آج آئین و قا نون اور عدلیہ و ججز کا احترام کرنے
والے ایک عام پاکستا نی شہری کو افسوس ہوتا ہے جب مُلک میں تین بار
وزیراعظم بننے والے نوازشریف اپنے ایک نا اہلی کے بعدفیصلے کے بعد عدلیہ
اور جج صاحبان کے خلاف غلط زبان استعمال کرتے ہیں تو وہ مخمصے میں پڑ جا تا
ہے کہ ہمیشہ عدلیہ اور قانون سے فائدہ اُٹھا نے والاشخص اپنے خلاف ایک
ذراسے درست فیصلے پربھی عدالتوں اور جج صاحبان کے خلاف کیسے آستینیں چڑھا
کر محاذ آرا ئی پر اُترآیاہے؟؟ اور اپنی پوری طاقت سے اپنی درست نااہلی کا
داغ اور اپنی سُبکی مٹا نے کے لئے عوام کو اُکسارہاہے اور مُلک میں
افراتفریح اور انارگی پھیلا کر تباہی کا منظر دیکھنا چاہ رہاہے کیا اِس ضدی
شخص کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ جو منہ میں آئے عدالتوں اور معز ججز صاحبان کے
خلاف مغلظات بکے اور مُلک میں محاذ آرا ئی کی فضا ء قا ئم کرے ۔
بہر حال ،کھلم کھلا اور بار بار عدلیہ اور معزز جج صاحبان کی توہین
اورتضحیک کے مرتکب ہو نے والے سا بق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ
نوازشریف نے پچھلے دِنوں ایک بار پھر پشاور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے
کہاہے کہ’’ سب کی جنگ لڑرہاہوں،کشتیاں جلاکر میدان میں نکلے ہیں ، ہمیں
آئین و قا نون بدلنا ہوگا،ووٹ اتنے دیں نااہلی کا فیصلہ پارلیمنٹ میں عوامی
طاقت سے ختم ہوجا ئے‘‘اَب یہ تو واضح ہوگیاہے کہ نوازشریف اشرافیہ کواِس کے
سیاہ کرتوتوں کے باعث عدلیہ کے شکنجے سے بچا نے کے لئے آئین اور قانون میں
اپنی مرضی کی تبدیلی کے خواہشمند ہیں اور اَب اِن کا یہ عزمِ خاص و عام بن
گیاہے کہ یہ اگلے متوقعہ الیکشن 2018ء میں عوامی ووٹ سے ن لیگ کی حکومت بنا
نے کے بعد ہر صورت میں مُلک میں دُہرا قانونِ انصاف لاناچاہتے ہیں جس میں
اشرافیہ کے سیاہ کرتوتوں جیسے قومی خزا نہ لوٹنے اور ٹیکس چوری سے اشرافیہ
کی آف شور کمپنیاں بنانے کی چھوٹ ہوگی اِن کی طرح حکمرا ن دوران حکومت مُلک
کے اندر اور باہر چاہیں جتنی بھی نوکریاں کریں اور کسی بھی صورت میں چا ہیں
جیسے بھی مالی فوا ئد لیں مُلکی آئین و قا نون اور عدلیہ اور معزز جج
صاحبان اور نیب جیسے ادارے اِن کے گریبانوں میں ہاتھ نہیں ڈال سکے گیں۔
جبکہ اشرافیہ کے علاوہ مُلک کے غریب اور مفلوک الحال22کروڑ عوام کے لئے
علیحدہ قانون ہوگا جس کے تحت کو ئی بھی غریب آدمی کسی بھی قسم کی ذراسی بھی
قانون شکنی کے شکنجے میں فوری جکڑاجا ئے گا اور اِسے آئین اور قا نون کی
روسے کڑی سے کڑی سزادی جا سکے گی آج عدلیہ سے نااہل قراردیئے گئے سابق
وزیراعظم اور ن لیگ کے موجودہ سربراہ میاں محمد نوازشریف کا یہ عزمِ خاص ہے
جس کی بنیاد پر یہ مُلک کا اگلا الیکشن جتنے کے لئے باہر نکلے ہیں اَب عوام
کو یہ سوچنا ہے کہ یہ اشرافیہ کے سیاہ کرتوتوں پر اِنہیں بجانے کے لئے
آئندہ اپنی مرضی کی قا نون سازی کرنے کے لئے ن لیگ کے سربراہ نوازشریف کو
ووٹ دیں گے یا عوام کے خلاف سخت ترین قوا نین وضع کرنے اور عوامی مفادات کو
گڑھے میں ڈالنے اور بالائے طاق رکھنے والے نوازشریف اور ن لیگ والوں کو
اپنے مفادات اور اپنی نسلوں کا سودا کرنے کے لئے ووٹ دے کر کامیا ب کرکے
ایوانوں میں پہنچا ئیں گے نوازشریف کو تو جیسے پہلے پتہ ہی نہیں تھا کہ
مُلک میں عدلیہ اور قا نون کیسے چلے رہے ہیں مگر اَب؟۔
مثل مشہورہے کہ ـ’’اُونٹ جب تک پہاڑ کے نیچے نہ آئے اپنے سے اُونچاکسی کو
نہیں جانتا‘‘آج جب اُونٹ پہاڑ کے نیچے آیا ہے تو تب اِسے پتہ چلا ہے کہ اِس
کی حقیقت اور اہمیت کیا ہے؟ ورنہ تو اِسے کچھ پتہ ہی نہیں تھا کہ قا نون
کیا ہے؟ اور اِنصاف کس چڑیاکا نام ہے؟ سب بھلا بھلا اور ہراہرا نظرآرہاتھا
اِسی لئے تو دانا کہتے ہیں کہ سمندر کے کنارے بیٹھ کر سمندر کی گہرا ئی کا
پتہ نہیں چلتا ہے گہرا ئی کو ناپنے کے لئے سمندر میں اُترنا پڑتا ہے۔
چلیں ،اَب لگ پتہ گیاہے کہ قا نون اور اِنصاف بھی کس شے کا نام ہے مگر اِس
کا فائدہ ؟کہ پتہ چلنے کے بعد بھی اُونٹ بضد ہے کہ میں ابھی پہاڑ سے اُونچا
ہوں اور وزنی ہوں،تو اَب اِس کی یہ سوچ اِس کی پاگل پن کا اشارہ دیتی ہے،
اُونٹ نے پہلے چاہئے جتنی بھی اُوچھل گود کیں ہوں مگر اَب اگر اِس نے کسی
بلبلے جیسی خوش فہمی میں مبتلارہ کر پھر اُوچھل کود کیں تو یہ سمجھیں کہ اب
کی بار یہ کیل پر اوچھلیں گے اوراَب تو کیل اِن کے پاوں میں چبھ کر ہی رہے
گی۔نوازشریف عدلیہ اور معزز ججز صاحبان سے پنگلے لینا چھوڑ یں اور اپنی خیر
منا ئیں آج جس عوام نے اِن مینڈیٹ دے کر ایوان تک پہنچایا اور یہ اپنے
کرتوتوں کی وجہ سے نااہل قرار پا ئے ہیں تو اِس میں عوام کے مینڈیٹ کی
توہین کہاں ہو ئی ہے؟ بلکہ اِنہوں نے عوام سے اپنی ڈبل نوکری اور ڈبل
تنخواہ کو چھپاکر جھوٹ بول کر اپنے دونمبر کرتوت چھپا کر عوام سے دھوکہ کیا
ہے وہ تو عدلیہ کا بھلا ہو کہ عدلیہ نے اِن کے دونمبر کام کو عیاں کیاہے
اور اِنہیں قا نون کے مطابق نااہل قرار دے کر قا نون کی پاسداری کی ہے ایک
عام سرکاری ملازم پاکستانی شہری نجی کمپنی میں ڈبل نوکری کرے اوردوتنخواہیں
لے تو اِس کی قا نون کی روسے پکڑ ہوتی ہے اور بیچارہ سرکاری نوکری سے ہاتھ
دھو بیٹھتا ہے مگر نوازشریف صاحب آپ مُلک کے تین بار وزیراعظم رہ کر بھی یہ
بات نہیں سمجھ سکے اور اپنے بیٹے کی کمپنی میں نوکری بھی کرتے رہے مگر
تنخواہ نہ لینے کا فائدہ بھی اُٹھاتے رہے۔
اَب یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ آپ کہیں نوکری بھی کریں اور تنخواہ بھی نہ
لیں؟ ایسا تو کہیں نہیں ہوتا ہے اور نہ کبھی ہوا ہے آپ کا بیٹا آپ کو
تنخواہ کے علاوہ اور بھی بہت سے مالی فوائد دیتارہاہے جس کا آپ نے کبھی بھی
کہیں بھی تذکرہ نہیں کیا ہے ۔
سابق وزیراعظم نوازشریف صاحب،28جولائی 2017ء کے بعد سے تو آپ کے لب پر ایک
یہی جملہ ہے کہ ’’ مجھے کیو ں نکالا؟ مجھے کیو ں نکالا؟ آج یہ جملہ نیشنل
اور انٹرنیشنل سطح پر آپ کی پہنچانِ خاص بن گیاہے اور ہاں آپ یہ بھی تو
کہتے ہیں کہ عوام نے مینڈیٹ دیامگر پانچ افراد نے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے
کی وجہ سے مجھے نااہل قرار دے دیایہ عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے اگر ایسا ہی
ہے توآپ کو پھر یہ بھی تسلیم کرناپڑے گااور ماننا پڑے گا کہ ایوان نے جس
آئین سازی اور قا نون سازی سے عدلیہ اور قانون کو مضبوط بنایاہے اور جس طرح
آپ ایوان ِ نمائندگان نے قا نون سازی او رآئین سازی کرکے عدلیہ کو اپنا
اعتماد اورمینڈیٹ دیاہے یکدم ایسے ہی جیسے عوام نے آ پ کو ووٹ کی صورت میں
مینڈیٹ دیا ہے آج عدلیہ نے بھی آپ پارلیمنٹیرین کے اِسی مینڈیٹ اور اعتماد
کا خیال رکھاہے آج اگر یہی عدلیہ قا نون کی روسے اپنا کام کررہی ہے اور آپ
جیسے افراداور کرپٹ عناصر کے خلاف آئین اور قا نون کے مطا بق اپنا کام کرکے
مُلک کو کرپٹ عناصر اور لٹیروں سے پاک کرنے کے لئے اپنا فریضہ اداکررہی ہے
تو آپ ایسے عوامی مینڈیٹ کی توہین قرار دے کر آگ بگولہ ہو رہے ہیں اور عوام
کو اداروں سے اپنا بدلہ لینے کے لئے اُکسارہے ہیں تو سُنیں اَب ایسے نہیں
چلے گا اورمُلک میں اشرافیہ اور عوام کا علیحدہ قانونِ انصاف نہیں چلے گا۔
نوازشریف صاحب! آپ یہ کیو ں بھول رہے ہیں کہ آپ نے ہی عوام کو دھوکہ دے کر
عوام سے ووٹ لیا ہے دراصل آپ ہی ہیں جو ایک تیرسے دوشکار کرناچاہتے ہیں ایک
طرف اپنے دیدہ دانستہ کردہ گناہ پر نااہلی ہونے پر اپنی سُبکی کو مٹا نے کے
لئے عوام کو استعمال کرناچاہ رہے ہیں تو دوسرے جانب عدلیہ کو ہی تنقیدوں کا
نشا نہ بنا کر اپنی نااہلی کے فیصلے کو عوامی دباو سے تبدیل کراکر اپنا
الوبھی سیدھا کرناچاہ رہے ہیں ایسے کام نہیں چلے گا۔ |