حکمِ یہ آیا ہے کوئی نہ سر اٹھا کے چلے! کے مصداق
کسی کو ظلم و زیادتیوں کے خلاف بات کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دی جا سکتی
ہے۔جو پھول بھی بوئے گا۔اُسے کانٹوں میں بسر کرنا ہوگی!کیونکہ ’’بات پر واں
زبان کٹتی ہے وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی‘‘وہ چاہے کسی کوبے گناہ کو بھی چور
ڈاکو کہہ دیں ،چاہے سیسلین مافیہ اور ڈان کہہ دیں۔خبر دار اگر ان کے ذاتی
ریمارکس پر انگلی اٹھائی !تو جان لو تمہارا پورا ہاتھ تن سے جدا کرنے کے
بعد بھی تمہیں سوال کرنے کی اجاز ت نہیں ہونی چاہئے۔ آج کی معزز عدالتوں کا
روئیہ ماضی کی عدالتوں جیسا بز دلانا نہیں ہے ۔کہ آج ہر جنرل اور جج اس کی
دسترس سے باہرہے،اور سیاست دان بے چارے مارے جاتے رہے۔اﷲ تو معافی مانگنے
والوں کو معاف کر دیتا ہے۔مگر موجودہ نظام میں اب کسی کو ہر گز ہر معافی
نہیں ہے۔اب پاکستان میں حکمران وہ ہی بنے گا جسے جنرلزاور ججز چاہیں گے۔مس
ن لیگ، کیا تم نے اپنا حشر بلوچستان میں نہیں دیکھا کہ کس طرح جمہوری طریقے
سے تمہارے ہی لوگوں کے ہاتھوں تمہیں چت کرایا گیا؟اس ملک پر ہر حال میں
لاڈلوں کا اقتدار آوے ہی آوے۔ہے کسی میں ہمت تو روک کے دکھا دے۔ جس نے کچھ
نہیں چرایا ،اُسے بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔مگر لاڈلے چوری کرنے کے باوجود
بھی لاڈلے تو ہیں نا!جمہوریت جمہوریت کرنے والوتم ان کا پیچھا کیوں نہیں
چھوڑ دیتے؟ اور ان کے اقتدار کے راستے کی کیوں رکاوٹ بنتے جا رہے ہو؟
آج پاکستان میں وکیلوں کی اکثریت یہ چیخ رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان
میں جنرلز اور مارشل لاء ز کی بد نامی کے بعد اب عدالتی ایکٹیوازم (عدالتی
مارشل لاء) لگا ہوا محسوس ہوتا ہے۔غضب خدا کا ایک ماہ میں درجنوں سوو موٹو
لئے جا رہے ہیں۔موجودہ ایکٹیو ازم کا پہلا نشانہ ایڈوکیٹ سُپریم کورٹ جناب
نہال ہاشمی کو نمونے کے طور پر بنا دیا گیا ہے ان کے بعد دانیال عزیز اور
طلال چوہدری کو بھی توہینِ عدالت کے نوٹسسز جاری کئے جا چکے ہیں ۔پاکستان
کے لوگ سوال کرتے ہیں،کیا ن لیگ کے تمام ووٹرز کو بھی توہینِ عدالت کے
نوٹسسز دیئے جائیں گے؟کیونکہ جہاں بھی ان لوگوں سے بات کروتو سابق وزیرِ
اعظم محمد نواز شریف کا ہی بیانیہ سامنے آتا ہے۔سوشل میڈیا پر توایسے ایسے
ریمارکس دیکھنے کو ہزاروں کی تعداد میں مل جائیں گے لاڈلوں کے رکھوالے کس
کس کو توہینِ کے نوٹسسز بھیجیں گی؟
نہال ہاشمی نے جذبات میں آکر اپنے مخالفین اور خاص طور پر شائد چند پردے کے
پیچھے بیٹھے ڈنڈا برداروں کوراہِ راست پر لانے کے لئے زرداری کی طرح کہہ
دیا تھا کہ ’’ حساب لینے والو ہم تمہارا یوم حساب بنا دیں گے ۔آج حاضر سروس
ہو کل ریٹائر ہوجاؤ گے۔پاکستان کے عوام تمہارے لئے زمین تنگ کر دیں گے‘‘
توہنِ عدالت کے سلسلے میں عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ عام طور عدالتیں
توہیں عدالت پر معافی مانگنے پر معاف کر دیتی ہیں۔لیکن نہال ہا شمی کی
حمایت نہیں کر رہی ہوں ۔دنیا کے دوسرے ملکوں میں توہینِ عدالت کا قانون صرف
کتابوں میں ہوتا ہے۔عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ جج
کم از کم ایک وارننگ جاری کئے بغیر توہینِ عدالت کی کاروائی کریں۔سینیٹر․نہال
ہاشمی سے پہلے تحریکِ انصاف کے چیئر مین عمران نیازی کو سپُریم کورٹ کی
جانب سے توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا۔کیونکہ موصوف نے ججزکے سامنے
حاضری سے پہلے 26،29 اور 30جولائی2013کواپنی تلخ ترین گفتگو کے ذریعے اپنی
پریس کانفرنسزمیں عدلیہ کے لئے شرمناک ہونے کے الفاظ کاظہار کیا تھا۔جب
موصوف ججز کے سامنے پیش ہوئے تو اپنے بیان سے پھر کر کہا کہ ان کی تنقید کا
ہدف تو ریٹرننگ افسران تھے۔عمران کی اس تعویل کو تسلیم کر کے ان کی غیر
مشروط معافی ہوگئی۔1993سابق آرمی چیف ریٹائرڈ مرزااسلم بیگ نے ایک اخبار کو
دیئے گئے انٹرویو میں یہ اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے سُپریم کورٹ کے ججز کو
متنبہ کرنے کے لئے ایک قاصد بھیجا تھا ،کہ قومی اسمبلی کو بحال نہ کیا جائے۔
اس پرعدالت نے ریٹائرڈ جنرل اسلم بیگ کو توہیں عدالت کا مرتکب قرار تو
دیدیا مگراسی عدالت نے اپیل دائر ہونے کے بعد اپنا فیصلہ بھی واپس لے
لیا۔اور 9جنوری 1994کو جنرل اسلم بیگ کے خلاف تمام کار وائی روک دی گئی۔
ملک میں ہر جانب سے توہمنِ عدالت انگشت نمائی کی جا رہی ہے۔پاکستان بار
کونسل کے رکن یٰسین آزاد کہتے ہیں کہ توہین عدالت کا قانون ختم کر دیا نا
چاہئے۔اداروں کو اپنی عظمت کو بر قرار رکھنا چاہئے۔تاکہ لوگ ان کا احترام
کریں۔اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے بارے میں نا زیبا باتیں کی
گیئں ۔اس ضمن میں عدالتوں نے کوئی کار وائی نہیں کی ۔توہینِ عدالت کے حوالے
سے جسٹس مجدد مرزاکا 1990کا فیصلہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔جس میں کہا گیا
تھا کہ توہین اور معافی لازم و ملزو م ہیں اگر کوئی معافی مانگے تو فوراََ
معاف کر دے۔اٹارنی جنرل راجہ عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ توہینِ عدالت کا
مقصد لوگوں کو سزا دے کر جیل میں ڈالنا نہیں ہے۔ بلکہ عدالتی تشحص کو مجروح
ہونے سے بچانا ہے۔سُپریم کورٹ کے سابق صدر عابد حسن منٹو کہتے ہیں کہ
توہینِ عدالت کے قانون کا اطلاق صرف خاص قسم کے کیسوں میں ہوتا ہے۔جس وقت
عدالت کے وجود کو شدید اندشہ لا حق ہوجائے ۔تو،توہینِ عدالت کے قانون کا
استعمال دنشمندانہ طریقے پر ہونا چاہئے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ عدالت کو نہال
ہاشمی کو ایک سخت وارننگ دے کر چھوڑ دیا جانا تھا۔سُپریم کورٹ بار کے سابق
صدر علی احمد کرد کا کہنا ہے کہ میں سجھتا ہوں کہ ایسے فیصلوں سے ملک میں
پہلے سے جاری افراتفری میں اضافہ ہو جائے گا۔جس کے دور رس نتائج سامنے آئیں
گے․․․․انہیں معافی مانگنے کے لیئے کہا گیا لیکن عدالتی فیصلے میں انہیں
معافی نہیں دی گئی۔یہ فیصلہ بہت سخت تھا۔نہال ہاشمی کو سیاسی طور پر بہت
سخت سزا دی گئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو حکومت سے
باہر رکھنے کے لئے ایک ایک کر کے اس کے رہنماؤں کو توہینِ عدالت میں رگید
کر انتخابی عمل سے باہر رکھنے کا نیا کھیل شروع کر دیا گیا ہے کیونکہ لاڈلے
اشفاف انتخابی عمل کے ذریعے تو تختِ اسلامآباد پر بیٹھ نہیں سکتے ہیں۔
|