دنیا بھر میں انٹر نیٹ پر بڑے بڑے رہنماﺅں
کا کچا چٹھا کھول کر شہرت پانے والے والے وکی لیکس ویب سائٹ کے سربراہ
جولین اسانجے کو بالآخر سچ بولنے کے جرم میں برطانیہ میں حراست میں لے لیا
گیا ہے جس کے بعد تما م انکشافات کے بعد انتقامی بڑھکیں لگانے والے انکل
سام کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا جانے لگا ہے کہ کیا امریکہ سفارتی کاری کی
دنیا میں بھونچال برپا کرنے والوں کیخلاف قانونی چارجوئی اور جولین اسانجے
کیخلاف مقدمہ چلا سکتا ہے یا نہیں؟ اور انکشافات کرنے والے اس کے دیگر
ساتھیوں کو کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا؟خصوصا امریکی قانونی ماہرین ان
پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا استغاثہ مروجہ قوانین کے تحت انہیں کوئی
سزا دلوانے میں کامیاب ہوسکتا ہے یا نہیں؟امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو
وکی لیکس کے انکشافات پر اپنا رد عمل ظاہر کرنے کے فوری بعد عالمی راہنماوں
سے ملاقات کا مشکل مرحلہ درپیش ہے جن سے متعلق امریکی سفارت کاروں کی بات
چیت کی تفصیلات وکی لیکس نے عام کی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ
وہ تمام ملکوں کے وزرائے خارجہ کو یقین دلا رہی ہیں کہ اس سے امریکی
سفارتکاری میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی،لیکن امریکی انتظامیہ یہ کوشش ضرور
کر رہی ہے کہ حساس معلومات فاش کرنے والے امریکی خفیہ اہلکار بریڈلی میننگ
جسے رواں سال مئی میں گرفتار کیا گیا تھا کو رہائی نہ مل سکے تاہم ابھی تک
یہ واضح نہیں ہے کہ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کے ساتھ امریکی انتطامیہ
کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انکشافات کے بعد جولین آسانجے کی روپوشی کے دوران جہاں عالمی تحقیقاتی
ادارے انٹر پول نے انہیں اپنے سب سے مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کیا
وہیں سویڈن کی انتظامیہ کو ان کی تلاش جنسی ہراس کے ایک مقدمے میں ان کی
گرفتاری یاد آگئی جبکہ امریکہ میں وہائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری رابرٹ گبز کے
مطابق ان دستاویز کی فراہمی اور اشاعت کے معاملے کی ایک مجرمانہ تحقیق جاری
رہیں لیکن جولین پر لگائے متذکرہ الزامات تو تاحال ثابت نہیں ہو سکے البتہ
اتنا ضرور سامنے آگیا ہے کہ سچ بولنے کی پاداش میں گرفتار ہونے والے وکی
لیکس کے سربراہ2009ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل میڈیا ایوارڈ اور2008ءمیں
اکانومنسٹ انڈیکس آن سنسر شپ ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ 2010میں وہ سیم ایڈمز
ایوارڈ کے فرنٹ رنر رہے جبکہ رواں سال ستمبر میں مشہور برطانوی میگزین نیو
اسئیس مین نے جولین اینج کو دنیا کی 50بااثر شخصیات کی فہرست میں 23ویں
پوزیشن دی علاوہ ازیں 12نومبر کو ٹائم میگزین کی پرسن آف دی ایئر کی پولنگ
میں بھی جولین سرفہرست رہے۔ برطانوی اخبار گارڈین نے ایک مرتبہ کینیا کے
سابق صدر ڈینیل اہراپ کی کرپشن سے متعلق رپورٹ فرنٹ پیج پر چھاپی تھی، جس
کا اہم ذریعہ وکی لیکس ہی تھا۔
امریکہ جولین آسانجے کے خلاف کیا الزام عائد کر سکتا ہے؟ ایسپیاناج یعنی
خفیہ دستاویز عام کرنے کا الزام ؟ لیکن امریکہ کے سو سال پہلے لکھے گئے
ایسپیاناج ایکٹ کو اب تک جدید اور الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے کسی امتحان سے
نہیں گزرنا پڑا تھا ۔ اگر یہی فرد جرم عائد کی جاتی ہے تو امریکی قانونی
ماہرین کا کہنا ہے کہ عوام کا جاننے کا حق جولین آسانجے کا بہترین دفاع
ثابت ہوگا۔ ثبوت تو ڈھائی لاکھ دستاویزات کی صورت موجود ہیں لیکن ایسپیاناج
ایکٹ کے تحت امریکی حکومت کو یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ ان دستاویزات کے
عام ہونے سے امریکہ کی قومی سلامتی کو کیسے نقصان پہنچا، جس سے کچھ مزید
رازوں سے پردہ اٹھنے کا خدشہ ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق سب سے خطرناک
دستاویزات وہی ہیں جن کے عام ہونے سے امریکی حکومت کو نقصان پہنچا اور انہی
کے بارے میں مقدمہ کے دوران یہ بتانا پڑے گا کہ یہ دستاویز کس وجہ سے نقصان
دہ ہیں، جس سے مزید معلومات فراہم کرنی ہونگی۔دوسری جانب یہ مشکل بھی درپیش
ہے کہ جولین آسانجے نہ تو امریکی شہری ہیں نہ ہی امریکی زمین پر موجود اور
اسے برطانوی حراست سے اپنی حوالگی میں لینا بھی قانونی پیچیدگیوں سے بھر
پور مرحلہ ہوگا۔
رہ گیا آسانجے پر سویڈن میں جنسی زیادتی کا الزام تو اس مقدمے میں اب تک ان
پر نہ تو فرد جرم عائد کی گئی ہے اور نہ ہی ان کی گرفتاری کے لئے سویڈش
پولیس کے جاری کردہ وارنٹس میں زیادتی الزامات کی زیادہ سے زیادہ سزا درج
ہیں۔ برطانوی پولیس نے آسانجے کے برطانیہ میں مقیم ہونے کے باعث سویڈش حکام
سے یہ کمی دور کرنے کے لئے کہا تھا لیکن اس پر عمل نہ ہوسکا اور اب اگر
امریکہ نئے عالمی تنازع کی بنیاد رکھنے کے الزام میں حراست میں لیے گئے
جولین آسانجے کو اپنی ساکھ اور مزید رازوں کو فاش ہونے سے بچانے کے لیے
امریکہ اس الزام کے تحت کاروائی کا سوچتا ہے تو خود اس کے اپنے ہی قانونی
ماہرین کے مطابق عدالت سے پہلی ہی پیشی پر ضمانت کا طمانچہ حکام کے منہ پر
پڑنے کا احتمال بہر حال موجود ہے۔ ویسے بھی جنسی زیادتی الزامات کی بات اس
قدر پرانی ہو چکی ہے کہ گواہوں اور شاید خود مدعی کو پیروی پر راضی کرنا
بھی ممکن نہ ہو لہٰذا یہاں بھی انکل سام کو مشکلات ہی مشکلات ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ عالمی مبصرین کی بڑی تعداد اس سارے کھیل کے پس پردہ
خود امریکہ ہی کو ملوث قرار دے رہے ہیں امریکہ یقینی طور پر اس الزام سے
خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کا واحد راستہ وکی لیکس
سربراہ جولین آسانجے کو کڑی سے کڑی سزا کے سوا ہی ہے لیکن شومئی قسمت کہ اس
سلسلہ میں امریکی حکام کا ستارہ گردش ہیں میں دکھائی دے رہا ہے اور لگتا ہے
کہ دہشتگردی کی نام نہاد جنگ کی طرح آنے والے دنوں میں امریکہ کے لیے اس
انکشافاتی جنگ سے پیچھا چھڑانا بھی ناممکن ہوجائے گا کہ جولین آسانجے
کیخلاف کاروائی کا عزم ظاہر کر کے انکل سام نے ایک طرح سے ایک نیا درد اپنے
سر لے لیا ہے۔ ویسے بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ آسانجے کی گرفتاری کے
بعد ویب سائٹ انکشافات کا سلسلہ روک دے گی۔ |