اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں ارشاد فرمایا :
﴿ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ، یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ، یَہَبُ
لِمَن یَّشَآءُ اِنَاثاً وّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّکُوْرَ۔ اَوْ
یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَاناً وَّاِنَاثاً ویَجْعَلُ مَنْ یَشَآءُ عَقِیْماً﴾ (سورۃ
الشوریٰ ۴۹ ۔ ۵۰) آسمانوں اور زمین کی سلطنت وبادشاہت صرف اﷲ ہی کے لئے ہے۔
وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے ۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے۔ اور جسے چاہتا
ہے بیٹے دیتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دنوں عطا کردیتا ہے۔
اور جس کو چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ اس کے ہاں نہ لڑکا پیدا ہوتا ہے اور
نہ لڑکی پیدا ہوتی ہے، لاکھ کوشش کرے مگر اولاد نہیں ہوتی۔ یہ سب کچھ اﷲ
تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے۔ جس کے لئے جو مناسب سمجھتا ہے وہ اس
کو عطا فرمادیتا ہے۔ لڑکیاں اور لڑکے دونوں اﷲ کی نعمت ہیں۔ لڑکے اور
لڑکیوں دونوں کی ضرورت ہے۔ عورتیں مرد کی محتاج ہیں اور مرد عورتوں کے
محتاج ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے دنیا میں ایسا نظام قائم کیا ہے
کہ جس میں دونوں کی ضرورت ہے اور دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔
اﷲ کی اِس حکمت اور مصلحت کی روشنی میں جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو ہم
میں سے بعض احباب ایسے نظر آئیں گے کہ جن کے یہاں لڑکے کی بڑی آرزوئیں اور
تمنائیں کی جاتی ہیں، جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اس وقت بہت خوشی کا اظہار
کیا جاتا ہے اور اگر لڑکی پیدا ہوجائے تو خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے
بلکہ بعض اوقات بچی کی پیدائش پر شوہر اپنی بیوی پر، اسی طرح گھر کے دیگر
افراد عورت پر ناراض ہوتے ہیں حالانکہ اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں ہے۔
یہ سب کچھ اﷲ کی عطا ہے۔ کسی کو ذرہ برابر بھی اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں
ہے۔ یاد رکھیں کہ لڑکیوں کو کم تر سمجھنا زمانۂ جاہلیت کے کافروں کا عمل
تھا، جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔ ﴿ان میں سے جب کسی
کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور دل ہی دل
میں گھٹنے لگتا ہے۔۔۔۔۔ خوب سن لو کہ وہ (کفار مکہ) بہت برا فیصلہ کرتے ہیں﴾۔
(سورۃ النحل ۵۸۔۵۹ ) لہذا ہمیں بیٹی کے پیدا ہونے پر بھی یقینا خوشی ومسرت
کا اظہار کرنا چاہئے۔
نبی اکرمﷺ نے بیٹیوں کی پرورش پر جتنے فضائل بیان فرمائے ہیں ، بیٹے کی
پرورش پر اس قدر بیان نہیں فرمائے ۔
لڑکیوں کی پرورش کے فضائل سے متعلق چند احادیث :
حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور
وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے جو حقوق شریعت نے
مقرر فرمائے ہیں وہ ادا کرے، ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے، ان
کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اﷲ تعالیٰ
سے ڈرتا رہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ (ترمذی
۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات)
اسی مضمون کی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے بھی مروی ہے مگر اس میں
اتنا اضافہ ہے کہ آپ ﷺ کے ارشاد فرمانے پر کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی کی
ایک بیٹی ہو (تو کیا وہ اس ثواب عظیم سے محروم رہے گا؟) آپ ﷺنے ارشاد
فرمایا: جو شخص ایک بیٹی کی اسی طرح پرورش کرے گا، اس کے لئے بھی جنت ہے ۔
(اتحاف السادۃ المتقین)
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص
پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو اور وہ اس کو صبر وتحمل
سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی )
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: جس شخص کی
دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے (اور جب شادی
کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کردے) تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح
داخل ہونگے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔ (ترمذی ۔ باب ما جاء فی
النفقہ علی البنات)
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے ایک قصہ منقول ہے ، وہ فرماتی ہیں کہ ایک خاتون
میرے پاس آئی جس کے ساتھ اس کی دو لڑکیاں تھیں، اس خاتون نے مجھ سے کچھ
سوال کیا، اس وقت میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہیں تھا ، وہ کھجور
میں نے اس عورت کو دیدی، اس اﷲ کی بندی نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور ایک
ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کے ہاتھ پر رکھ دیا، خود کچھ نہیں کھایا، حالانکہ خود
اسے بھی ضرورت تھی، اس کے بعد وہ خاتون بچیوں کو لے کر چلی گئی۔ تھوڑی دیر
کے بعد حضور اکرم ﷺ تشریف لائے تو میں نے اس خاتون کے آنے اور ایک کھجور کے
دو ٹکڑے کرکے بچیوں کو دینے کا پورا واقعہ سنایا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: جس
کو دو بچیوں کی پرورش کرنے کا موقع ملے اور وہ ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ
کرے تو وہ بچیاں اس کو جہنم سے بچانے کے لئے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی)
﴿وضاحت﴾: مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کی شریعت اسلامیہ کے مطابق
تعلیم وتربیت اور پھر ان کی شادی کرنے پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تین فضیلتیں
حاصل ہوں گی: ۱) جہنم سے چھٹکارا۔ ۲) جنت میں داخلہ۔ ۳) حضور اکرم ﷺ کے
ساتھ جنت میں ہمراہی۔
قرآن کی آیات ودیگر احادیث کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے
کہ شریعت ِاسلامیہ کے مطابق اولاد کی بہتر تعلیم وتربیت وہی کرسکتا ہے جو
اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہو، جیسا کہ پہلی حدیث میں گزرا (ان کے حقوق کی ادائیگی
کے سلسلہ میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا رہے )۔
حضور اکرم ﷺ کا طرزِ عمل: حضور اکرم ﷺکی چار بیٹیاں تھیں : حضرت فاطمہ رضی
اﷲ عنہا ، حضرت زینبرضی اﷲ عنہا ، حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا اور حضرت ام کلثوم
رضی اﷲ عنہا ۔ آپ ﷺ اپنی چاروں بیٹیوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔ آپﷺکی تین
بیٹیوں کا انتقال آپ کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا، حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا
انتقال آپ ﷺکے انتقال کے چھ ماہ بعد ہوا۔ آپ ﷺکی چاروں بیٹیاں جنت البقیع
میں مدفون ہیں۔ حضور اکرم ﷺحضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ساتھ بہت ہی شفقت اور
محبت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ نبی اکرم ﷺجب سفر میں تشریف لے جاتے تو سب
سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے ملتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے
تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے۔
چند مسائل: جہاں تک محبت کا تعلق ہے، اس کا تعلق دل سے ہے اور اس میں انسان
کو اختیار نہیں ہے، اس لئے اس میں انسان برابری کرنے کا مکلف نہیں ہے۔ یعنی
کسی ایک بچہ یا بچی سے محبت زیادہ کرسکتا ہے۔ مگر اس محبت کا بہت زیادہ
اظہار کرنا کہ جس سے دوسرے بچوں کو احساس ہو ، منع ہے۔
اولاد کو ہدیہ اور تحفہ دینے میں برابری ضروری ہے۔ لہذا ماں باپ اپنی زندگی
میں اولاد کے درمیان اگر پیسے یا کپڑا یا کھانے پینے کی کوئی چیز تقسیم
کریں تو اس میں برابری ضروری ہے۔ اور لڑکی کو بھی اتنا ہی دیں جتنا لڑکے کو
دیں۔ شریعت کا یہ حکم کہ لڑکی کا لڑکے کے مقابلے میں آدھا حصہ ہے، یہ حکم
باپ کے انتقال کے بعد اس کی میراث میں ہے۔ زندگی کا قاعدہ یہ ہے کہ لڑکی
اور لڑکے دونوں کو برابر دیا جائے۔
اگر ماں باپ کو ضرورت کے موقع پر اولاد میں کسی ایک پر کچھ زیادہ خرچ کرنا
پڑے، تو کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً بیماری، تعلیم اور اسی طرح کوئی دوسری
ضرورت ہو تو خرچ کرنے میں کمی بیشی کرنے میں کوئی گناہ اور پکڑ نہیں ہے۔
لہذا حسب ضرورت کمی بیشی ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
بیٹی کی شادی کے بعد بھی بیٹی کا حق میراث ختم نہیں ہوتا۔ یعنی باپ کے
انتقال کے بعد وہ بھی باپ کی جائیداد میں شریک رہتی ہے۔
ان دنوں ہماری بیٹیاں غیر محفوظ ہوتی جارہی ہیں، لہذا ہر شخص کی ذمہ داری
ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو نامحرم مردوں کے اختلاط سے حتی الامکان بچائے۔ اگر
ہماری بیٹیوں کو گھر سے باہر نکلنا ہی ہو تو پر دہ کے ساتھ نکلیں، نیز تنگ
اور بہت زیادہ زیب وزینت والے لباس پہن کر باہر نہ نکلیں، بلکہ اسلامی مہذب
لباس استعمال کریں۔ وقتاً فوقتاً ان کو نگاہیں نیچی رکھنے کی تلقین دیتے
رہیں۔ بیٹیوں کے انٹرنیٹ وموبائل کے استعمال کی نگرانی رکھیں۔ اپنی بیٹیوں
کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی ضرور دلائیں مگر ان کو آزاد نہ
چھوڑدیں کہ وہ نوجوانی کے نشہ میں غلط راستہ اختیار کرلیں جس پر پچھتاوہ کے
علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہو، نیز وہ دنیا وآخرت کی زندگی میں ناکام ہوجائیں
اور قیامت کے دن آپ یعنی والدین سے بھی صحیح تربیت نہ کرنے کا سوال کیا
جائے ۔ روزانہ ہی سینکڑوں عصمت دری کے واقعات اخبارات کی سرخیاں بن رہے
ہیں، مگر اس سنگین مسئلہ کے حل کے لئے صرف فروعی باتوں کی طرف توجہ دی
جارہی ہے جس سے مسئلہ کا حل قیامت تک نہیں ہوگا، حالانکہ اس کا بنیادی حل
وہی ہے جو اسلامی تعلیمات میں ملتا ہے جس کو اختصار کے ساتھ اوپر ذکر کیا
گیا، نیز زانیوں کے لئے اسلام نے جو سزا طے کی ہے وہی متعین ہونی چاہئے،
اسی کے ذریعہ سے اس کا سد باب ممکن ہے۔ |