حضرت علی ابن ابی طالب نے فرمایا:یا اﷲ !مجھے غالیوں
سے اسی طرح بری فرما جس طرح جناب عیسیٰ نے خود کو عیسائیوں سے مبرا کیا تھا۔
اے اﷲ ! انہیں (ہمیشہ )ان کے حال پر چھوڑ دے اور کسی مدد نہ
فرما!(بحارالانوار ج ۲۵ص ۲۶۶ح۷)
امام علی نے ارشاد فرمایا کہ حضرت رسول خد انے مجھے طلب کیااور فرمایا :اے
علی! بیشک! تم میں اور جناب عیسیٰ میں مشابہت پائی جاتی ہے ۔عیسائیوں نے ان
کو اتنا چاہا کہ حد سے بڑھا دیا اور یہودیوں نے ان سے اتنی نفرت کی کہ ان
کی والدہ پر تہمت لگادی ۔
حضرت علی نے فرمایا: میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ برباد ہوئے ۔ایک وہ
چاہنے والاجومجھے حد سے بڑھادے اور ایک وہ دشمنی رکھنے والے جو مجھے سے
عداوت رکھے ۔(بحارالانوار ج ۳۵ص۳۱۹ح۱۳)
ابوبصیر سے روایت ہے کہ ایک روز رسول خدا ہمارے درمیان تشریف فرماتھے کہ
حضرت علی تشریف لائے ۔آنحضرت نے فرمایا:بیشک ! تمہاری مثال عیسیٰ بن مریم
علیہما السلام کی طرح ہے ۔اگر میری امت تمہارے بارے میں وہ بات نہ کہتی جو
عیسائیوں نے جناب عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے سلسلے میں کہی تھی تو
میں تمہارے سلسلے میں ا یسی بات کہتا کہ تم کسی گروہ کے پاس سے نہ گزرتے
یہاں تک کہ لوگ تمہارے قدموں کی مٹی کو اپنے لئے برکت سمجھ کر اٹھا لیتے ۔
یہ بات سن کر اعرابی بدو ،مغیرہ بن شعبہ اور قریش کا ایک گروہ جوان کے ساتھ
تھا،ناراض ہوگیا ۔انہوں نے کہا:آپ اپنے ابن عم کی مشابہت کو سوائے جناب
عیسیٰ کے کسی اورکے لائق ہی نہیں سمجھا۔اس وقت اﷲ نے اس آیت کو نازل
فرمایا:’’ولما ضرب ابن مریم مثلا اذا قومک منہ یصدون ۔وقالو ء آلھتنا خیر
ام ھو ماضربوہ الا جدلابل ھم قوم خصمون ۔ان ھو الا عبد انعمناعلیہ وجعلنہ
مثلا لبنی اسرائیل ۔ولو نشاء لجعلنا منکم ملٰئکۃ فی الارض یخلقون ‘‘
اورجب ابن مریم کو مثال میں پیش کیا گیا توآپ کی قوم شورمچانے لگی اور کہنے
لگے کہ ہمارے خدابہتر ہیں یا وہ اور لوگوں نے ان کی مثال صرف ضد میں پیش کی
تھی اور یہ صرف جھگڑا کرنے والے تھے ۔ورنہ عیسیٰ ایک بندے تھے جن پر ہم نے
نعمتیں نازل کی تھیں اور انہیں بنی اسرائیل کے لئے قدرت کا ایک نمونہ بنایا
تھا اورا گر ہم چاہتے تو تمہارے بدلے ملائکہ کو زمین پر بسنے والاقرار دیتے
۔(سورہ زخرف؍ ۵۷تا ۶۰)
اس آیت کو سن کر حارث بن عمرو الفہری غصہ ہوگیااور بول اٹھا:اے اﷲ ! اگر یہ
حق تیری طرف سے ہے کہ بنی ہاشم ایک کے بعد ایک وارث بنیں گے تو مجھ پرآسمان
سے پتھر برسادے پھر یا عذاب الیم نازل کردے ۔(سورہ انفال؍ ۳۲)
حارث کی اس بات پر ا ﷲ نے یہ آیت نازل فرمائی:’’وماکان اﷲ لیعذبھم وانت
فیھم وماکان اﷲ معذبھم وھم یستغفرون ‘‘
حالانکہ اﷲ ان پر اس وقت تک عذاب نال نہیں کرے گاجب تک ’’پیغمبر‘‘آپ ان کے
درمیان ہیں اورخداان پر عذاب کرنے والا نہیں ہے اگر یہ توبہ واستغفار کرنے
والے ہوجائیں ۔(سورہ انفال؍ ۳۳)
رسول خدانے فرمایا :اے ابن عمر !یاتوبہ کرلو یا یہاں چلے جاؤ ۔
اس نے عرض کیا:اے محمد! آپ غیر قریش کے لئے اپنے اختیار میں سے کچھ قرار دے
دیں ۔بنی ہاشم نے عرب اورعجم پر فوقیت حاصل کرلی ہے ۔
آپ نے فرمایا:یہ میری طرف سے نہیں بلکہ اﷲ کی طرف سے ہے․․․ ۔(الکافی :الشیخ
کلینی ج ۸ ص ۵۷ح۱۸)
ان کی رہبانیت
رسول خدا نے ارشاد فرمایا: اے ابوذر! جناب عیسیٰ بن مریم کو رہبانیت او ر
مجھے حنیف کے ساتھ مبعوث کیا گیا۔خوشبو اور عورت میری پسندیدہ شے قرار پائی
اور نماز کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا گیا ہے ․․․۔(بحارالانوارج
۷۹ص۲۲۳ح۵۸)
ابن مسعود نے کہا کہ میں رسول خدا کے ساتھ خچر پرپیچھے بیٹھا ہوا تھا ۔ آپ
نے فرمایا:اے ابن ام عبد ! کیا تم جانتے ہو کہ بنی اسرائیل میں
رہبانیت نے کیسے جنم لیا ؟
میں نے عرض کیا:اﷲ او ر اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا:جناب عیسیٰ کے بعد ظالم اور جابر لوگوں نے ان پر غلبہ حاصل
کیا او ر وہ خدا کی معصیت کیا کرتے تھے ۔ اہل ایمان پر غضب ناک ہوئے اور ان
سے جنگ کی ۔انہوں نے تین دفعہ اہل ایمان کو اپنے ظلم کو نشانہ بنایااور
انہیں شکست سے دوچار ہوناپڑا ۔یہاں تک کہ صرف چند افراد ہی زندہ بچے ۔انہوں
نے کہا : اگر ہم ظاہر ہوتے ہیں تو وہ ہمیں ہلاک کردیں گے اور مذہب کی طرف
دعوت دینے والاکوئی بھی شخص بقیدحیات نہ رہ پائے گا ۔اس لئے چلو ہم زمین
میں پھیل جائیں ۔یہاں تک کہ اﷲ حضرت محمد کو مبعوث کردے جس کا جناب عیسیٰ
علیہ السلام نے وعدہ کیا تھا ۔ انہوں نے پہاڑوں میں پناہ لے لی اور پھر
وہیں سے رہبانیت کا آغاز ہوگیا ۔ان میں سے کچھ دین سے متمسک رہے اور کچھ
کافر ہوگئے ۔اس وقت آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔’’و رھبانیۃ ابتدعوھا ما
کتبناھا علیھم الا ابتغاء رضوان اﷲ فما رعوھا حق رعایتھا فاٰتیناالذین آمنو
منھم و اجرھم وکثیر منھم فاسقون ‘‘
اور جس رہبانیت کو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کر لیا تھا اور اس سے رضائے خدا
کے طلبگا ر تھے اسے ہم نے ان کے اوپر فرض قرار نہیں دیاتھا اور انہوں نے
خود بھی اس کی مکمل پاسداری نہیں کی تو ہم نے ان میں سے واقعا ایمان لانے
والے کو اجر عطا کردیا اور ان میں سے بہت تو بالکل فاسق اور بد کردار تھے
۔(سورہ حدید؍ ۲۷)
اے ام عبد کے فرزند ! کیا تم جانتے ہو کہ میری امت کی رہبانیت کیا ہے ؟
میں نے عرض کیا :اﷲ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا:ہجرت ،جہاد ،نماز ،روزہ ،حج اور عمرہ ۔(بحارالانوار ج ۶۵ص۳۲۰)
نوٹ:اس مضمون میں درایت اورروایت کے صحیح السندہونے سے قطع نظر صرف حضرت
عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق معلومات کو جمع کیا گیاہے۔(مترجم) |