1 13 جنوری ۲۱۰۸ کو نقیب اللہ محسود نامی ایک جوان کو
جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا کراچی سمیت پورے ملک میں اس ماورائے
عدالت قتل پر احتجاج ہوا تو تحقیقات کا حکم دیا گیا ۔تحقیقاتی کمیشن نے
اپنی رپورٹ میں بتایا کہ نقیب اللہ محسود بے گناہ تھا اور اس کا تعلق کسی
بھی دہشت گرد تنظیم سے نہیں تھا اس رپورٹ کا منظر عام پر آنا تھا کہ جعلی
پولیس مقابلوں کے چئمپین راؤ انوار منظر عام سے غائب ہو گئے اور ھنوز اس
ریاستی دہشت گرد کی تلاش جاری ہے جاننے والے جانتے ہیں کہ راؤ انوار جب
جعلی پولیس مقابلوں میں خاص لوگوں کو مار رہا تھا تو یہ شخص اسٹیبلشمنٹ
سمیت بعض سیاسی جماعتوں کی آنکھوں کا تارا تھا لیکن بھلا ہو سوشل میڈیا کا
کہ جس نے نقیب اللہ محسود کی المناک اور بے گناہ موت پر بھرپور آواز اٹھائی
جس کے بعد اس بدنام زمانہ قاتل کو روپوش ہونا پڑا لیکن سارے حقائق سامنے
آنے کے بعد بھی ریاست ابھی تک ٹس سے مس نہیں ہو رہی دوسری طرف نقیب اللہ
محسود کا بے گناہ خون مسلسل ٹپک رہا ہے جس نے پختونوں کو متحد کر دیا ہے
اور پاکستان بھر کے پختون اس وقت مل کر اسلام آباد میں دھرنا دیئے بیٹھے
ہیں اور اپنے مطالبوں کو مسلسل دھرا رہے ہیں لیکن دوسری طرف روایتی بے حسی
کا مظاہرہ کی جا رہا ہے جبکہ ایک مردار کی طرح بہت سے سیاستدان اور دینی
جماعتوں کے رھنما دھرنے میں آ کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر
رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دہشت گردوں کی کسی
نہ کسی سطح پر مدد کی ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جن کو دہشت گرد اپنا
استاد مانتے ہیں پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ریاست کی باگ دوڑ ان لوگوں کے
ہاتھوں میں ہے جن کی نادانیوں اوربے وقوفیوں کی وجہ سے ریاست سنجیدہ خطرات
میں گھر گئی ہوئی ہے ۔
طالبان نے پاکستان میں کیا کیا ظلم ہیں جو نہیں کئے لیکن ہماری ریاست نے
ہمیشہ کی طرح ان کے سر پر دست شفقت رکھا سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد یہ
امید تھی کہ اب ریاست ان ملک و انسانیت دشمنوں کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھائے
گی لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا جب ریاست نے طالبان کے انتہائی اہم رکن کو
ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا بلکہ اس کا ایک معزز شخصیت کے طور پر میڈیا پر
انٹرویو نشر کیا گیا اسی طرح ایک عرصے تک پاکستان کے لئے سنگین خطرہ بننے
والے صوفی محمد کو حال ہی میں یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ یہ شخص بوڑھا ہو
چکا ہے اس کا فوری نتیجہ گزشتہ دنوں وطن عزیز کے ۱۲ محافظوں کی شہادت کی
صورت میں نکلا اور ریاست ہے کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے غلطیوں
پر غلطیاں کئے جا رہی ہے کس کس ریاستی پالیسی کا رونا رویا جائے پاکستان کو
دہشت گردی کی آگ میں دھکیلنے والے محمد احمد لدھیانوی صاحب بعض ریاستی
اداروں کی ایما پر ایوان صدر کے مہمنا خصوصی ٹھہرتے ہیں اسی طرح فیض آباد
کے دھرنے نے ریاست پاکستان کی قلعی کھول کر رکھ دی جب کچھ جاہل مولویوں نے
انتہائی بھونڈے قسم کے مطالبات کے لئے ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر
دیا اور آج مولوی خادم نامی شخص مسلسل پاکستان میں تشدد کے فروغ کے لئے ہر
طرح کا اول فول بکنے کے لئے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں زبان کے نشتر
چلا رہا ہے ۔
میری خواہش ہے کہ نقیب اللہ محسود کو انصاف ملے انصاف کے حصول کے لئے دھرنے
کے بعد کم از کم یہ امید کی جاسکتی ہے کہ نقیب اللہ محسود کو انشا اللہ
انصاف ملے گا لیکن میری پریشانی یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ دھرنے دینے کی ہمت
نہیں رکھتا اس کو انصاف کون دے گا اس لئے کہ اب تک تو ریاست نے یہ روایت
قائم کی ہے کہ جب تک دھرنا نہیں دیا جائے گا تب تک جائز مطالبات ماننے کا
تصور بھی نہیں کیا جاسکتا البتہ اگر دھرنا دینے والے بے لگام گالیاں بکنے
والے اور طاقتور ہوں تو ریاست کو پاؤں پر بھی جھکایا جا سکتا ہے یہ رویت
اسی طرح آگے بڑھی تو ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ خاکم بدھن، کوئی ملاں خادم
صفت ملاں دھرنا دے کر اسلام آباد پر قبضہ کر لے گا ۔ |