اپنی بات شروع کرنے سے پہلے میں برصغیر کے معروف شاعر
سیّد اکبر حسین رضوی جنھیں ہم اکبر الٰہ آبادی (جو وکالت کے پیشہ سے منسلک
رہے اور بعدازاں سیشن جج بھی مقرر ہوئے تھے)کے نام سے جانتے ہیں کا ایک
شعرقارئین کی نظر کرنا چاہتاہوں ، اکبرؔ کہتے ہیں کہ
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ وکالت ہے کیا؟ وکالت کے لغوی معنی’’ اپنا کام
دوسرے کو سپرد کرنا‘‘ ہیں، فقہ میں وکالت سے مراد ایک ایسا معاملہ ہے،جس
میں ایک ایسا کام جسے آدمی خود کرسکتا ہے، لیکن وہ دوسرے کے سپر د کردیتاہے۔
اس معاملے کووکالت کہتے ہیں،جیسے: خرید و فروخت، کرایہ داری،وصولی،ادائیگی
یہ سب کام جس طرح خود کیے جاسکتے ہیں، اسی طرح دوسرے کو وکیل بنا کر بھی
کروائے جاسکتے ہیں۔ روز مرہ کاروبار میں ایسی صورت حال پیش آجاتی ہے جہاں
کسی معاملے کو کرنے کے لیے ہماری اپنی مہارت اور صلاحیت نہیں ہوتی، دوسرا
شخص اس معاملے کاتجربہ رکھتا ہے، بہتر انداز میں کام کرسکتا ہے، ایسی
صورتحال میں خود کام کرنے سے بہتر ہے کہ اس کام کے ماہر سے وہ کام کروا لیا
جائے۔دوسری جانب وہ ایسا کام بھی نہیں کہ اس کے لیے باقاعدہ ملازم رکھ لیا
جائے،جائیداد کی خرید وفروخت،شیئرز کی خریدوفروخت،امپورٹ،ایکسپورٹ میں یہ
کام عام ہے، عموماً جائیداد کی خریداری سے واسطہ کم پڑتا ہے جبکہ سودا کافی
بڑا ہوتا ہے، ایسی صورتحال میں اس کام کے ماہر افراد کی خدمات ہی لینامناسب
راستہ ہوتا ہے۔ شریعت کی رو سے اصحابِ کہف کے واقعے میں وکالت کے معاملے کا
ثبوت ملتا ہے۔جب یہ لوگ نیند سے جاگے تو قرآن بتاتا ہے کہ ’انہوں نے اپنے
میں سے ایک کو کھانا خریدنے کا وکیل بنایا‘(الکہف، آیت 19) ۔ اسی طرح
احادیث میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی مختلف مواقع پر صحابہ کرام سے کام
کروائے۔معلوم ہوا کہ شریعت میں وکالت کامعاملہ موجود اور ثابت ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اﷲ کہتے ہیں کہ ’ وکالت یہ ہے کہ انسان کسی کی طرف سے
نیابت کرتے ہوئے اس کے جھگڑے کی پیروی کرے، اور اس کی دو قسمیں ہیں، ایک
قسم وہ ہے جس میں انسان حق بات کے ذریعے حق کا تحفظ کرتا ہے، تو ایسی وکالت
کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ آپ نے
کسی شخص کو اجرت کے عوض میں وکالت اور نیابت پر رکھ لیا ہے اور اجرت کے عوض
نیابت میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ دوسری قسم یہ ہے کہ وکیل اپنی بات منوانے
کے لیے سچے جھوٹے تمام طریقے اختیار کرے تو اس قسم کی وکالت کرنا جائز نہیں
ہے کیونکہ ایسی صورت میں حق اور باطل دونوں قسم کی باتوں کو تحفظ فراہم کرے
گا اور یہ حرام ہے۔ جبکہ مسلمان پر واجب یہ ہے کہ جب انسان کسی کو برحق
مقدمات میں ملوث پائے تو اس کی وکالت نہ کرے، کیونکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم
کا فرمان ہے:’تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو وہ اپنے ہاتھ سے روکے، اگر
اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ
ہو تو اپنے دل سے (برا جانے)اور یہ کمزور ترین ایمان ہے‘ ۔ (فتاویٰ نور عل
الدرب11 / 609 - 610)
پاکستان میں 3 نومبر 2007ء کو اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے
ایمرجنسی نافذ کرنے کے بعد شروع ہونے والی وکلاء تحریک اور اُس کی کامیابی
کے بعد وکلاء ’’شتر بے مہار‘‘ کی طرح نظر آتے ہیں، آئے دن دیکھنے اور سننے
میں آتا ہے کہ وکلاء نے فلاں عدالت کو تالے لگادئیے، وکلاء نے فلاں جگہ توڑ
پھوڑ کی، وکلاء نے فلاں جج کو کمرہ عدالت میں ہی بند کردیا، وکلاء نے فلاں
فلاں معاملے پر ہڑتال کردی(اگر تفصیل لکھیں توایک کتاب مرتب ہوجائے)۔ کیا
یہ اس مقدس پیشہ سے وابستہ افراد کا اپنی اہم ترین ذمہ داریاں نبھانے کا
طریقہ اور رویہ درست ہے یہ ایک بہت ہی غور طلب بات ہے جو فکر انگیز صورتِ
حال اختیار کرچکی ہے۔
گذشتہ دنوں گوجرانوالہ میں گاڑی کو راستہ نہ دینے پر ایک وکیل کا
ریسکیو1122 کے اہلکاروں سے بیچ سڑک پر جھگڑا ہوگیااور وکیل نے ایک ریسکیو
اہلکار کو تھپڑ مار دیااور بات ہاتھ پائی تک جاپہنچی،موقع پر موجود لوگوں
نے ایمرجنسی حالات میں شہریوں کو امداد فراہم کرنے والے ریسکیو اہلکاروں کا
ساتھ دیا اور ’’بدمعاشی‘‘ دکھانے والے اُس وکیل کو سڑک پر ہی دھرلیا اور
اُس کی خوب درگت بنانے کے بعد اُسے حوالہ پولیس کردیا ،تاہم حسب روایت اپنی
’’بدمعاشی‘‘ پر ڈٹ جانے والے وکلاء نے تھانے پر دھاوا بول دیا اور پولیس کی
موجودگی میں تھانے میں توڑ پھوڑ کرنے کیساتھ ساتھ ریسکیو اہلکاروں کو تشدد
کا نشانہ بنایا جبکہ تھانے کو یرغمال بناتے ہوئے اپنی مرضی کی دفعات کے تحت
اُن کے خلاف مقدمہ بھی درج کروایا۔ اگلے روز مزید وکلاء نے اپنی ’’طاقت‘‘
ثابت کرنے کیلئے ایک بار پھر تھانے پر حملے اور سیشن کورٹ میں پیشی کے موقع
پر ریسکیو اہلکاروں کو دوبارہ تشدد کا نشانہ بنانے کا پروگرام بنایا لیکن
اطلاع ملنے پر ’’بے بس‘‘ پولیس نے تھانے کومزید ’’نقصان‘‘سے بچانے کیلئے
ریسکیو اہلکاروں کے فرار کی افواہ پھیلادی اور ریسکیو اہلکاروں کو رات کے
اندھیرے میں اینٹی کرپشن کے دفتر میں ایک سول جج کے سامنے پیش کیا تاہم
وکلاء کے ’’مخبروں‘‘ نے اُنھیں اطلاع کردی اور اُنھوں نے وہاں دھاوا بول
دیا، پولیس نے بڑی مشکل سے خود مار کھاتے ہوئے ریسکیو اہلکاروں کو ان
’’حملہ آوروں‘‘ سے بچایا اور تھانے منتقل کردیا۔حوالات میں بند ریسکیو
اہلکاروں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں وزیراعلیٰ، چیف جسٹس آف پاکستان اور
آرمی چیف سے اپنے تحفظ کی اپیل کی ہے ، اُنھیں ڈر ہے کہ وکلاء اُنھیں جان
سے مار دیں گے ۔علاوہ ازیں ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے ضلع بھر میں اپنی
سروس بند کردی اور شہر کے داخلی راستے پر دھرنا دیا اور اپنی گاڑیاں کھڑی
کرکے سڑک بلاک کرتے ہوئے احتجاج کیا، اپنے اہلکاروں کی فوری رہائی اور درج
مقدمہ کے اخراج بھی اُن کا مطالبہ تھا۔
زیر نظر واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا وکلاء برادری اتنی طاقت ور
ہو چکی ہے کہ ایک ایسا ادارہ جو ہر صورتِ حال میں لوگوں کی مدد کرنے کیلئے
ہمہ وقت تیار رہتا ہے اور اور اُس کے اہلکار کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں
موسم اور وقت کا خیال کیے بغیر فوراً امداد کیلئے پہنچ جاتے ہیں، کیا اُس
کے اہلکاروں کو انصاف کیلئے دہائی دینا پڑے گی؟ اُنھیں دھرنا دینا پڑے گا،
روڈ بلاک کرنا پڑے گیا؟ کیا ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں جو ’’بدمعاشیا‘‘
کے خلاف کارروائی کی جاسکے ؟ میری صدرِ پاکستان ، چیف جسٹس آف پاکستان،
وزیر قانون و دیگر اعلیٰ حکام سے گزارش ہے کہ خدارا کوئی ایسا قانون لایا
جائے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی ’’وکلا گردی‘‘ پر بند باندھا جاسکے ورنہ وہ دن
دور نہیں جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں سمیت ملک کا ہر ادارہ وکلاء کے
سامنے بے بس ہو جائے گا (خدا نہ کرے کہ ایسادن آئے)۔
آپ اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
ہم کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہوگی |