امریکی قیادت یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب
ریاستوں نے ایران کی طرف سے کسی حملے کے امکان کو اپنے حواس پر اس قدر سوار
کرلیا ہے کہ اب انہوں نے عرب اسرائیل تنازع کو بھی وقتی طور پر ایک طرف رکھ
دیا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو اپنی طاقت میں اضافے کی اس قدر فکر
لاحق ہے کہ وہ فی الحال عرب اسرائیل تنازع میں ثالث یا مصالحت کار کا کردار
ادا کرنے میں کچھ زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دے رہے۔
اسرائیل اور عربوں کے درمیان مخاصمت کی تعبیر و تشریح کرتی ہوئی۶روزہ جنگ
کو۵۰سال گزرچکے ہیں۔ جنگ ختم ہوئی تو اسرائیل غرب اردن، غزہ کی پٹی، بیت
المقدس، گولان کی پہاڑیوں اورجزیرہ نماسینائی پرقابض ہوچکاتھا۔ تب دنیا نے
اس عسکری نتیجے کوعارضی سمجھا تھا۔ فلسطینی ریاست سے محروم تھے۔ اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنگ کے ختم ہونے کے پانچ ماہ بعدقرارداد
نمبر۲۴۲منظورکی،جس کے تحت اسرائیلیوں اورفلسطینیوں کے درمیان معاملات کو
مفاہمت کے ذریعے طے کراناتھا۔آج پانچ عشرے گزر جانے پر بھی معاملات وہیں کے
وہیں ہیں۔
یہ ہے وہ تناظر جس کے تحت ٹرمپ نے حال ہی میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل
کا دارالحکومت تسلیم کرنے کااعلان کرکے امریکی سفارت خانہ بھی وہاں منتقل
کرنے کااعلان کیا۔ ٹرمپ کایہ بھی کہناہے کہ امریکااس قضیے میں کوئی حتمی
پوزیشن اختیارنہیں کررہا،اگرفریقین متفق ہوں تودوریاستوں کانظریہ اب بھی
قابل عمل اورقابل قبول ہے۔جوکچھ ٹرمپ نے کہااس پریقین کرنے والوں کی
تعدادخاصی کم ہے۔ وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ مقبوضہ عرب علاقوں کے حوالے سے
امریکی موقف میں کوئی جوہری تبدیلی رونمانہیں ہوئی ہے مگریہ سب محض نمائشی
نوعیت کی باتیں ہیں۔ اسرائیل نے امریکی فیصلے پرخاصی مسرت کااظہارکیاہے
جبکہ عرب دنیامیں واضح اکثریت اس فیصلے پرشدیدبرہم ہے۔
ٹرمپ کادعویٰ ہے کہ انہوں نے حقیقت پسندی کامظاہرہ کیاہے اوریہ کہ ان کے
پیش رواب تک حقیقت کاادراک کرنے میں ناکام رہے تھے اس لیے ان کی پالیسیاں
بھی ناکامی سے دوچار تھیں۔ پانچ عشروں کے دوران امریکی پالیسیاں ناکام رہی
ہیں مگراس کیلئے صرف امریکی پالیسی سازوں کوموردِالزام ٹھہرانا کسی بھی
طورمناسب نہیں۔ بات یہ ہے کہ اسرائیلی اورعرب بیشتر معاملات میں اتفاقِ
رائے پیداکرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے درمیان پائے جانےوالے شدیداختلافات
معاملات کودرستی کی راہ پرگامزن ہونے سے روکتے رہے ہیں۔
بعض امریکیوں کاخیال ہے کہ ٹرمپ کااعلان دراصل امریکی سیاست کی ضرورت ہے۔
امریکا اب تک اسرائیل کومقبوضہ عرب علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری سے
روکنے میں ناکام رہاہے۔ دوسری طرف وہ فلسطینیوں کواب تک کوئی بھی ڈھنگ کی
پیش کش کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوا۔مقبوضہ بیت المقدس کے حوالے سے امریکا
کے پاس فلسطینیوں کودینے کیلئےکچھ بھی نہیں۔ ٹرمپ کے اعلان کے بعدتشدد کے
چندواقعات بھی رونماہوئے ہیں تاہم یہ بات اب کھل کردکھائی دے رہی ہے کہ
ٹرمپ کااعلان کسی بھی بحران کی پیدائش سے کہیں بڑھ کرضائع ہوجانے والا موقع
ہے۔
ٹرمپ کے اعلان کونہ صرف ناقابل قبول بلکہ انتہائی نقصان دہ بنانے والی
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اپناپہلا سال اسرائیل عرب تنازع پر
غیرمعمولی حدتک توجہ دیتے ہوئے گزاراہے۔بہت سوں کوتوقع تھی کہ صدرٹرمپ اس
قضیے کوختم کرنے کے حوالے سے ڈرامائی اقدامات کریں گے مگرایساکچھ نہ ہوا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے عرب اسرائیل تنازع کوحل کرنے کیلئےجومنصوبہ تیارکیاہے،اس
کی کامیابی کاامکان مزید محدود ہوگیا ہے۔
ایسالگتا ہے کہ ٹرمپ نے سعودی عرب اوردیگرمضبوط عرب ریاستوں کو امن کے قیام
کے حوالے سے وسیع ترکرداردینے کی تیاری کی ہے۔ اس وقت عرب دنیاکوفلسطین کے
تنازع سے زیادہ ایران کی فکرلاحق ہے۔ سعودی عرب،متحدہ عرب امارات
اوردیگرعرب ریاستیں اسرائیل سے اپنے معاملات درست کرنے پر ایران کے بارے
میں زیادہ متوجہ رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ ایران کے حوالے سے عرب ریاستوں
اور اسرائیل کے تصورات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اسی نکتے کا صدر ٹرمپ
فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
فلسطینیوں اوراسرائیلیوں کے تنازع کاکوئی قابل قبول حل تلاش کرنے میں عرب
ریاستیں اہم کردارادا کرسکتی
ہیں۔ سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اوردیگر عرب ریاستیں اپنے مالیاتی وسائل
کی بنیادپرامریکاکومجبورکر سکتی ہیں کہ وہ اسرائیل کو امن معاہدہ اقوام
متحدہ کی شرائط کے مطابق کرنے کیلئے اپنابھرپور کرداراداکرے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل جس منصوبے کوقبول یامنظورکرنے کیلئےتیارہو گاوہ
فلسطینیوں کوان کے مطالبے سے کہیں کم دے گا۔ایسے میں فلسطینی قائدین کسی
امن معاہدے پردستخط کرنے کیلئے کیسے تیارہوسکتے ہیں؟یہی وجہ ہے کہ فلسطین
میں حماس اوردیگرگروپ اپنی جائزجدوجہدکوترک کرنے کی بجائے اپنی جانیں قربان
کررہے ہیں اورخطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کبھی بھی کسی بڑے حادثے کاسبب بن
سکتی ہے۔
اب توسعودی حکومت بھی فلسطینیوں کیلئے کوئی ایسا حل تلاش کرنے میں زیادہ
دلچسپی نہیں لے رہی جس میں فلسطینیوں کے جائزحقوق کاتحفظ ہو۔اس وقت سعودی
قیادت اندرونی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہے اور اسرائیل فلسطین قضیے پران
کی توجہ کم ہےاورپھرایران کامسئلہ بھی سعودیوں کی بھرپورتوجہ اپنی طرف
کھینچ رہاہے۔
فلسطین کے مسئلے کونظراندازکرنااس مسئلے کاحل نہیں۔ سعودی قیادت اندرون ملک
کرپشن ختم کرنے کے نام پرجوکچھ کررہی ہے اس کی اصلیت کوسمجھنے والوں کی کمی
نہیں۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ سعودی ولی عہدکواپنی طاقت میں زیادہ سے
زیادہ اضافے کی فکرلاحق ہے اورپھرایران مخالف اقدامات،یمن میں انتہائی
ناپسندیدہ وناکام جنگ اورلبنان میں پریشان کن سفارت کاری سے الگ نہیں
کیاجاسکتا۔ ملک میں اصلاحات کے نام پرجواقدامات کیے جارہے ہیں وہ سوچنے کی
حدتک توبہت اچھے ہیں مگرعمل کی دنیامیں ان سے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوتے
دکھائی نہیں دیتے۔اس کے نتیجے میں انتقام کاجذبہ اورخرابیاں بڑھیں گی۔
ٹرمپ اوران کے دامادجیرڈکوشنرنے،جومشرق وسطیٰ پالیسی کے انچارج ہیں،
اسرائیل اورفلسطین کے تنازع کے حوالے سے کچھ سوچاہے توانہیں یہ یاد رکھنا
چاہیے کہ سعودی عرب ان کی توقع سے کہیں نچلی سطح کاسفارتی پارٹنرثابت
ہوگا۔اندرونی طورپرخودکوزیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کے خواہش مند ولی عہد
کاایک ایسے امریکی صدرکے ساتھ کھڑاہوناممکن نہیں جواسرائیل کی طرف
غیرمعمولی حدتک جھکاہواہے اورفلسطینیوں کوبالکل معمولی سطح کی رعایتیں دینے
کیلئےبھی تیارنہیں۔
ٹرمپ کادعویٰ ہے کہ بیت المقدس کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کافیصلہ
بہت پہلے ہوجاناچاہیے تھا۔اس فیصلے سے امن عمل کوآگے بڑھانے اورکوئی حتمی
تصفیہ تلاش کرنے میں خاطرخواہ مددملے گی۔حقیقت یہ ہے کہ ان کا فیصلہ اس کے
منفی اثرات پیداکرتادکھائی دے رہاہے۔ |