پاکستانی سیاست نے ۲۰۱۳ کے انتخابات کے بعد تشکیک ،الزامات
اور افواہوں کے کئی دریا عبور کئے۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب شکوک و شبہات
کے بادل عوامی اذہان کو پرا گندہ نہیں کرتے ۔طوطا فال کے ماہر ہر روز نئی
کہانی لے کر سامنے آتے اور یوں جمہوری ایقان پر مہلک ضربیں لگانے سے نہیں
چوکتے۔ان کا مطمعِ نظر چونکہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے اقتدار کا حصول ہے
اس لئے اس طرح کے حربے ان کی منزل کے حصول کا سب سے بڑا توشہ ہیں ۔بہر حال
ایک طرف پیشن گوئیوں کے ماہرین اپنی دکان سجائے ہوئے ہیں تو دوسری جانب
جمہوری شمع کے شعلے کو تابندہ اور روشن رکھنے والے او الالعزم افراد بھی
موجودہیں جو اس شمع کی روشنی کو کسی بھی حالت میں مدھم ہونے نہیں دینا
چاہتے۔ایک خاموش جنگ ہے جو غیر محسوس انداز میں ایک تسلسل سے جار ی وساری
ہے ۔جمہوریت کے دشمن افواہوں اور اور پیشن گوئیوں سے حکومت کو کمزور کرنے
کے در پہ ہیں جن کی اعانت میڈیا میں بیٹھے ہوئے چند زر خرید صحافی کرتے ہیں
۔ان کے بیانات اور رویوں سے یوں محسوس ہو تا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت
اپنی مدت سے پہلے ہی زمین بوس ہوجائے گی اور اسٹیبلشمنت ایک دفعہ پھر اپنی
برتری کا ڈھول پیٹ کر اپوزیشن سے دادو تحسین وصول کرے گی لیکن بوجوہ ایسا
نہ ہو سکا اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت لرزتی تڑپتی دھیرے دھیرے اپنی آئینی
مدت کی تکمیل کی جانب گامزن ہے حتی کہ میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی بھی
حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل میں سدِ راہ نہیں ہو سکی۔اپنی نا اہلی کے بعد
میاں محمد نواز شریف ایک نئے انداز سے متحدہ اپوزیشن کے چھتے سے نبرد آزما
ہونے کے لئے ووٹ کے تقدس کا نعرہ لے کر میدان میں نکلے تو جمہوریت نواز
حلقوں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کی نا اہلی کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ
کی ملی بھگت قرار دے کر ایک دفعہ پھر میاں محمد نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو
کر جمہوریت بچانے میں جٹ گے ۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر سب سے کاری وار اگست
۲۰۱۴ کا دھرنا تھا جسے پی پی پی کے جرات مندانہ موقف سے پسپائی کا سامنا
کرنا پڑا تھا حالانکہ مسلم لیگ (ن) اس وقت اپنا دل ہار بیٹھی تھی۔اپوزیشن
لیڈر خورشید شاہ کے پار لیمنٹ میں دھواں دار خطاب نے مسلم لیگ(ن) کے تنِ
مردہ میں جان ڈال دی تھی ۔ اس وقت پی پی پی کا اندازِ فکر اس کی موجودہ سوچ
سے بالکل مختلف تھا کیونکہ ۲۰۱۲ میں وہ خود بھی ایسے ہی دھرنے کا سامنا کر
چکی تھی جب ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری نے پی پی پی کے خوب لتے لئے تھے اور
آصف علی زرداری کی خوب مٹی پلید کی تھی ۔ اس وقت ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری
اکیلے تھے کیونکہ عمران خان اور مسلم لیگ (ن ) نے ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری
کے دھرنے کا ساتھ نہیں دیا تھا لہذا ا س دھرنے کے جھٹکے اگست ۲۰۱۴ کے
دھرنے جیسے شدید نہیں تھے ۔مسلم لیگ (ن) اس وقت بھی دھرنا سیاست کے خلاف
تھی اور ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کو جمہوریت دشمن تصور کرتی تھی حالانکہ اس
وقت اسے اس بات کی بالکل خبر نہیں تھی کہ اسے خود بھی آنے والے دنوں میں
اسی طرح کے کئی خود کش دھرنوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔۔انتخابی دھاندلی
سے شروع ہو نے والا خلفشار مسلسل تین سال چلا اور مسلم لیگ (ن) کی کارگردگی
پر کئی بد نما داغ چھوڑ گیا ۔پی ٹی آئی پورے چار سالوں تک سڑکیں ناپتی رہی
اور عوامی شعور میں کرپشن کے خلاف عوای رائے عامہ کو منظم کرتی رہی ۔کرپشن
کا ناسور اس شرمناک حد تک معاشرے میں سرائیت کر چکاہے کہ اس سے ہر شخص
پریشان ہے لیکن کرپشن ہے کہ کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ ہر
شخص اس میں ملوث ہے۔کرپشن کے خلاف عمران خان کا بیانیہ کیا انتخابات میں اس
کی فتح کی نوید بنے گا یا محض دل لگی ہی تصور ہو گا تجزیہ کاروں کا اس باب
میں کافی اختلاف ہے جبکہ پی ٹی آئی بزعمِ خویش یہ سمجھتی ہے کہ کرپشن کے
خلاف اس کی یہ مہم جوئی اس کی مقبولیت اور پہچان کی بنیاد ہے لہذا وہ نت
نئے ایشوز اور زاویوں سے حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے حیلے بہانے تراشتی
رہتی ہے ۔پارلیمانی سیاست میں اپوزیشن کا احتجاج،تنقید، واویلا اور شور
مچانا ضروری ہوتا ہے لیکن جب اس میں سازش کا تڑکہ لگ جاتا ہے اور جمہوری
نظام کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے تو عوام اس مہم جوئی سے خود کو الگ کرلیتے
ہیں۔پی ٹی آئی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔دھرنا سیاست سے پی ٹی آئی نے پی پی پی
کی مقبولیت کو کافی زک پہنچائی لیکن اپنے اصلی حریف مسلم لیگ (ن) کو
بچھاڑنے میں اسے اس طرح کامیابی نصیب نہیں ہو سکی جس کی وہ توقع لگائے ہوئے
تھی۔مسلم لیگ کے ایم این اے کی بڑی تعداد نہ تو پی ٹی آئی کی جانب راغب
ہوئی اور نہ ہی مسلم لیگ کے اندر کوئی فارورڈ بلاک بن سکا جواسے پنجاب میں
کمزورکر دیتا۔مسلم لیگ (ن) کی اصل طاقت پنجاب ہے اور پنجاب اب بھی مسلم لیگ
(ن) کا مضبوط قلعہ ہے ۔پنجاب میں ہونے والے کئی ضمنی انتخابات نے اس بات پر
مہرِ تصدیق ثبت کی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں پچھاڑنا کافی جان
جوکھوں کا کام ہے۔ پی ٹی آئی سارے حربے آزمانے کے باوجود بھی مسلم لیگ (ن)
کے قلعے میں نقب لگانے سے عاری ہے۔،۔
مسلم لیگ(ن) پنجاب کی طاقت پر ۲۰۱۸ میں کے انتخابات میں اپنی فتح کے خواب
دیکھ رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کی حد تک مسلم لیگ (ن) میں
بغاوت ہوئی اور اس کاسارا کریڈٹ آصف علی زرداری کو دیا جا رہا ہے جو اس
بغاوت کو برپا کرنے کے مرکزی کردار ہیں۔باعثِ حیرت ہے کہ بلوچستان اسمبلی
میں پی پی پی کا ایک بھی ممبر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پوری بلوچستان
کابینہ آصف علی زرداری کے دولت خانے پر حاضر ہو کر ان سے اظہارِ یکجہتی
کرتی اور ان سے ہدایات لیتی ہے ۔ بلوچستان میں موجودہ بغاوت کے پیچھے کون
سے عوامل کارفرما ہیں اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ ہارس ٹریڈنگ کا جس
بھر پور انداز میں اظہار بلوچستان اسمبلی میں ہوا ہے وہ سب کیلئے لمحہِ
فکریہ ہے۔سیاستدانوں نے جس طرح اخلاقی گراوٹ کا ثبوت دیاہے اس پر ماتم ہی
کیا جا سکتا ہے۔ریپبلکن لیگ،کنونشن لیگ،جونیجو لیگ ،قاف لیگ کے نقشِ قدم پر
چلتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ممبران نے راتوں رات جس طرح وفا داریاں بدلی ہیں
اس نے سیاستدانو ں سے ان کی ساری اخلاقی قوت چھین لی ہے۔ گھوڑوں کی منڈی
سجی ہوئی ہے اور بڑی بولی والا فاتح قرار پایاہے ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ
ہمارے سیاستدان اپنے مفادات کی خاطر ایسے اصول وضع کرتے رہتے ہیں جھنیں وہ
ماضی میں ہدفِ تنقید بناتے تھے ۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں پی پی پی خود
بھی ایسی ہی بغاوت بھگت چکی ہے جب پی پی پی پی (پیٹریاٹک) تشکیل دی گئی تھی
اور پی پی پی کے سرکردہ راہنماؤں نے جنرل پرویز شرف کے ساتھ ساز باز کر کے
پی پی پی کی پیٹھ میں زہر آلود خنجر گھونپ دیاتھا۔اس وقت پی پی پی کی حالت
دیدنی تھی کیونکہ اس کے کئی اہم راہنما جنرل پرویز مشرف کی گاڑی پر سوار ہو
گئے تھے اور پی پی پی سے حکومت سازی کا حق چھین لیاگیاتھا۔محترمہ بے نظیر
بھٹو اس زمانے میں یو اے ای میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں اور جنرل
پر ویز مشرف کی اس دیدہ دلیری پر انھیں انتہائی دکھ ہوا تھا۔میں ان کے کرب
کا عینی شاہد ہوں کیونکہ اس کا اظہار انھوں نے ایک ملاقات میں مجھ سے کیا
تھا۔ مرکزکے ساتھ ساتھ سندھ میں بھی اس کے ممبران کو اغوا کیا گیا اور
ڈاکٹر عبدالرحیم کی سربراہی میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت تشکیل دی گئی ۔بجائے
اس کے کہ پی پی پی اس طرح کی ہارس ٹریڈنگ کی مخالفت کرتی وہ خود اس کارِ
خیر میں شریک ہو چکی ہے۔جو بات غلط ہے وہ غلط ہے چاہے اسے کوئی بھی کرے۔بات
کو اس کے اپنے لب و لہجے اور بیانیہ سے ماپا جانا چائیے نا کہ مفاداتی افعا
ل و کردار سے۔پی پی پی نے ہارس ٹریڈنگ کو جس بھونڈے اور جمہوریت کش انداز
میں سر انجام دیا ہے اس نے پی پی پی کی جمہوری جدو جہد کو داغدار کیا
ہے۔چھانگا مانگا میں خرید و فروخت کرنے والوں سے تو عوام کو کوئی توقع نہیں
ہے لیکن پی پی پی جس نے جمہوریت کیلئے بے شمار قربانیاں دی ہیں اگروہ بھی
اسی طرح کے غیر جمہوری ہتھکنڈے اپنائے گی تو عوام کس سے امیدیں وا بستہ
کریں گے ؟ |