ہیں لیکن آج بھارت خود اپنے کہے کی نفی کر رہا ہے
اور اس کی پریشانی یہ ہے کہ کشمیریوں کی نئی نسل جسے اس نے بہت سے لالچ
دئیے آج میدان جہاد میں موجود ہے ۔بھارتی سرکار کی رپورٹس ہیں کہ2015میں
66نوجوانوں نے گن اٹھائی 2016میں برہان وانی کی شہادت کے بعد 88نوجوان
میدان میں اترے جبکہ 2017نومبر تک 117نوجوان بھارتی فورسز کے خلاف برسر
پیکا ر ہوئے اور یہ کسی مالی لالچ میں نہیں آئے اور نہ یہ کسی غریب خاندان
کے عام نوجوان تھے بلکہ امیر گھرانوں کے چشم وچراغ تھے اور ان میں سے کئی
پی ایچ ڈی بھی تھے جو شہا دت سے سرفراز ہوئے۔ بھارت نے 2017میں آپریشن آل
آوٹ کی کامیابی کے بار بار قصیدے گائے لیکن دوسری طرف بھارت کی ہی خفیہ
ایجنسیوں نے اعتراف کیا 1990کی عسکری تحریک کے مقابلے میں آج کشمیر یوں کی
نئی نسل آزادی کی زیادہ تڑپ رکھتی ہے اور بھارت جو مقبوضہ میں کئی دہائیوں
سے یوم جمہوریہ کی تقریب بخشی سٹیڈیم میں کرتا تھا وہ آٹھ لاکھ فوج کے
باوجود سخت سکیورٹی حصار میں امر سنگھ کلب میں یہ تقریب کرنے پر مجبور ہوا
۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اس قدر سخت سکیورٹی انتظامات اور یوم جمہوریہ کی
تقریبات میں عوام کی عدم شمولیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ 70سال بعد بھی انڈیا کے
لئے کشمیر میں ترنگا لہرانا ناممکن ہے ۔مجھے یقین ہے کہ اب یہ ترنگا کبھی
نہیں لہراسکے گا بلکہ اب وہاں ہمیشہ کے لئے سبز ہلالی پرچم لہرائے گا ۔کشمیریوں
سے اظہار یکجہتی کے لئے امیر جماعۃ الدعوۃ حافظ محمد سعید نے 2فروری سے
گیارہ فروری تک عشر ہ یکجہتی منانے کا اعلان کیا ہے ۔انہوں نے 2017کو کشمیر
کی آزادی کے نام کیا تھا جس کی پاداش میں انہیں نظر بند کیا گیا ۔حافظ صاحب
نے 2018کو بھی کشمیر کی آزادی کے نام کیا ہے ۔ملی مسلم لیگ اور اس کے
کارکنان اس حوالے سے بھرپور مہم چلائیں گے اوراہل کشمیرکے ساتھ یکجہتی کا
اظہار کریں گے۔ |