اِن دِنوں مُلک میں متوقعہ عام انتخابات سے قبل3 مارچ
2018ء کو ہو نے والے سینیٹ الیکشن کے چرچے عام ہیں ن لیگ، پی پی پی ، پی ٹی
آئی اور ایم کیو ایم کے نئے پرا نے( اور آنے والے دِنوں میں پیداہونے والے
مزید )دھڑے اپنے لحاظ سے متحرک ہیں اِس صُورتِ حال میں مُلک کی ہر سیاسی
اور مذہبی جماعت کسی نہ کسی طرح اِس میں حصہ لینے اور اپنے اُمیدوار کو
منتخب کرکے سینیٹ کے الیکشن میں کامیاب ہو نے کے لئے بیتا ب دِکھا ئی دیتی
ہے ہمارے یہاں خاص طور پر ایسا اس لئے بھی ہوتا ہے اورہوتاآیا ہے کہ برسوں
سے عام اور قوی خیال یہی جاتا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ہی لگ پتہ جاتا ہے
کہ اگلے متوقعہ جنرل الیکشن میں کونسی سی جماعت وفاق اور صوبوں میں اپنی
حکومت بنا نے میں کا میاب ہوگی سو اِس بنیاد پر اِس مرتبہ بھی مُلک میں
تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے تن من دھن اور ایڑی چوٹی کا زور لگا کر
سینیٹ انتخابات کے لئے اپنے اُمید واروں کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرادیئے
ہیں اور بیشتر سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنی جیت کو یقینی بنا نے کے لئے
ہارس ٹریٹنگ کا بازاربھی گرم کی ہوئی ہیں چارسو جوڑتوڑ اور اُمیدواروں کی
خریدکا عمل جاری ہے کچرا سونا اور سونا ہیرے میں بدل گیاہے خریدار منہ
مانگی قیمت دے کر کچرے کو سونا اور سونے کو ہیرا سمجھ کر خریدرہے ہیں۔
آج جیسا کہ یہ بات بھی سیاسی حلقوں میں گرم ہے کہ مسلم لیگ ن 19سال بعد
اپنا چیئر مین سینیٹ لا سکتی ہے جس کے لئے یہ ظاہر و باطن طور پر پہلے کی
نسبت ہارس ٹریٹنگ میں زیادہ متحرک ہے اگر بالفرض ن لیگ سینیٹ الیکشن میں وا
ضح اکثریت حاصل کرکے جیت بھی جاتی ہے اور چیئر مین سینیٹ ن لیگ کا ہی بن
جاتا ہے تو پھر بھی یہ کو ئی ضروری نہیں ہے کہ ن لیگ اپنی اگلی اور مجموعی
طو ر پراپنی چوتھی حکومتی مدت بہتر طریقے سے گزارپا ئے گی اِس کی حکومت کو
پچھلی تین حکومتوں سے زیادہ ڈف ٹائم اپوزیشن دی گی اور ن لیگ کی حکومت کو
اپنی چوتھی حکومت میں روز اول ہی سے ایسی سخت مشکلات کا سا منا رہے گا جس
کا یہ گمان بھی نہیں کرسکے گی ۔
جبکہ پچھلے دِنوں الیکشن کمیشن کے باہر میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے سندھ حکومت
کے صوبا ئی وزیرصنعت منظور حُسین وسان نے یہ انکشاف بھی کردیاہے کہ 3مارچ
سکون سے گزرگیاتو مُلک میں عام انتخابات بھی آرام وسکون سے ہو جا ئیں گے
اور تو اور مسٹر خواب یعنی کہ منظور حُسین وسان نے اپنے مخصوص انداز سے یہ
پیشگو ئی بھی کردی ہے کہ رضاربانی دوبارہ چیئرمین سینیٹ ہوں گے عام
انتخابات کے بعد مُلک میں مخلوط اتحادی حکومت بنے گی(کچھ بھی ہے سینیٹ میں
چاہیئے جس جماعت کا بھی چیئر مین آئے مگر کب ایسا نہیں ہوا ہے جی کہ مُلکِ
عظیم پاکستان میں ہر الیکشن کے بعد اتحادی یامخلوط حکومت نہ بنی ہو یہ
پریکٹس توپچھلے کئی سالوں سے جاری ہے یہ تو کو ئی نئی بات نہ ہو ئی کہ عام
انتخابات کے بعد مُلک میں اتحادی حکومت بنے گی بہرحال) مسٹر خواب نے انتہا
ئی مدبرانہ اور تدبرانہ انداز سے اپنی پیشگوئی میں یہ بات بھی کہہ کر یقینا
ن لیگ اور پی ٹی آئی والو ں کو بھی حیران اور پریشان ضرور کردیاہوگا کہ ’’
ہوسکتاہے کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے بہت سارے لوگ پیپلز پارٹی میں آجا ئیں‘‘
چونکہ منظور حُسین وسان المعروف مسٹر خواب یا خوا بوکا یہ کہنا ہے کہ
’’آئندہ الیکشن کے نتا ئج کے بعد قومی اور اتحادی حکومت تشکیل پا ئے گی
دراصل موصوف یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگلے انتخابات میں سب سے زیادہ اکثریت
پی پی پی کو حاصل ہوگی جو وفاق اور صوبوں میں اپنی اتحادی حکومت بنا نے گی
چلیں دیکھتے ہیں کہ مسٹروسان کی پیشگوئی کہاں تک درست ثابت ہوتی ہے اورکتنی
غلط اِس کا انتظار ہم بھی کررہے ہیں اور آپ بھی کریں مگر ایک بات ہے اول
میں تو یہ بات سمجھیں کہ متوقعہ انتخابات ہوئے تو ایسا ممکن ہوگا ورنہ
سِوائے مسٹر خواب کے بے تعبیر خواب کے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
تاہم اِدھر انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی سندھ
سے سینیٹ انتخابات کے لئے 12نشتوں پر اپنے اِس دعوے کے ساتھ کہ پی پی پی کا
کو ئی رکن بکنے والانہیں ہے ہم نے رضاربانی،مولابخش چانڈیوِبیرسٹرمرتضیٰ
وہاب،ایازمہر،امام الدین شوقین سمیت دیگر اپنے جیالوں اور جیالیوں کوصرف
اور صرف جئے بھٹو کے نعرے پرٹکٹ دیئے ہیں اور اپنے 20اُمیدواروں کے کاغذات
نامزدگی الیکشن کمیشن کے دفتر میں جمع کرادیئے ہیں قوم حوصلہ رکھے جس جماعت
کا بھی چئیر مین سینیٹ منتخب ہوا اِس پر عوامی مسائل حل کرنے کی بڑی بھاری
ذمہ داریاں عائد ہوں گیں کیو نکہ اَب عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوچکاہے وہ
جا نتے ہیں کہ اُن کی مُلکی ترقی و خوشحالی اور اپنے مسائل کے بروقت حل کے
لئے کس جماعت کے اُمیدوار کو اگلے متوقعہ انتخابات میں ووٹ دینے ہیں اور
کِسے ووٹ نہیں دینے ہیں تین مار چ کوہونے والے سینیٹ انتخابات اور اِس کے
نتائج سمیت اگلے متوقعہ عام انتخابات بھی سیاستدانوں اور عوا م دونوں کے
لئے سخت چیلنج ثابت ہوں گے۔
اَب جبکہ سینیٹ اور عام انتخابات سر پر ہیں تو ایسے میں سندھ کی شہری
علاقوں سے تعلق رکھنے والی ایم کیو ایم پاکستان جس کے اِن دِنوں سربراہ
ڈاکٹر فاروق ستار ہیں اِن کے اِن دِنوں اپنی ہی رابطہ کمیٹی کے اراکین سے
سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے ٹکٹ دیئے جا نے پر سخت اختلافات پیدا ہوگئے
ہیں آج جس کی وجہ سے ایم کیو ایم پاکستان میں واضح طور پر دودھڑے نظر آرہے
ہیں اِن سطورکے رقم کرنے تک فاروق ستاراور رابطہ کمیٹی میں تنازع طے نہیں
ہوپایاہے اِن کی اختلافات کی کہانی کیا ہے ؟
فی الحال اِس کالم میں اِس کا احاطہ تو نہیں کیا جاسکتا ہے مگر اتنا ہی کہہ
دینا کا فی ہے کہ ایم کیو ایم کی دھڑے بندیوں سے ایم کیو ایم کے نظریاتی
ووٹرزبھی سخت ذہنی اذیت کے شکار ہوگئے ہیں ایسے میں جب کہ سینیٹ اور متوقعہ
عام انتخابات سے چند ماہ قبل ایم کیو ایم پاکستان کا سیاسی یاذاتی طور پر
دھڑے بند ی میں بٹ جانا جہاں دونوں اور دیگرگروپس کی سیاسی موت واقع ہونے
کے مترادف ہے تو وہیں اِنکی نومولود گروپ بندی کا فائدہ اُن سیاسی گدوں اور
پینترے بازوں کو ہوگا جو برسوں سے اِس تاک میں تھے کہ کب ایم کیو ایم سیاسی
موت کے منہ میں جا ئے تو یہ شہرکراچی پر قا بض ہوکراپنے جھنڈے گاڑیں اگر
ایسا ہے تو پھر اِس میں بھی کو ئی دورائے نہیں ہے کہ آج ایم کیو ایم اِدھر
اُدھر کی اپنی گروپس بندیوں اور ایک دوسرے کی کھینچا نی تا نی کی وجہ سے
کراچی کے جن علاقوں میں ایم کیو ایم ہے وہ علاقے اپنی ساخت اور نوعیت کے
اعتبار سے پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور سیوریج جیسے مسائل سمیت ٹوٹی
پھوٹی سڑکوں اور گندگی و غلاظت کے انبار میں تبدیل ہو گئے ہیں جبکہ جن
علاقوں میں آج کسی بھی قسم کا ایم کیو ایم کا اثرو رسوخ نہیں ہے یاکم ہے یا
جہاں پی پی پی جیسی کسی دوسری جماعت کے ووٹرز ہیں اُن علاقوں( مثال کے طور
منظور کالونی اور محمودہ آبادکی گلی کوچے اچھی اور کشادہ سڑکوں سے مزین ہیں
اور اِن علاقوں میں نہ سیوریج کا کو ئی مسئلہ ہے اور نہ ہی اِن علاقوں میں
کمینوں کو پینے کے صاف پا نی کے حصول) میں کسی قسم کی مشکلات درپیش ہیں
صفائی و ستھرا ئی کا جابجا انتظام ہے ہر طرف صفا ئی دکھا ئی دیتی ہے مگر
معاف کیجئے گا آج جن علاقوں میں کسی بھی شکل میں خواہ مہاجر قومی موومنٹ
پاکستان (حقیقی) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان(ستار یالندن گروپس ) یا پاک سر
زمین پاکستان والے ہیں اِ ن کی آپس کی لڑائیوں اور کھینچاتا نی اور سیاسی
اور ذاتی چپقلش اور کدورتوں کی وجہ سے اِن کے علاقوں کے ووٹرز ہر قسم کی
بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور پانی و سیوریج اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں جیسے
مسئلے اور مسائل سے دوچار ہیں اور اِس پر مہاجروں کے تمام گروپس کا یہ دعویٰ
ہے کہ یہ سب عوامی مسائل کا حل قومی اور دینی فریضہ سمجھ کراداکررہے ہیں
اوراِن کے دل عوام کے دل کی دھڑکنوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں تو یہ سوا ئے مضحکہ
خیزی اور طنزاََ ہنسی کے کچھ نہیں ہے لازمی ہے کہ سینیٹ اور عام انتخابا ت
سے قبل ایم کیو ایم کے تما م گروپس (سلسلہ الطافیہ ، سلسلہ آفاقیہ، سلسلہ
کمالیہ ، سلسلہ ستاریہ ، سلسلہ عامریہ اور مزیدنئے آنے والے متوقعہ سلسلوں
کے پیر صاحبان) اپنے ووٹرز کی بقا کے لئے متحدہوجائیں تو یہ شہری علاقوں سے
تعلق رکھنے والے اپنے ووٹرز کی خدمات درست طریقوں سے کرپائیں گے ورنہ تو
اگلے متوقعہ انتخابات کے بعداپنے وجود اور اپنے ووٹرز کو قصہء پارینہ خود
بنا نے کے یہ خود ہی ذمہ دار ہوں گے۔ (ختم شُد) |