شام میں جنگ کا نیا موڑ

شام تاریخی لحاظ سے اہمیت کا حامل اور تقریباً 22 ملین آبادی کا ملک ہے جو مسلسل خانہ جنگی کے باعث آج عالمی طاقتوں کا مرکز اور کھنڈات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ شام میں خانہ جنگی شروع ہوئے سات سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لاکھوں لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ انسانیت کی دھجیاں اڑائی گئیں مگر شام کا داخلی بحران ہے جو اب بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اس وقت شام کا مستقبل عالمی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہے۔ اسد خاندان کی طرف سے ظلم و بربریت کا سلسلہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔شامی عوام کوطویل عرصے صدر بشارالاسد سے بے روز گاری،آزادی اظہار رائے، طرز حکمرانی اور کرپشن اورریاستی جبر کی شکایت تھی۔ اس معاملے میں شدت اس وقت آئی جب2011 میں عرب سپرنگ کے نتیجے میں لاکھوں مظاہرین بشارالاسد کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔شام کے جنوبی علاقے ڈیرہ میں حکومت کے مخالف وال چاکنگ کرنے والے بچوں کو گرفتار اور زیر حراست تشدد کر کے بے دردی سے قتل کر دیا گیا، یوں یہ مظاہرے شام کے دیگر علاقوں تک پھیل گئے۔ شامی حکومت کی طرف سے ان مظاہرین کو طاقت سے کچلنے کا اعلان کیا گیا۔ فوج کی طرف سے مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال اور کریک ڈوان کیا گیا۔ جس کے ردعمل میں شامی حریت پسند عوام، کئی عسکری تنظیموں اور شامی فوج کے ایک گرو نے بشارالاسد اور اس کی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے نتیجے میں ملک شام سول وار میں تبدیل ہو گیا یوں شام سرکاری فوج اورحکومت کے ہاتھ سے نکلتا چلا گیا۔

لبنان، اسرائیل، عراق اور اردن کے ہمراہ ترکی بھی شام کا ایک ہمسایہ ملک ہے۔ شام اور ترکی کے درمیان 827 کلومیٹر لمبی سرحد ہے، جسے پار کر کے گزشتہ سال برسوں میں 25 لاکھ کے قریب شامی باشندے ترکی میں پناہ لے چکے ہیں۔ ویسے تو شام کی خانہ جنگی سے مشرق وسطیٰ کا پوار خطہ متاثر ہوا ہے، لیکن عسکری، اقتصادی لحاظ سے اس کا سب سے با اثر ترکی پر پڑا ہے۔ اس وقت شام میں جنگ کی تباہ کاریوں سے بچ کر بھاگ جانے والے شامی باشندوں کی سب سے زیادہ تعداد ترکی میں مقیم ہے اور نہ صرف اقتصادی لحاظ سے ان کا قیام ترکی کے لیے ایک بوجھ ہے بلکہ اس کی سلامتی کے لیے ایک شدید خطرہ بھی ہے کیونکہ ان مہاجرین کی صفوں میں دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ جن کی طرف سے ترکی کے شہروں کو نشانہ بنانے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔

عفرین شام کے شمال مغرب میں حلب سے 63 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ایک بہت بڑا شہر ہے۔ جس کیا آبادی ساڑھے تین لاکھ سے زائد ہے جو زیادہ تر کردوں پر مشتمل ہے۔ زیتون کی کاشت کاری میں عفرین بہت مشہور ہے۔ زیتون ہی یہا ں کے لوگوں کے گزر بسر کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے ترکی نے کرد باغیوں کے خلاف حالیہ فوجی آپریشن کا نام بھی ’’زیتون کی شاخ‘‘ رکھا ہے۔ عفرین کی سرحد ترکی سے ملتی ہے۔ ترکی ک ونہ صرف عفرین بلکہ ترکی سے ملحقہ دیگر شامی سرحدوں سے کرد باغیوں کی صورت میں ہمیشہ خطرہ رہا ہے۔ کرد دراصل مشرق وسطیٰ کے شمال میں آباد ہیں۔ کردوں کی کل تعداد 25 سے 30 ملین کے لگ بھگ ہے۔ جن میں سے 56 فیصد کرد ترکی، 16 فیصد ایران، 15 فیصد عراق اور 6 فیصد شام میں آباد ہیں۔ جبکہ لبنان، آرمینیا، کویت اور یورپ سمیت دنیا بھر کے 30 مختلف ممالک میں بھی کردوں کی کثیر تعداد قیام پذیر ہے۔ زیادہ تر کرد ترکی میں رہتے ہیں۔ جو ترکی کی آبادی کا 20 فیصد بنتے ہیں۔

حال ہی میں 20 جنوری 2018کو شام کی جنگ نے نیا موڑ اختیار کیا جب ترکی نے امریکی حمایت یافتہ کرد باغیوں کی سرکوبی کے لئے اپنی فوجیں شام میں داخل کی۔ بظاہر تر کی کو روس کی حمایت حاصل ہے لیکن امریکہ ،اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگون کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ترکی کردوں پر بمباری روکے اور اپنی تمام تر توجہ داعش پرمرکوز رکھے۔ اگست2016سے مارچ2017 تک داعش کے خلاف لڑائی میں شامی حریت پسند وں نے شام کے دو شہر جرابلس اور اعزاز پر قبضہ کر چکے ہیں اب کی بار ترکی کا ہدف شام کا شہرعفرین ہے۔ ترک خبر رسان اجنسی کے ِمطابق اب تک 700 سے زائد کرد دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جبکہ ترکی کے 7فوجی اور 13 حریت پسند اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ترک فوج کی طرف سے ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اب تک کی کارروائیوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں ، اسلحہ کے گوداموں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔تاہم ترک فوج کی طرف سے سویلین کو نقصان نہ پہنچے کے لئے ہر ممکن توجہ اورحساسیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔

امریکہ کی طرف سے ترکی کی سر حدی حدود کے قریب تیس ہزار کردوں کی فوج تشکیل دینا چاہتاہے اس کا کیا مطلب ہے؟ جو کہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔یہ ترکی کے ساتھ کھلی دشمنی ہے۔ ترک حکام نے واضح کیا ہے کہ کرد ہشت گردوں کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ امریکہ کی پشت پناہی کرد دہشت گردوں کو نہیں بچا سکے گی۔ ترکی افرین کا تیس کلومیٹر کا علاقہ محفوظ بنانا چاہتا ہے تاکہ ترکی کی سکیورٹی اور شامی علاقے کو محفوط بنا یا جا سکے۔ ہے۔ترکی کے وزیراعظم محمد بن علی یلدرم کے مطابق ترکی دس ہزار کے قریب شامی کردش گروپوں سے نجات اور کردستان ورکر پارٹی کا ہی تسلسل سمجھتا ہے جبکہ ترکی کا اگلا ہدف شامی منابج ہو گا جس پر کرد دہشت گردوں کا قبضہ ہے، ترکی اپنے جائز دفاع کے حق پر عمل کر رہا ہے اور شام کے علاقائی سا لمیت کے احترام کا عزم بھی کرتا ہے، انہی مقاصد کے لئے عفرین کے علاقے کو کلیئر کروانا اور ترکی کے مفادات کے تحفظ کے لئے دہشت گردوں کا صفایا کرنا ضروری ہے۔ ترکی کے صدررجب طیب اردگان نے بھی کہا ہے کے ترکی کی افواج شام کے شہر حلب تک پیش قدمی کر سکتی ہیں۔آپریشن شاخ زیتون کو ترک عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ TRT کے مطابق اردگان کا کہنا ہے کے اگر ضرورت پڑی تو خود چیف کمانڈر کی حیثیت سے اس آپریشن میں حصہ لوں گا اور امریکہ سے مطالبہ کیا کے وہ کرد دہشت گردوں کی سرپرستی کی پالیسی ترک کرے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کرد دہشت گردوں نے شامی فوج اور بشارالاسد سے اعلانیہ مدد طلب کی ہے کہ شامی فوج عفرین میں ترکی کے خلاف ہماری مدد کرے۔

یورپی یونین کی طرف سے ترکی کے فوجی آپریشن سے پیدا ہونے والی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے اس خدشے کااظہار کیا گیا ہے کہ اس سے شام میں امن کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں اور دہشت گردی کے خلاف کاررائیوں کو نقصان پہنچے گا۔ فرانس نے بھی اس صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کا مطالبہ کیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ترکی کے اس فوجی آپریشن سے شام میں جنگ کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے اور شام کے دیگر ہمسایہ ممالک کو جن میں اسرائیل بھی شامل ہے کو شام کی خانہ جنگی میں کودنے کا بہانہ میسر آ سکتا ہے۔ لیکن ترکی کے لیے شامی سرحد کے 30 ہزار مسلح جنگجوؤں کی موجودگی ایک ایسا خطرہ ہے جسے ترک حکومت کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کر سکتی۔ ترکی کو خدشہ ہے کہ شامی کردوں کا یہ مسلح لشکر ترک کردوں کی حمایت میں ترکی کے خلاف مسلح کارروائیاں کر سکتا ہے اور اس کا مقصد نہ صرف ترکی بلکہ عراق، شام اور ایران کے ترک علاقوں پر مشتمل ایک نئی اور آزاد مملکت کا قیام ہے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو امریکہ کی طرف سے شام میں ایک کرد انکلیو (Enclave) کے قیام کا مقصد دراصل مشرق وسطیٰ کے مزید حصے بخر ے کر کے وہاں اسرائیل کے بعد ایک اور امریکہ نواز ریاست کے قیام کی کوشش ہے تاکہ اسے ایک اڈے کے طور پر استعمال کر کے امریکہ اور اسرائیل کی مخالف قوتوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔

ترکی کے اس اقدام کے بعد شام میں جنگ ایک نئے مو ڑ میں داخل ہو گئی ہے۔ ترکی کو امریکہ،یورپی یونین اور کئی ممالک کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ ترکی نے یہ قدم امریکہ اور دیگر اتحادیوں کو اعتماد میں لئے بغیر اٹھایا ہے۔ تاہم ترکی کی طرف سے دیگر کرد علاقوں اور حلب تک پیش قدمی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ یہ آنے والا وقت ہے بتائے گا کہ آیا ترکی کا شاخ زیتون آپریشن شامی عوام پر ظلم اور بربریت کو کم کرے گا یا مزید بڑھا دئے گا۔ شام میں موجود عوام سنگین انسانی المیہ کا شکار ہیں۔اس مشکل سے نکالنے کے لئے عالمی سطح پر سنجیدہ حکمت عملی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔

Raja Arsalan Ahmad
About the Author: Raja Arsalan Ahmad Read More Articles by Raja Arsalan Ahmad: 2 Articles with 1320 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.