غیر محسوس انداز سے نظریہ الحاق پاکستان کو کمزور کرنے کے
لیے ہونے والے بحث مباحثے کشمیری قوم کو اندھیرے کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جانب سے بلاتمیز دی گئی قربانیوں کی تشریح جس
انداز سے کی جا رہی ہے وہ لمحہ فکریہ ہے۔ کشمیر کی آزادی و خودمختاری
پاکستان سے وابستہ ہے۔ یہ بجا ہے کہ پاکستان اندرونی و بیرونی سازشوں کا
شکار ہے،لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی میں
پاکستان کی جانب سے کوئی کوتاہی برتی گئی ہو۔ حکومت پاکستان کی مصلحت پسند
پالیسیاں اک جانب اور مسلح افواج پاکستان کا کشمیر پر دوٹوک موقف انتہائی
اہمیت رکھتا ہے۔ کشمیر کے مسئلہ کو درحقیقت پیچیدہ وقت کے ساتھ ہمارے بدلتے
ہوئے نظریات نے کیا ہے۔ مقبول بٹ شہید کی شہادت کشمیریوں کے لیے ہندوستان
سے پیغام آزادی کا حصول ہے نہ کہ سرزمین پاکستان سے منہ پھیرنے کا۔ میرے
دادا محترم مولانا محمد یونس اثری علیہ رحمة بانی مرکزی جمعیت اہل حدیث
جموں وکشمیر نے مقبول بٹ شہید کا غائبانہ نمازجنازہ یونیورسٹی کالج گراؤنڈ
مظفرآباد میں پڑھایا تھا۔ مولانا محمد یونس اثری نظریہ الحاق پاکستان کے
علمبردار تھے اور شہید مقبول بٹ کی غائبانہ نماز جنازہ کی امامت کروا کے
انہوں نے حریت پسندوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ نظریات پر اختلاف اپنی
جگہ،لیکن جب کوئی بھی کشمیری قوم کی آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی دے
گا،کشمیری قوم کا ہر فرد،ہر بچہ،ہر بوڑھا،ہر جوان،اپنے تمام اختلافات
کوبھلا کر اس حریت پسند کی قربانی کو اپنے لیے مشعل راہ سمجھے گا۔ آج ضرورت
اس امر کی ہے کہ کشمیرمیں بسنے والے اپنے اس بنیادی نظریے کی جانب لوٹیں،جس
کی وجہ سے تقسیم برصغیر ہوئی تھی اور جس نظریہ پر شہدائے جموں کی قربانیوں
کی داستاں رقم ہے ،جس نظریہ پر ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر میں کشمیریوں نے
آج تک لاکھوں کی تعداد میں قربانیاں دےرکھی ہیں۔ ہماری کامیابی کا جلد حصول
اک نظریہ اور اک جانب ہی مسلسل کوشش و کاوش کی وجہ سے ممکن ہو پائے گی نہیں
تو اقوام عالم ہماری بھانت بھانت کی بولیوں کے سبب ویسے بھی تنازعہ کشمیر
کو بھول چکی ہے۔ |