وکی لیکس پر ڈھائی لاکھ خفیہ
دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے بعد کہنے والوں نے کہا کہ وکی لیکس کے
ہاتھوں امریکی حکومت کی خفیہ دستاویزات کی اشاعت سفارت کاری کا نائن الیون
ہے،کسی نے کہا کہ یہ مسلمان ممالک کو آپس میں لڑانے کی سی آئی اے اور
یہودیوں کی سازش ہے،کسی نے کہا کہ وکی لیکس نے پاکستانی
حکمرانوں،سیاستدانوں اور مذہبی جماعتوں کے سربراہوں کو ننگا کرکے بے نقاب
کردیا،تو کسی نے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا،اب یہ جھوٹ کا پلندہ ہے یا
یہودیوں اور سی آئی اے کی سازش یا پھر سفارت کاری کا نائن الیون،حقیقت کیا
ہے جلد آشکارہ ہوہی جائے گی، رہی بات پاکستانی حکمرانوں، سیاستدانوں اور
مذہبی جماعتوں کے سربراہوں کو ننگا کرکے بے نقاب کرنے کی تو ہمیں اِس بات
سے قطعاً اتقاق نہیں، کیونکہ ننگا اور بے نقاب تو اُسے کیا جاتا ہے جس نے
کپڑے پہنے ہوں اور جن کے قول و فعل اور کردار و عمل سے قوم واقف نہ ہو،
جبکہ ہمارے حکمرانوں،سیاستدانوں اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کا کردار و
عمل اور قول و فعل کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، کرسی اقتدار تک پہنچنے کیلئے یہ
کیسے کیسے جتن کرتے ہیں،کیا کیا حربے استعمال کرتے ہیں اور کیسی کیسی اوچھی
حرکتیں کرتے ہیں،وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،سیاسی جوڑ توڑ،وعدہ خلافیاں،بار
بار اپنے بیانات سے مکرنا اور قوم کو دھوکہ دینا اِن کا وطیرہ اور امتیازی
وصف ہے،لہٰذا یہ کہنا کہ وکی لیکس نے سب کو ننگا اور بے نقاب کردیا،درست
نہیں، کیونکہ ننگوں کو کوئی اور کیا ننگا کرسکتا ہے،ہاں رومان پسند طبیعتوں
کو ممکن ہے اِن انکشافات سے کچھ حیرت ضرور ہوئی ہو،مگر حقیقت یہ ہے کہ سب
باتیں اہل نظر کیلئے نئی نہیں ہیں،اصل معاملہ یہ ہے کہ ہماری
قیادت،سیاستدان اور مذہبی وفوجی قیادت وکی لیکس کے حمام میں اصل لباس ِ
فطرت میں نظر آتے ہیں،سب کے سب امریکی غلامی کے بازار میں ایک لائن میں
کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور امریکی حضور میں،سب کی ”جی“حضوری ایک جیسی
دکھائی دیتی ہے ۔
دیکھا جائے تو وکی لیکس نے امریکہ کا منافقانہ باطن اور اصل چہرہ ہی دنیا
کے سامنے ہی ظاہر نہیں کیا،بلکہ ہمارے سیاسی و مذہبی کرداروں کی منافقت اور
دوغلاپن بھی پوری طرح عیاں کردیا ہے،اِس موقع پر لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس
عظمت سعید کے تبصرہ بہت ہی اہم اور ہر محب وطن پاکستانی کے دل کی آواز
ہیں،جسٹس عظمت سعید نے پاکستان میں وکی لیکس کے خلاف پابندی لگانے کی
درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرتے ہوئے فرمایا کہ” چند افراد کے
کپڑے اترنے سے پوری قوم کو فائدہ ہو گا،سب کو سچ کو سامنا کرنا
چاہیے،پابندی لگوا کر عوام کو کیوں اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔“دراصل اصل
معاملہ ہی ہمارے حکمرانوں،سیاستدانوں اور مذہبی قائدین کی وکی لیکس کے
آئینے میں ظاہر ہونے والی وہ شرمناک کریہہ تصویر ہے،جس کا ہر کردار آج اپنے
ساتھیوں اور قوم سے شرمندگی کے باعث آنکھیں چرانے کے ساتھ وضاحتیں در
وضاحتیں اور طرح طرح کی تاویلیں پیش کررہا ہے،ایک طرف امریکی وزیر خارجہ
ہلیری کلنٹن صدر زرداری کو فون کرکے رپورٹ کے باعث پاکستانی لیڈروں کو
ہونیوالی شرمندگی پر افسوس کا اظہار کررہی ہیں اور یہ یقین دلارہی ہیں کہ
مستقبل میں ایسی رپورٹس کے افشا نہ ہونے کو یقینی بنایا جائے گا،تو دوسری
طرف پاکستانی لیڈرز کو امریکی سفیر بھی ملاقاتیں کرکے حوصلہ دے رہے ہیں،
واضح رہے کہ امریکہ کی طرف نے وکی لیکس رپورٹس کی تردید نہیں کی گئی،بلکہ
انکے افشا ہونے پر معذرت کی گئی ہے،یہ طرز عمل اِس بات کا عکاس ہے کہ یہ
رپورٹس درست اور مبنی برحقائق ہیں،جہاں وکی لیکس رپورٹ بعض اہم شخصیات کی
بدنامی کا باعث بنی ہیں،وہیں اِس میں کچھ ایسے پہلو بھی سامنے آئے
ہیں،جنہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،مثال کے طور پر امریکی ایلچی
رچرڈ ہالبروک کا بھارتی سیکرٹری خارجہ کو ایک بریفنگ کے دوران یہ کہنا کہ
امریکہ افغانستان میں بھارتی منصوبوں کا حامی ہے،امریکہ کی منافقانہ پالیسی
کا عکاس اور پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ ہے.
وہیں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بھارت نے بلوچ علیحدگی پسندوں کی تربیت
کیلئے 9 تربیتی کیمپ قائم کر رکھے ہیں،جس کیلئے روس اور متحدہ عرب امارات
مدد کر رہے ہیں،پاکستان کے حوالے سے یہ انکشافات بہت ہی اہم ہیں،وکی لیکس
پر موجود تقریباً ڈھائی لاکھ خفیہ امریکی دستاویزات میں 4800 دستاویزات صرف
پاکستان سے متعلق ہیں،یہ وہ مراسلات ہیں جو امریکی سفارت کار اپنی
ملاقاتوں،سرگرمیوں اور رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں اپنی حکومت کو
ارسال کرتے رہتے ہیں،اِن رپورٹس میں صدر زرداری،وزیراعظم گیلانی،میاں نواز
شریف،جنرل کیانی،جنرل شجاع پاشا، چوہدری شجاعت حسین،مولانا فضل الرحمن اور
دیگر بہت سے سیاسی اور غیرسیاسی کرداروں کے بارے میں انکشافات کئے گئے
ہیں،ملکی مفادات کے حوالے سے دیکھا جائے تو جنرل کیانی اور نواز شریف کے
سوا ہر چھوٹا بڑا کردار ”اِن دی لائن آف فائر“ ہے، سب سے زیادہ ملبہ صدر
پاکستان پر گرا ہے،جن کی ذات کو وکی لیکس کے مطابق شاہ عبداللہ نے پاکستان
کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ جب سر ہی گلا سڑا ہو تو
اثر سارے جسم پر پڑتا ہے،ولی عہد ابوظہبی نے زرداری کو بدعنوان اور نواز
شریف کو خطرناک قرار دیا،برطانیہ نے امریکہ کو بتایا کہ زرداری فہم و فراست
سے عاری ہیں،زرداری صاحب کے بارے میں رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انکی
پارٹی کو اقتدار ملا تو شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکہ کی وجہ سے
اقتدار میں آئے،امریکہ کے مشورے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے،اسی
رپورٹ میں رحمان ملک کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا کو سازشی
قرار دیا گیا،ایک تازہ ترین انکشاف کے مطابق سابق امریکی سفیر این ڈبلیو
پیٹرسن نے جنوری 2008ءمیں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف سے ملاقات
کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کی بحالی کی مخالفت کی
تھی،امریکی سفیر کا موقف تھا کہ کچھ معزول جج بحال ہوسکتے ہیں لیکن چیف
جسٹس بحال نہیں ہوسکتے ۔
وکی لیکس کی طرف سے جاریکردہ خفیہ دستاویزات کی تفصیلات میں یہ دعویٰ بھی
کیا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ملک میں سیاسی بحران حل
کرنے کیلئے صدر آصف زرداری کو عہدے سے ہٹانے اور جلاوطن کرنے پر غور کیا
تھا،اس سلسلہ میں سابق امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کے حوالے سے کہا گیا
ہے کہ جنرل کیانی صدر زرداری کو جتنا ناپسند کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ
انہیں نوازشریف کے بارے میں بداعتمادی ہے،ان خفیہ دستاویزات کے مطابق معزول
ججوں کی بحالی کیلئے میاں نوازشریف کی تحریک کے دوران جنرل کیانی نے امریکی
سفیر سے مسلسل چار ملاقاتیں کیں اور اشارہ دیا کہ اگر صورتحال مزید خراب
ہوئی تو انہیں مجبوراً صدر زرداری کو مستعفی ہونے پر قائل کرنا پڑیگا،انہوں
نے صدر زرداری کی جگہ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کو صدر کے منصب پر
فائز کرنے اور سید یوسف رضا گیلانی کو بطور وزیراعظم برقرار رکھنے کا عندیہ
بھی دیا تھا،جبکہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے نومبر2007ءمیں
امریکی سفیر کو اپنے عشائیہ میں مدعو کرکے اُن پر زور دیا تھا کہ امریکہ
انہیں وزیراعظم بننے کیلئے مدد دے،وکی لیکس کے انکشافات کے مطابق پاکستانی
فوج نے کمانڈ الیون کور کے لیفٹیننٹ جنرل مسعود اسلم کی درخواست پر امریکی
خصوصی فورسز کی تعیناتی کی منظوری دی تھی جبکہ 2008ءمیں وزیر داخلہ رحمان
ملک نے ایک اجلاس میں باجوڑ آپریشن کی تکمیل تک ڈرون حملے روکنے کی تجویز
پیش کی،جس پر وزیراعظم گیلانی نے اٹل انداز میں جواب دیا کہ ”یہ حملے جاری
رہتے ہیں تو بھی مجھے کوئی پرواہ نہیں،ہم قومی اسمبلی میں احتجاج کرینگے
اور پھر اسے نظرانداز کردینگے، ہمارے وزیراعظم امریکی سفیر سے کہتے ہیں کہ
ہم اس کے خلاف اپنی پارلیمنٹ سے نمائشی قرارداد پاس کروا کر خاموش ہوجائیں
گے اور آپ لوگ کرتے رہیں جو کرنا ہے،ہمارے صدر مملکت سی آئی اے کے ایک
معمولی اہلکار کو ڈرون حملوں پر شاباش دیتے ہوئے کہتے ہیں کہCollateral
Damage کی ہمیں کوئی پروا نہیں،حکومتی حکام کے یہ رسمی ردعمل وکی لیکس کے
انکشافات کی تصدیق کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،جبکہ خود امریکی حکام بھی یہی
دعویٰ کرتے ہیں کہ ڈرون حملے پاکستانی سرزمین سے حکومت پاکستان کی منظوری
سے ہورہے ہیں،ہاں پاکستان سے متعلق ایک حوصلہ افزا رپورٹ یہ ہے کہ پاکستان
نے 2007 ءمیں جوہری ایندھن میں کمی اور افزودہ یورینیم امریکا کو دینے اور
2009 ءمیں امریکا کو ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا
تھا،ذوالفقار علی بھٹو،ضیاالحق،بے نظیر بھٹو،نوازشریف حتیٰ کہ پرویز مشرف
بھی امریکی خوا ہشات کے بر خلاف پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام پر
کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہوئے،وکی لیکس کے مطابق ان تنصیبات کے معائنے
کی اجازت تو آصف زرداری صاحب نے بھی نہیں دی،یقیناً یہ بات قوم کیلئے
اطمینان کا باعث ہے ۔
وکی لیکس کے انکشافات میں جس طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور مبینہ دہشت
گردی کے خاتمہ کی جنگ میں امریکی ڈرون حملوں کی اجازت سمیت ہمارے حکمرانوں
کی تابعداری کو فوکس کیا گیا ہے اور ہماری عزت مآب سیاسی حکومتی شخصیات کی
حرص و ہوس کو بے نقاب کیا گیا ہے،اُس پر پوری قوم سخت تشویش میں مبتلا
ہے،قوم کو بجا طور پر یہ فکر لاحق ہے کہ اپنے اقتدار کے تحفظ یا اپنے
اقتدار کی خاطر اسکی نمائندہ سیاسی شخصیات امریکی تابعداری کی جس انتہا تک
پہنچتی رہی ہیں،اُن سے ملکی اور قومی مفادات کے تحفظ کی کیسے توقع کی
جاسکتی ہے،کیا ایک غیرت مند، آزاد،خودمختار اور ایٹمی قوت کے حامل پاکستان
کی قیادت کیلئے یہ ڈوب مرنے کا مقام نہیں۔؟وکی لیکس میں پاکستان سے متعلق
جو حقائق سامنے آئے ہیں،ان میں پاکستان سے متعلق کوئی نئی بات
نہیں،پاکستانی سیاست و سکیورٹی سے دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کو علم تھا کہ
موجودہ سیاسی سیٹ اپ کی بساط امریکہ نے بچھائی تھی،یہ حقیقت سب اہل صحافت و
سیاست پر عیاں تھی کہ آصف علی زرداری ملکی اسٹیبلشمنٹ کو اچھے لگتے ہیں اور
نہ اسے میاں نوازشریف عزیز ہیں،یہ راز بھی اب کوئی راز نہیں ہے کہ آصف علی
زرداری اور میاں نواز شریف یکساں طور پر عسکری قیادت کے بارے میں شاکی
ہیں،کون نہیں جانتا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے عسکری قیادت کی ضمانت کے بعد
صدارت سے استعفیٰ دیا اور اسی ضمانت کے تحت ان کو بحفاظت باہر جانے دیا
گیا،ہر ایک کے لئے قابل قبول بن جانے کی مولانا فضل الرحمن کی آرزو اور نئے
مسلم لیگ (ق) بننے کے لئے اے این پی کی خواہش کس سے مخفی تھی؟ کس باخبر
پاکستانی کو خبر نہ تھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے سرخیل اپنے ہر بڑے قدم کے
لئے واشنگٹن کی آشیرباد ضروری سمجھتے ہیں اور یہ کہ پاکستانی سیاستدانوں کی
اکثریت اپنے گندے کپڑے امریکی سفارتخانے میں جاکر دھوتے رہتے ہیں؟ موجودہ
سیاسی بساط اور زرداری صاحب کا اقتدار امریکی کوششوں کی مرہون منت ہے یا
پھر یہ کہ سعودی بادشاہ ، پاکستانی صدرسے ناراض اور باقی دنیا کے حکمران
مایوس ہیں،وکی لیکس کی ان رپورٹس کے عیاں ہونے سے وہ باتیں جو مختلف
سفارتخانوں میں،اخبارات اور ٹی وی چینلز کے دفاتر اور مخصوص ڈرائنگ روموں
میں کی جاتی تھیں اب اخبارات کے صفحات،ٹی وی ٹاک شوز اور گلی کوچوں تک نکل
آئیں ہیں،محب وطن حلقے اور کالم نویس عرصے سے دہائی دے رہے ہیں کہ امریکہ
پاکستان کے ساتھ منافقت سے کام لے رہا ہے،وہ ایک عرصے سے متنبہ کررہے ہیں
کہ منافقت فرد کرے یا قوم ،وقتی فائدہ تو ہوتا ہے لیکن انجام بھیانک اور
عبرتناک سزا کی صورت میں ہی سامنے آتا ہے،آج وکی لیکس کے انکشافات نے یہ
ثابت کردیا کہ پاک امریکہ تعلقات جھوٹ،منافقت اور دوغلے پن پر مبنی ہیں جو
نصف صدی پر محیط ہیں ۔
دیکھا جائے تو وکی لیکس کے یہ انکشافات بلاشبہ ہمارے لئے اذیت،نقصان اور
شرمناک ذلت کا باعث ہیں،ان انکشافات سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ افغان مسئلہ
پر امریکہ کا ساتھ دینے اور افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے دہشت
گردوں اور تخریب کاروں کے علاوہ ڈرون حملوں میں سینکڑوں،ہزاروں بے گناہ
پاکستانیوں کی ہلاکت اور وزیرستان،سوات،مالاکنڈ اور بعض دوسرے علاقوں میں
آپریشن کے دوران سینکڑوں فوجی افسران اور اہلکاروں کی ہلاکت کے باوجود
امریکی قیادت ہم سے مخلص نہیں ،اِن حالات میں پاکستانی عوام پاکستانی
حکمرانوں اور سیاستدانوں کے کردار سے نہ صرف مطمئن نہیں بلکہ وہ یہ سوچنے
پر مجبور ہیں کہ یہ سیاستدان جن کے ہاتھ میں قوم کی باگ ڈور ہے،قوم کا بیڑا
پار لگاسکیں گے بھی یا نہیں؟ دوسری جانب پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ ظاہر
کرتی ہے کہ امریکہ پاکستان کا دلی طور پر خیر خواہ نہیں،اسے صرف اور صرف
اپنے مفادات عزیز ہیں اور اس کے لئے وہ ہمارے بدترین دشمن سے بھی ہاتھ ملا
سکتا ہے،لیکن اس تلخ حقیقت سے آشنا ہونے کے باوجود ہمارے سیاستدانوں کی
اکثریت آج بھی امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہے،اگر ہم نے ان زمینی حقائق کا
ادراک کرنے،اپنے مفادات کا تحفظ کرنے،اپنی آزادی،سلامتی اور خود مختاری کو
یقینی بنانے کے لئے بلاتاخیر کوئی مثبت قدم نہ اٹھایا اور نام نہاد دوستوں
کے چہروں کو پہچاننے میں سستی کی،تووہ دن دور نہیں جب تباہی و بربادی ہمارا
مقدر ہوگی،لہٰذا آج ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرتے
ہوئے اپنے آپ کوبچانے کی فکر کی جائے اور ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں
حالات و واقعات کا جائزہ لے کر یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ امریکہ کی طرف
سے پاکستان کے ساتھ دوستی کے دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟اور کون ہمارا دوست ہے
اور کون ہمارا دشمن؟ صرف اس طرح پاکستان کے 17کروڑ عوام ماضی کی غلطیوں اور
کوتاہیوں کا ازالہ کر کے اپنی آزادی سلامتی اور خود مختاری کا تحفظ کرسکتے
ہیں،امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کا جوہڑ امریکی صیہونی استعمار نے
اس حد تک آلودہ کر دیا ہے کہ اب پاکستانی قوم کی قسمت کے فیصلے واشنگٹن،نیو
یارک یا پھر اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں کئے جاتے ہیں،یہ ایوان
صدر،ایوان وزیر اعظم،پارلیمنٹ،سینٹ اور ان میں بسنے والی مخلوق بظاہر تو
بڑی طرم خان بنی نظر آتی ہے،درحقیقت یہ وہ روبوٹ ہیں جو صرف امریکی فیصلوں
کے سامنے ہاں میں سر ہلانے والے ہیں اور جن کے کنٹرول بٹن امریکیوں کے
ہاتھوں میں ہیں،سچی بات یہ ہے کہ سیاسی و مذہبی اور عسکری قیادت کے بارے
میں وکی لیکس نے جو انکشافات کیے ہیں انہیں پڑھ کر ہم سمیت ہر درد مند دل
رکھنے والے پاکستانی کا سر شرم سے جھک گیا ہے،پرویز مشرف سے ذلتوں اور
رسوائیوں کا شروع ہونے والا سفرنہ صرف آج بھی جاری ہے بلکہ ہماری موجودہ
قیادت نے تو پستیوں کی اِن کھائیوں کو مزید گہرا کر دیا ہے،ان حالات میں
آخر پاکستان کے عوام اعتماد کریں تو کریں کس پر۔؟ |