اعلیٰ’’ عدالت ‘‘کے منصفوں کی ناراضی ۔۔تاریخ کے آئینے میں ۔۔۔۔۔

 سپریم کورٹ نے وفاقی وزیربرائے نجکاری اور’’ ن ‘‘لیگی رہنما دانیال عزیز کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 فروری کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیاوفاقی وزیرکو عدلیہ مخالف تقاریر پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا ہے ،ن لیگی رہنما کی جانب سے مختلف ٹی وی پروگراموں کے دوران عدلیہ کے خلاف گفتگو کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوا،واضح رہے کہ عدلیہ مخالف تقاریر پر وزیرمملکت طلال چودھری کو بھی سپریم کور ٹ نے 6 فروری کو طلب کررکھا ہے جب کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا مجرم قرار دیتے ہوئے 1ماہ قیداور 50 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ ساتھ پانچ سال عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دیا تھا،قبل ازیں طلال چودھری نے نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیے جانے پراپنے رد عمل میں کہا تھا کہ سیاستدانوں کی نااہلی کا فیصلہ صرف عوام کی عدالت کرسکتی ہے، اگر قانون کے مطابق فیصلے ہوتے تو عزت بڑھتیاگرچہ متعدد پارلیمنٹرینز، سربراہان مملکت، آرمی چیف اور دیگر بااثر افراد بشمول اعلیٰ عدلیہ کے ججز ملک کے منصفوں سے ناراض ہوئے، انہیں توہین عدالت کے نوٹسز بھی جاری کئے گئے لیکن صرف چند ہی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا، حال ہی میں سینیٹر نہال ہاشمی ایک اور اعلیٰ شخصیت بن گئے ہیں جو توہین عدالت کے مرتکب قرار دیئے گئے اور ماضی قریب میں دوسرے پارلیمنٹرین (یوسف رضا گیلانی کے بعد) ہیں جو ان الزامات پر پارلیمنٹ سے نااہل قرار دیئے گئے، اگرچہ توہین عدالت کی غیر معمولی بات دنیا بھر میں موجود ہے جس کے ذریعے ججز کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ توہین عدالت کے مرتکب افراد پر جرمانے لگائے یا حکم عدولی یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے پر انہیں جیل بھیج دے، یہاں ہم مختصر طور پر چند اہم واقعات کا تذکرہ کریں گے جس میں 4 پاکستانی وزرا اعظم، ایک نگراں وزیراعظم، ایک آرمی چیف، درجنوں ججز، وزراء اہم سیاسی جماعتوں کے سربراہوں، بااثر کاروباری شخصیات وغیرہ کو اعلیٰ عدالت کے منصفوں کی ناراضی کی وجہ سے مجرم قرار دیا گیا،سینیٹر نہال ہاشمی سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ججز کے سامنے حاضر ہوں کیونکہ انہوں نے 26، 29 اور 30 جولائی 2013ء کی قدرے ’تلخ‘ اور ’سخت‘ اپنی پریس کانفرنسزمیں عدلیہ کو ’شرمناک‘ کہا تھا، تاہم 2 اگست کی اپنی سماعت کے دوران انہیں ججز کے سامنے یہ کہتے سنا گیا کہ ان کی تنقید کا ہدف ریٹرننگ افسران تھے مکمل عدلیہ نہیں، اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی 1976ء میں اس وقت شروع ہوئی جب نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی)، اب کی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے کیس فائل کیا، پرازواقعات سے بھرپور 1970ء میں حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی (این ا ے پی) پر پابندی لگا دی اور اس وقت کی عدالتوں نے اس فیصلے کو برقرار رکھا، تاہم ذوالفقار علی بھٹو خود کو این اے پی کیخلاف بیانات سے روک نہیں پائے، عدالتی حکم کی وجہ سے ایسے بیانات کی اجازت نہیں تھی، اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کے مرحوم والد عبدالولی خان نے 37 سال قبل 1976ء میں بھٹو کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دی، ولی خان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے عدالت نے اس وقت کے وزیراعظم کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کئے، تاہم وزیراعظم بھٹو کیخلاف ٹھوس شواہد نہیں ملے اور بعدازاں نوٹسز خارج کردیئے گئے، پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو پہلی بار 21 فروری 1993ء کو توہین عدالت کو مرتکب قرار دیا گی، فروری 1993ء کو ایک اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں جنرل بیگ نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ججز کو متنبہ کرنے کیلئے ایک قاصد بھیجا تھا کہ قومی اسمبلی کو بحال نہ کیا جائے، اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان نسیم حسن شاہ سابق آرمی چیف کے انٹرویو پر برہم ہوئے اور انہیں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا۔ اس کیس میں چیف جسٹس شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم بہت ہی پشیمان ہیں کہ ملک کا دفاع ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں دیا گیا جو انتہائی بے پروا ہے‘۔ عدالت نے بالآخر ریٹائرڈ جنرل کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا لیکن عجیب انداز سے سزا سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دیا، اسی عدالت نے اپیل فائل ہونے کے بعد اپنا ہی فیصلہ واپس لے لیا۔ اور بالآخر 9? جنوری 1994ء کو جنرل اسلم بیگ کیخلاف تمام کارروائی روک دی گئی۔ دوسری بار جنرل بیگ کو 8 مارچ 2012ء کو توہین عدالت کے الزام کا سامنا کرنا پڑا جب 1996ء کے اصغر خان کیس کی سماعت کے دوران ججز نے ان کا بیان توہین عدالت کے زمرے میں قرار دیا، اس تاریخ کو کارروائی کے دوران اسلم بیگ نے مہران بینک کے سابق صدر یونس حبیب کے بیان پر جواب جمع کرایا، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اسلم بیگ کے جواب میں ایک پیراگراف پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور اسے توہین عدالت قرار دیا، چیف جسٹس نے پھر اسلم بیگ سے کہا کہ وہ اس پیراگراف پر معافی مانگیں، کوئی اور راستہ نہ ہونے پر سابق آرمی چیف کو فوراً معافی مانگنی پڑی اور اپیل کرنا پڑی کہ وہ مخصوص پیرگراف حذف کردیا جائے۔،جنرل بیگ اس وقت مہران بینک کے سابق صدر یونس حبیب کے بیان کی تردید کیلئے عدالت میں موجود تھے، یہ بیان ائیرمارشل (ر) اصغر کی پٹیشن پر سپریم کورٹ میں داخل کروایا گیا تھا۔ ان کا بیان آئی ایس آئی کی جانب سے قومی سیاستدان کو پیسوں کی مبینہ تقسیم سے متعلق تھا تاکہ 1990ء کے عام انتخابات کو متاثر کیا جاسکے، سابق وزیراعظم نواز شریف کو 17? نومبر 1997ء کو سپریم کورٹ کے سامنے ذاتی طور پر پیش ہونا پڑا کیونکہ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کی سفارش پر انہیں توہین عدالت کو نوٹس جاری کیا گیا تھا، نواز شریف کا اقتدار میں یہ دوسرا دور تھا، جسٹس سجاد علی شاہ نے ہائی کورٹس کے 5 سینئر ترین ججوں کو سپریم کورٹ بھیجنے کیلئے نام تجویز کئے تھے لیکن نواز شریف کی حکومت نے اس کی بجائے ایک نوٹیفکیشن جاری کردیا جس کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعداد 17 سے کم ہوکر 12 ہوگئی، نواز شریف کا یہ فیصلہ اس وقت ملک کے اعلیٰ ترین جج کو پسند نہیں آیا اور انہیں عدالت کی انتہائی توہین سمجھا، نتیجتاً اس تنازع میں وزیراعظم نوازشریف کو اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے باضابطہ طور پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا اور یہ عمل صرف 9 ماہ قبل منتخب سربراہ کو ہٹانے کیلئے خطرہ بنا، ملکی تاریخ میں جھانکنے سے پتہ چلتا ہے کہ نواز شریف کی سپریم کورٹ میں دوسری پیشی کے موقع پر الزامات لگائے گئے, وزیراعظم کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزامات سے متعلق جواب عدالت میں دیں جو بظاہر اعلیٰ عدالتی ادارے کی توہین کے مترادف ہے، توہین عدالت کے الزامات کے بعد نواز شریف کو اپنے عہدے سے ممکنہ نااہلی کا سامنا تھا لیکن آخر میں یہ خارج کردیئے گئے،لیکن کیس کی سماعت کے دوران نواز شریف کو معافی مانگنا پڑی، وزیراعظم کے نامور وکیل ایس ایم ظفر جنہوں نے بعدازاں گجرات کے چوہدریوں کی مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کی کو عدا لت میں نواز شریف کے طرف سے نامہ پڑھتے ہوئے دیکھا گیا، وزیراعظم کے بیان میں لکھا تھا، ’نہ میں نے توہین عدالت کا ارتکاب کیا اور نہ ہی میرا ایسا کوئی ارادہ تھا‘ نواز شریف اور سجادشاہ جھگڑے میں سپریم کورٹ کے ججز بھی تقسیم ہوگئے، جو بالآخر چیف جسٹس اور بعدازاں اس وقت کے صدر فاروق لغاری کی بیدخلی کی وجہ بنا حال ہی میں 9? اکتوبر 2009ء کو موجودہ سپریم کورٹ کی جانب سے عبوری آئینی حکم (پی سی او) ججز کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا، اس حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے نوٹسز جاری کئے گئے جبکہ 31 جولائی 2009ء کے آرڈرز نظر ثانی اپیلوں کی بھی سماعت کی گئی، 4مئی 2010ء کو سپریم کورٹ نے جسٹس (ر) عبدالحمید ڈوگر اور 10 دیگر پی سی او ججز کو جاری توہین عدالت کے نوٹسز سے متعلق اپیلیں مسترد کردیں، عدالت نے پی سی او ججز کو 7مئی 2010ء کی ڈیڈ لائن دیکر حکم دیا کہ وہ توہین عدالت کے الزامات پر جواب داخل کرائیں اور 8جولائی 2010ء کو عدالت نے پی سی او ججز کی آئینی نظرثانی اپیلیں بھی خارج کردیں، جبکہ ان میں سے اکثر ججز (جنہوں نے 3نومبر2007کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور پی سی او کے تحت حلف اٹھایا) ممکنہ سزا سے بچنے کیلئے غیر مشروط معافی نامے جمع کرواچکے ہیں، ان ججز میں سے 4بشمول سابق سیکریٹری قانون یاسمین عباسی نے غیر مشروط معافی نامے جمع کروانے سے انکار کیااور ان کے کیسز اب تک زیرالتوا ہیں، سابق وزیرا عظم یوسف رضا گیلانی این آر او کیس میں عدالت کے احکامات کو بار بار نظر انداز کرنے پر سپریم کورٹ کی جانب سے 19جون 2012 کو اپنے دفتر سے برطرف اور نا اہل کیے گئے،عدالت کی جانب سے انہیں احکامات دیے گئے تھے کہ وہ سوئس حکام کو اس وقت کے صدرپاکستان آصف علی زرداری کیخلاف دوبارہ کیسز کھولنے سے متعلق ایک خط لکھیں تاہم گیلانی نے ایسا نہیں کیا، عدالت نیاپنے قائمہ احکامات میں کہاکہ گیلانی26اپریل کی سزا کے بعد وزیر اعظم آفس میں بیٹھنے کے اہل نہیں اور ان کی جانب سیاس تاریخ تک دیے گئے تمام احکامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں،گیلانی کے بعد آنے والے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو بھی این آر او عدالتی حکم عدولی کیس میں توہین عدالت کا نوٹس ملا تاہم انہیں نا اہل نہیں کیا گیا کیوں کہ انہوں نے کچھ ہفتے گزارنے کے بعد سپریم کورٹ کے احکامات کے آگے اپنا سر جھکا دیا، مجموعی طور پر دونوں، راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی2012کے دوران 6مواقع پر سپریم کورٹ کیسامنے پیش ہوئے،ہم سب کو یاد ہی ہوگاکہ دسمبر 2009میں عدالت نے پاکستان اسٹیل ملز کرپشن کیس کی تحقیقاتی ٹیم کو تبدیل کرنے پرسابق وزیر داخلہ رحمان ملک کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا، رحمان ملک کیخلاف توہین عدالت کا کیس زیر التوا ہے، اس کے بعد سندھ کے کچھ شہروں میں2نجی ٹی وی چینلز (جیو نیوز اور اے آر وائی) کی ٹرانسمیشن کی بندش کے حوالے سے عدالت کو گمراہ کرنے پر 24اگست 2010کوسپریم کورٹ نے چیئرمین پیمرا مشتاق ملک کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری کیا، پیمراچیف نے استثنیٰ طلب کرتیے ہوئے خود کو بچایا،پاکستان پیپلز پا رٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر قانون بابر اعوان نے کئی مواقع پرسپریم کورٹ کو چیلنج کیا، نتیجتاً انہیں حسین حقانی سے متعلق میمو گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے یکم دسمبر 2011کوپریس کانفرنس کرنے پر 5جنوری 2012کو سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا،انہیں سر عام ججز کا مذاق اڑانے اور تذلیل کرنیکا ملزم ٹھہرایا گیا17جنوری 2012کو انکا قانونی لائسنس غیر معینہ مدت کیلئے معطل کردیا گیا،10اپریل 2012کوسینیٹر بابر اعوان کے اٹارنی بیرسٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ایک درخواست جمع کروائی اور اپنے موکل کی طرف سے غیر مشروط معافی نامہ پیش کیا،18اپریل2012کو سپریم کورٹ نے بابر اعوان کا معافی نامہ قبول کرنے سے انکار کردیا،مئی 2012 میں انہیں باقاعدہ مجرم ٹھہرایاگیالیکن انہوں نے عدالتی فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا،5جولائی2012کوبابر اعوان نے سپریم کورٹ سے التجا کی کہ ان کی جانب سے پیش کئے گئے غیر مشروط معافی نامے پر غور کیاجائے، انہوں نے کہا کہ عدالتی مثال یہی رہی ہیکہ جب کوئی ملزم معافی طلب کرے تو اسے معافی مل جاتی ہے،ستمبر2012کو اپنے خلاف توہین عدالت کیس کی کارروائی کے دوران سپریم کورٹ کے سامنے ایک بار پھر غیر مشروط معافی طلب کی، 26مارچ 2012 کو سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کے مزید 2رہنماؤں تاج حیدر اور شرجیل میمن کو توہین عدالت پر نوٹسز جاری کیے گئے،دونوں رہنماؤں نے عدلیہ پر اس فیصلے کے بعد تنقید کی جس میں عدالت کی جانب سے سابق چیئرمین نیب جسٹس(ر) دیدار حسین شاہ کی تقرری کالعدم قرار دی گئی، پیپلز پارٹی کے ان دونوں رہنماؤں کے خلاف مذکورہ کیس تاحال زیر التوا ہے،رینٹل پاور پروجیکٹ کیس میں ملوث مجرموں کو جان بوجھ کر گرفتار نہ کرنے پرسابق چیئرمین نیب ایڈمرل(ر) فصیح بخاری کو 11ستمبر 2012 کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیاگیا، توہین عدالت کے نوٹسز نیب کے دیگر 7افسران کو بھی جاری کیے گئے، 2013میں سپریم کورٹ نے فصیح بخاری کو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو ایک خط لکھنے پر ایک اور توہین عدالت کانوٹس جاری کیا،راجہ پرویز اشرف اس کیس میں ملوث ملزمان میں شامل تھے،فصیح بخاری کیخلاف توہین عدالت کے کیسز تاحال زیر التوا ہیں، 9مئی2013کوسپریم کورٹ نے نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کو 22وفاقی سیکریٹریزکی تقرری و تبادلے کے کیس میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا، نگراں وزیر اعظم نے تحریری طورپرندامت کا اظہار کیا لیکن عدالت جواب سے مطمئن نہ ہوئی اور نتیجتاً اس کیس پرکوئی فیصلہ نہ ہوا،اس کیس میں عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اورنگراں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹریزکو بھی ایسے ہی نوٹسز جاری ہوئے، زیادہ عرصہ نہیں ہوا،14دسمبر 2012کوایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین اور رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کوتوہین آمیز تقاریر کرنے پر توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے گئے اور انہیں 7جنوری 2013کو عدالت طلب کیاگیا،الطاف حسین لندن میں تھے لہٰذا عدالت میں پیش نہ ہوئے،بہرحال، الطاف حسین کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم اپنے موکل کی طرف سے غیر مشروط معافی نامہ جمع کروایا، اس کے جواب میں عدالت نے الطاف حسین کا معافی نامہ قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کے نوٹس کو منسوخ کردیا،زرائع کے مطابق عدلیہ مخالف بیانات،تنقید اورتوہین عدالت کے نوٹسز یہ سب حالیہ برسوں میں اکثر خبروں کی زینت بنتارہا،کبھی کیسز چلے،کبھی معافی تلافی ہوگئی اورکبھی کچھ بھی نہ ہوا،کوئی بھی شخص عدالتوں کے کام میں رکاوٹ ڈالے،اسکینڈلائز یا تضحیک کرے،آئین کا آرٹیکل 204 تمام عدالتوں کو ایسے شخص کے خلاف مکمل کارروائی کا اختیار دیتا ہے،حالیہ برسوں میں نظر دوڑائیں تو3نومبر 2007 کا دن،سابق فوجی آمر پرویز مشرف عدالتی فیصلوں سے اختلاف کیا نہ ہی ان پر تنقید کی، سیدھے ایمرجنسی نافذ کی اور اعلی عدلیہ کے ججز کوان کے خاندانوں سمیت گھروں میں نظر بند کردیاتھا،۔سپریم کورٹ نے وفاقی وزیربرائے نجکاری اور’’ ن ‘‘لیگی رہنما دانیال عزیز کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 فروری کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیاوفاقی وزیرکو عدلیہ مخالف تقاریر پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا ہے ،ن لیگی رہنما کی جانب سے مختلف ٹی وی پروگراموں کے دوران عدلیہ کے خلاف گفتگو کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوا،واضح رہے کہ عدلیہ مخالف تقاریر پر وزیرمملکت طلال چودھری کو بھی سپریم کور ٹ نے 6 فروری کو طلب کررکھا ہے جب کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا مجرم قرار دیتے ہوئے 1ماہ قیداور 50 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ ساتھ پانچ سال عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دیا تھا،قبل ازیں طلال چودھری نے نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیے جانے پراپنے رد عمل میں کہا تھا کہ سیاستدانوں کی نااہلی کا فیصلہ صرف عوام کی عدالت کرسکتی ہے، ۔اب یہ معاملہ عدالت میں ہے دیکھنا ہے کہ اب عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43819 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.