کوئی کھلاڑی کھیل کے میدان میں ہار جائے
اور اگلی دفعہ مقابلے کے لیے اس انداز سے تیاری کرے کہ اپنی گزشتہ شکست کی
وجوہات کو مدنظر رکھے اور اگلے مقابلے کے لیے بہتر حکمتِ عملی وضع کرے تو
عین ممکن ہے کہ وہ مقابلے میں جیت جائے۔ بالکل اسی طرح تنزّلی اور انحطاط
کا شکار قومیں اگر اپنی تنزلی اور انحطاط کے اسباب و عوامل کا تجزیہ کریں
اور پھر تمام تر زمینی، جغرافیائی ، لسانی، نفسیاتی ، مذہبی ، معاشرتی ،
تہذیبی اور ثقافتی حقائق کو مدِّ نظر رکھ کر دوسری قوموں سے آگے نکلنے کی
حکمتِ عملی وضع کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ دوسری اقوام سے ترقی میں سبقت
نہ لے جائیں۔ایک ناکام، لاحاصل اور گھِسے پٹے نظام سے چمٹے رہ کر اپنی تمام
تر توانائیوں اور صلاحیتوں کو ضائع کرتے رہنا اور پھر بھی اسے اپنا مقدر
سمجھ کر گلے سے لگائے رکھنا ہی کسی قوم کی منفی سوچ کے عکاس رویے ہیں۔ مثال
کے طور پر یہ ہماری بہت بڑی ناکامی نہیں ہے کہ ہم آزاد اور مؤثر ذرائع
ابلاغ کے دور میں ایک تعلیمی چینل کا آغاز نہیں کر سکے۔ حکومتوں کے لیے تو
خیر یہ کام مشکل ہے ہی نہیں کوئی ایک جماعت یا تنظیم بھی یہ چینل شروع کر
سکتی ہے اور آسان فہم زبان میں مشکل سے مشکل سائنسی، تکنیکی اور معاشرتی
تصورات کو عام لوگوں تک پہنچا سکتی ہے۔ علم کو عام کرنے کے لیے ان ذرائع کا
استعمال کرنا اب سانس، پانی اور غذا کی طرح ضروری بن چکا ہے۔ اب ذرا ہمارے
ہمسائے اور حریف ملک بھارت کی طرف دیکھئے۔ نیشنل جیو گرافی چوبیس گھنٹے
ہندی ڈبنگ کے ساتھ چلتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور چینل discovery بھی
بڑی کامیابی کے ساتھ ہندی ڈبنگ کے ساتھ چل رہا ہے جس میں دنیا بھر کی جدید
ترین تحقیقات کو سادہ ہندی میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ عام آدمی بھی سمجھ کر
استفادہ حاصل کر سکے۔ان دونوں چینلوں کے ساتھ ایک تیسرا چینل animal planet
ہے جو دنیائے حیوانات کے نت نئے گوشوں کو وا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک
چوتھا چینل cn بچوں کے کارٹونوں اور ہلکے پھلکے تعلیمی پروگراموں پر مشتمل
ہوتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق اسی طرز کا ایک اردو زبان میں چینل شروع کرنے کی
بھارت میں تیاریاں ہو رہی ہیں۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ان
چینلوں میں اشتہارات کی اجازت نہیں ہے۔ گویا کہ یہ خالصتاً تعلیمی اور
تحقیقی چینل ہیں اور ان کو چلانے والے ملکوں کی حکومتیں تمام تر اشتہاری
منافع سے انہیں آزاد رکھ کر چلا رہی ہیں۔تعلیم کو مال بیچنے والی فیکٹریاں
نہیں بنایا۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم فیکٹریوں کے مال کی طرح بِک رہی ہے
جو کہ انتہائی خطرناک رجحان کی عکاسی کرنے والا رویہ ہے۔اب آئیے اس کام کی
طرف جو گذشتہ تقریباً نصف عشرے میں بھارت میں جہادی روح کے ساتھ ہوا اور
ایک تہلکہ خیز صورت اختیار کر گیا۔وہ یہ کہ بھارت میں قومی اور مقامی
زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے جس کی سرکاری
سرپرستی ہر ممکن طریقے سے ہو رہی ہے۔یہ بات بڑی حیرانی کی ہے کہ بھارت جیسا
ملک جو انگریزی کا شیدائی سمجھا جاتا تھا اس نے یکدم پلٹا کھایا ہے اور
تمام علوم و فنون کو بھارت کی قومی اور مقامی زبانوں میں منتقل کرنا شروع
کر دیا ہے۔ اس کام میں ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی خاصی ترجیح دی جا رہی
ہے اور اسے گنگا جمنی زبان کا درجہ حاصل ہوا ہے۔
بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہزاروں اردو میڈیم سکول کھل چکے ہیں جہاں تمام
مضامین کی تعلیم اردو میں دینے کی اجازت مل چکی ہے۔ بھارت تیزی سے انگریزی
چھوڑ کر ہندی، اردو اور دوسری مقامی زبانوں کی طرف آ رہا ہے اور ان زبانوں
میں جدید ٹیکنالوجی کو لانے کے لیے مختلف سافٹ وئیر تیار کر رہا ہے۔ بھارت
کی ایک ویب سائٹ https://ncertbooks.prashanthellina.com ہے جہاں پہلی جماعت
سے لے کر بارہویں جماعت تک بشمول سائنسی کتب کے تمام مضامین کی کتابیں
اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب
تدریسی مواد کے ساتھ موجود ہیں جو کہ ہر شخص مفت میں ڈاؤن لوڈ کر سکتا
ہے۔سائنس کی اردو میں لکھی جانے والی کتابوں میں اصطلاحات تمام اردو کی ہی
استعمال کی گئیں ہیں نہ کہ ہماری طرح اردو کی سائنسی کتابوں میں انگریزی
اصطلاحات کو اردو تحت اللفظ میں لکھ کر ایک عجیب قسم کا چوں چوں کا مربہ
بنا دیا ہے۔ان کتابوں کا معیار اور جاذبیت آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دے
گی۔یہاں پر یہ بات بھی قابلِ ذکر اور قابلِ افسوس ہے کہ اردو تو ہماری قومی
زبان ہے مگر کام اس پر زیادہ بھارت میں ہو رہا ہے۔ہے نہ ہمارے لیے چلو بھر
پانی میں ڈوب مرنے کا مقام۔
دہلی میں قائم ادارہ " قومی کونسل برائے فروغِ اردو جو کہ اعلیٰ تعلیمی
کمیشن " اور "ادارہ برائے ترقی انسانی وسائل "کے تحت کام کرتا ہے، نے اعلیٰ
سطح تک کا نصاب اردو میں منتقل کرنے ،اس کے مطابق اساتذہ کو تربیت دینے اور
اردوسافٹ ویئر تیار کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ہے۔گذشتہ پانچ سالوں میں اس ادارے
نے قابلِ قدر اور بہت بڑا کام کر کے دکھایا ہے۔قومی کونسل برائے فوغِ اردو
زبان کی ویب سائٹ https://www.urducouncil.nic.in/پر ان کی نئی کتابوں کی
فہرست موجود ہے جو مفت میں ڈاؤن لوڈ اور پرنٹ کی جا سکتی ہے۔ان میں بہت سی
ادبی اردو کتب کے علاوہ جناب فضل الرحمان صاحب کا تین ضخیم جلدوں پر مشتمل
اردو انسائکلوپیڈیا، بی شیلا ملاکماری کی تصویری اردو لغت، آٹھ جلدوں پر
مشتمل قومی کونسل برائے اردو زبان کا تیار کردہ جامع اردو انسائکلو پیڈیا،
اردو کے مشہور نقاد جناب کلیم الدین کی تحریر کردہ چھ جلدوں میں جامع
انگریزی اردو لغت جو خصوصاً ترجمے کے مقاصد کے لیے تیار کی گئی ہے جسے ایک
بڑے کارنامے سے تعبیر کیا جانا چاہیے، جناب نصیر احمد خاں نے دو ضخیم جلدوں
میں جدید ہندی اردو لغت تحریر کی ہے، قومی اردو کونسل کی فرہنگِ ادبی
اصطلاحات، فرہنگِ اصطلاحاتِ طبعیات، فرہنگِ اصطلاحاتِ انتظامیہ، فرہنگِ
اصطلاحاتِ تاریخ و سیاسیات، فرہنگِ اصطلاحاتِ جغرافیہ، فرہنگِ اصطلاحاتِ
حیوانات، فرہنگِ اصطلاحاتِ ریاضیات ثانوی سطح کے لیے، فرہنگِ اصطلاحاتِ
ریاضیات گریجویٹ سطح کے لیے، فرہنگِ اصطلاحاتِ فلسفہ، نفسیات اور تعلیم اور
ان کے علاوہ لسانیات، کیمیا، معاشیات، نباتات، سماجیات، ترسیلِ عامہ،
سیاسیات، شماریات، کی فرہنگ تیار کی ہیں۔ لغاتِ ابجد شماری جناب سید احمد
کی، بی شیلا کماری اور ماہ جبیں نجم کی کتاب اردو زبان کا جادو اور ان کے
علاوہ کیمیا، حیاتیات، طبعیات اور دوسرے سائنسی مضامین پر سینکڑوں کی تعداد
میں کتب فہرست میں موجود ہیں۔علاوہ ازیں بچوں کے سائنسی اور اخلاقی ادب کے
حوالے سے بھی سینکڑوں کتب اس فہرست میں موجود ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغِ
اردو زبان کے پلیٹ فارم سے ملک کے مختلف شہروں اور صوبوں میں اردو صحافت کے
بہت سے کورسز کروائے جا رہے ہیں جن کے تمام تر اخراجات دلی سرکار اٹھا رہی
ہے۔ملاحظہ کیجئے دہلی سے شائع ہونے والا ماہنامہ" اردو دنیا " جس میں عربی،
فارسی اور اردو کے بہت سے کورسز کا تذکرہ ہے جو ملک کے مختلف حصوں میں
کروائے جا رہے ہیں۔ جون 2010 کے" اردو دنیا "کے شمارے کے پچھلے سرِ ورق
(بیک ٹائٹل) پر کشمیر کے شاہ فیصل نامی ایک نوجوان کی تصویر ہے جو اردو
مضامین کے ساتھ مقابلے کے امتحان میں بھارت بھر میں اول آیا ہے۔ آپ نے
ملاحظہ فرمایا کہ جس کام میں ہمیں بھارت سے کہیں آگے نکل جانا چاہیے تھا اس
میں بھارت ہم سے آگے نکل رہا ہے۔ایک لمحے کے لیے رک کر ہمیں سوچنا ہوگا کہ
ہم کدھر جا رہے ہیں اور ہمیں کدھر جانا چاہیے؟۔دنیا اپنی زبان و تہذیب کی
طرف واپس لوٹ رہی ہے اور ہم اس سے دور چلتے جا رہے ہیں۔آئیے ہم سب سوچیں
اور اپنی جدوجہد کی سمت متعین کریں۔ جو نہیں سوچتے انہیں قرآن کی زبان میں
بتا دیں کہ "آخر تم سوچتے کیوں نہیں ہو"۔ |