چند دن قبل ہم پاکستا نیوں کو دنیا کے بڑے اسلامی ملک کے
سر براہ کی مہما ن نو ازی کا اعزا زحا صل ہو ا یہ ہما رے لئے بہت خو شی کا
موقع تھا کہ اس قدر اندورنی اور بیرونی بحرا نواں سے گھرے ملک میں ایک معزز
لیڈر نے ہمیں میز با نی کا مو قع دیا انڈ ونیشیاجنوب مشرقی ایشیا میں وا قع
ایک ملک ہے جو اس وقت تیزی سے ترقی کے منا زل طے کر تا ہوا آگے بڑھ رہا ہے
ہمیں اس سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے خا ص کر صدر جوکوویدودو جو ایک سادہ
طرز زندگی گزارنے کے عا دی ہیں جوکوویدودو پہلے انڈو نیشیائی صدر ہیں جو
کسی اعلیٰ سیاسی یا فو جی خا ندان سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ انھوں نے اپنا
بچپن نہا یت غریب گھرانے میں گزارا جوکوویدودو کی رہا ئش کچی بستیوں وا لے
ایک شہر سو لو میں تھی صدر بننے سے قبل وہ فر نیچر کا کا روبا ر کرتے تھے
اپنی سیا ست کا آغا ز انھوں نے سولو کے میئر کے انتخاب لڑنے سے کیا ان کی
ایما نداری اور محنت نے عوام کے دل جیت لیئے اس کے بعد اپنی قابلیت کی بناء
پر جکا رتہ کے گو رنربنے انھوں نے عوامی سہولتوں کی جانب خصوصی تو جہ دی
اسپتال ، ٹرانسپورٹ روزگارکے ذرائع بڑھا نے میں عوام کی بھر پور معا ونت کی
اور پھر صدر رات کے الیکشن میں حصہ لیا جو انڈو نیشیا کی تا ریخ کا سب سے
کا نٹے دار مقا بلہ تھا بآلا خر 20 اکتوبر2014ء میں جوکوویدودو نے ملک کے
سا تویں صدر کا حلف اٹھا یا اتنے بڑی آبادی وا لے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنا
یقینا کسی چیلنج سے کم نہیں جس سے صدر جوکووی بخوبی نبر د آز ما ہیں صدر
بننے کے بعد بھی ان کی لا ئف اسٹائل میں کو ئی تبدیلی نہیں ہو ئی وہ اب بھی
اسی طر ح سا دہ طرز اپنا ئے ہو ئے ہیں اپنے چھو ٹے چھوٹے کام اکثر خود بھی
کر لیے ہیں بیرون ملک سفر کے لئے وہ اور ان کے ساتھی بھی اکانومی کلا س میں
سفر کر تے ہیں اپنے پرو ٹوکول کے حوالے سے بھی لمبے چوڑے خر چے سے بچنے کی
کو شش کرتے ہیں کہ یہ سب اخراجات عوام کے کا م آسکیں صدر جوکوویدودو کے تین
بچے ہیں جن میں بڑا بیٹا اٹھائیس سالہ جبران ویڈنگ پلا ننگ اور کیٹرنگ کا
ایک عام سا کا روبا ر کر تا ہے مگر جو کو وی کو اپنے بیٹے کی محنت اور طرز
زندگی پسند ہے کہ وہ ایک با عزت روزگا رکے ذریعے معاش حا صل کر تا ہے
جوکووی کی یہی خوبیاں ہیں جو وہ عوام میں مقبو لیت اور پسندیدگی کی نظر سے
دیکھے جا تے ہیں۔
انڈو نیشیا صدیوں کا سفر طے کر کے اب دنیا سے قدم ملا کر چلنے کی کو شش میں
مصروف ہے اس کے ماضی پر نظر دوڑایں تومعلوم ہو تا ہے کہ ماہرین آثا ر قدیمہ
نے انڈو نیشیا میں45ہزار سا ل قبل کی زندگی کے قدیم ترین آثا ر دریا فت کئے
ہیں جب کہ ایک منظم ز ند گی کی شروعات دو ہز ار قبل مسیح میں شروع ہوئی با
قا عدہ آس پا س کے ملکوں سے ہندوؤں اور بدھسٹ قوموں نے اپنے قدم یہاں جمائے
اور ایک نئی تہذیب کا آغاز کیا مگرآپس کی نا چاقیوں نے کسی حکمرانی کو کبھی
پنپنے نہ دیا پھر نویں صدی سے قبل ہی اسلام تاجروں کے ذریعے انڈ ونیشیا تک
پہنچ چکا تھا جہاں اسلام کی تبلیغ نے اسے سولہویں صدی تک پورے انڈ ونیشیا
کا سب سے بڑا مذہب کا در جہ دے دیا ا س سے آگے بر طا نیہ اور نیدر لینڈ نے
اٹھا رویں صدی میں اپنی کالونیاں قائم کی انڈو نیشیا یورپ کے لئے ایک زر
خیز ملک کی حیثیت رکھتا تھا ان کی کو شش تھی کہ اس پر تسلط بر قرار رہے
لیکن جنگ عظیم دو ئم کے بعد ان قا بض ممالک کو انڈ ونیشیا کی آزادی کی جدو
جہد کو تسلیم کر نا پڑا اور 7اگست 1950ء کو اسے آزا دی حا صل ہو ئی انڈو
نیشیا اس وقت دنیا کے سب سے بڑی مسلمان آبادی والا ملک ہے جس کی معیشت تیزی
سے ترقی کی جانب بڑھ رہی ہے قدرت نے بھی اسے اپنی تما م نعمتیں فیا ضی سے
عطا کی ہیں خوبصورت سر سبز ملک جہاں آتش فشا ں پہاڑ بھی ہیں تو دنیا کے سب
سے زیادہ جزیرے رکھنا وا لا ملک بھی کہلا تا ہے ان جزیروں کی تعداد 17500
ہے دنیا کی سب سے بڑی سو نے کا کان اسی ملک میں ہے بدھ مذھب کا سب سے بڑا
مند ربھی یہاں موجود ہے دنیا کی پچا س فی صد پا م آئل انڈو نیشیا سے ملتا
ہے تو دنیا کی45 فی صد مچھلیاں اسی کے پا نیوں میں رہنا پسند کر تی ہیں آتش
فشاں پہاڑ بھی سب سے زیادہ ہیں اور زلزے بھی بہت آتے ہیں ان قدرتی آفات کی
وجہ سے سب سے زیا دہ ہلا کتیں 2004 ء میں سونامی کی صورت میں ہو ئی جس میں
23000 لوگ ہلاک ہو ئے یقینااس ملٹی کلچرل ملک میں بھا نت بھانت کی بو لیوں
اوررسم رواج والے لوگ ہیں صدر بارک اوباما نے اپنے بچپن کے محض چند سال
وہاں گزارے مگر اس کے انمنٹ نقوش وہ کبھی نہ بھول پا ئے یہی وجہ ہے اپنے
پہلے صدراتی ٹرم میں وہ انڈونیشیا جاپہنچے اور اپنے ذہن میں بسے ان خوبصورت
یا دوں کو وہاں کے لوگوں کے ساتھ شیئرکیا تھا ۔
انڈو نیشیا میں مو جودہ جمہوریت کا قیام کسی آزادی حا صل کر نے کی جدوجہد
سے کم نہیں تھا چا لیس سالہ آمریت کا وہ دور جب صدر سوہارتو بر سر اقتدار
تھے جس کی شروعات انڈو نیشی عوام کے دلوں میں30ستمبر1965ء کو ہو نے والا سا
نحہ کبھی نہ بھولے گا جب بیسوی صدی کا سب سے بڑا قتل عام محض حصول اقتدار
کے لئے کیا گیالا کھوں انسانوں ں کو اٹھارہ ماہ میں موت کے گھا ٹ اتارا گیا
اس بغاوت میں اپنے ہی لوگوں پر تشدد کیا گیا اوران وا قعات کو زبان زد عام
لا نا بھی جرم تھا مگر اب ہزاروں سال پرانی تہذیب وثقا فت رکھنے والی قوم
میں سیاسی شعور بیدار ہو چکا ہے 2014.ء کے انتخاب میں منتخب ہونے والے صدر
جوکوویدودو ایک قابل سیاست داں ہیں جو اپنی عوام کیلئے مخلص ہیں اور ساتھ
مسلم امہ کے لئے بھی درد مند دل رکھتے ہیں ایک برادر ملک ہو نے کی حیثیت سے
پاکستان کا دورہ ان ہی کو ششوں کی ایک کڑی ہے جس کا اظہار ان کی اس تقریر
سے لگا یا جا سکتا ہے جو انھوں نے پارلیمنٹ میں کی پوری دنیا میں مسلمانوں
پر ہو نے والے مظالم اور پھر اس الزام پر کہ مسلم دہشت گرد ہیں افسوس کا
اظہار کیا صدر جوکوویدودو نے مسلم ممالک کو متحد ہو کر دہشت گردی ،بدامنی
اور غربت کے خلاف متحد ہونے کی بات کی صدر جوکوویدودو کی سادہ طرز زندگی،
عوام کی فلاح کے لئے پر خلوص کو ششیں اور عزم ہمارے حکمرانوں کے لئے ایک
رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے یقینا اس مہما ن سے بہت کچھ سیکھا جاسکتاہے ۔
|