وادی میں فوج کی جانب سے عام شہریوں کو اپنی گولیوں کا
نشانہ بنانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ فوج کی جانب سے عام شہریوں
کوگولیاں کا نشانہ بنانا روز کا معمول ہے وہ کوئی دن نہیں جب وادی میں فوج
کی ظلم و بربریت کے شکار کسی شہری کا جنازہ نہ اُٹھتا ہو۔کشمیریوں کو اپنی
گولیوں کا نشانہ بنانے کیلئے بھارتی فوج پر کس قدرکا خونی بھوت سوار ہے اس
کی سینکڑوں مثالیں زندہ جاوید ہیں۔ حال میں ایک مثال جنرل راوت کی کشمیر
دشمنی کا کھلا ثبوت ہے ۔جنرل راوت نے جنرل ڈائر جیسا راویہ اختیار کر کے
دھمکی آمیز لہجے میں 12 جنوری کو قومی راجدھانی نئی دہلی میں ایک پریس
کانفرنس میں کہا کہ جموں وکشمیر کے اسکولوں میں مکمل بھارت کے بجائے جموں
وکشمیر کا نقشہ الگ سے دکھاکر طالب علموں کے اذہان میں غلط باتیں بٹھائی
جارہی ہیں۔ گو کہ اس بیان کو لیکر ریاستی وزیر تعلیم نے بھی جنرل راوت کو
تعلیمی نظام پر کچھ بولنے کے بجائے سرحدوں پر ڈیوٹی دینی کی صلاح دیتے ہوئے
کہاکہ جنرل صاحب تعلیمی نظام پر بولنے کے بجائے سرحدو ں پر حفاظت کا کام
انجام دیں تو یہی ملک کی سلامتی اور اُن کی جانب سے ایماندارنہ طور اپنے
فرائض منصبی انجام کے تئیں فکر مندی ہے اور یہیں اُن کا اصلی کام ہے ۔
آرمی چیف اس ملک کے ایک متحرم اور معزز عہدیدار ہیں،وہ ایک پیشہ ور افسر
ہیں۔بلا شبہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن
جنرل روات کے اس دھمکی آمیز بیان سے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ایک فوجی سربراہ
ہوتے ہوئے اپنے عہدے لمقام سے آگاہ نہیں ہیں،جنرل کی زبان درازی سے ایسا
محسوس ہو رہا ہے کہ وہ فوجی سربراہ ہیں لیکن حرکتیں آر ایس ایس والوں جیسی
کر رہا ہے۔جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ایک فوجی سربراہ ہے نہ کہ
ماہر تعلیم جو تعلیم پر خطبات دیں گے۔ معاف کیجئے جنرل صاحب !کوئی بھی سماج
غیرتعلیمی ماہرین کی جانب سے تعلیم پر دیئے جانے والے خطبات قبول نہیں کرے
گا۔سب جانتے ہیں کہ تعلیمی نظام کیا ہوتا ہے اور کیسے چلایا جاتا ہے ،
حقیقت تو یہ ہے کہ آپ بھی خوب جانتے ہیں لیکن قابل ِ افسوس ہے کہ آپ جان
بوجھ کر اپنے رُتبے اور عہدے کا احترام کرنے سے قاصر ہیں۔ وزیر تعلیم الطاف
حسین بخاری کے مطابق معلوم نہیں کہ فوجی سربراہ کو یہ خبر ہے کہ نہیں تعلیم
کنکورنٹ لسٹ میں نہیں آتا ہے۔ یہ ریاست کے ڈومین میں ہے۔ اس لئے فوجی
سربراہ اپنا کام کریں اور مجھے اپنا کام کرنے دیں۔ ریاست کے اسکولی بچے
ریڈکلائزیشن کی طرف نہیں جارہے ہیں لیکن معلوم نہیں جنرل راوت نے کیا کہا،
کس لہجہ میں کہا ، کہاں کہا اور کس اجتماع میں کہاہاں مجھے یہ معلوم ہے کہ
میرے بچے ریڈکلائزیشن کی طرف نہیں جارہے ہیں۔ وہ اپنا کام کریں میں اپنا
کام کررہا ہوں۔ ان کا کام ہے سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانا۔ سرحدوں کی حفاظت
ہوگی تو تشدد کے واقعات میں کمی آئے گی۔ ہمارے تعلیمی نظام میں کوئی خامی
نہیں ہے کہ ریڈکلائزیشن ہورہی ہے۔بھارت اگر ایک جمہوری ملک ہے تو پھر فوج
کو اپنے کنٹرول میں رہ کر کام کرنا چاہیے ۔
جنرل راوت کو معلوم ہو نا چاہیے ریاست جموں و کشمیر کے پاس دو جھنڈے ہیں۔
ریاست کے پاس اپنا ریاستی آئین ہے۔ ہر ایک ریاست کا اپنا نقشہ ہے۔ ہر ایک
ریاست کے ہر ایک اسکول میں اپنی ریاست کا بھی نقشہ ہوتا ہے۔ اگر فوج اپنا
کام صحیح سے انجام دے گی تو علیحدگی پسندی کہیں جنم نہیں لے گی۔جنرل راوت
اپنی ذمہ داری اپنی حددود کے اندر رہ کر انجام دیں۔ اگر وہ اپنا کام صحیح
سے کریں گے تو تمام مسائل حل ہوں گے۔
اس طرح سے گزشتہ روز سوشل سائٹ فیس بک پر ایک ویڈیو کلپ وائیرل ہوئی جس میں
ایک فوجی اہلکار کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’’شانتی وانتی چھوڑو،
میرا ریکارڈ رہا ہے جہاں جہاں میں گیا جب تک خون خرابہ نہیں ہوتا میرا من
نہیں بھرتاانسان کی جان لیناکوئی بڑا مسئلہ نہیں، خون خرابہ کرناروز کا
معمول ہے،تب تک سکون نہیں ملتا جب تک کسی کا خون نہ کیا جائے‘‘ فوجی اہلکار
کے اس اندازِ بیان سے جہاں غیر محفوظ ہونے کا پورا پورا یقین انسان کو
ہوجاتا ہے وہیں حکومت ہند کا کشمیریوں کے تئیں ناپاک عزائم سے پردہ اٹھتاہی
جارہاہے۔ وزیر اعظم ہند نریندرمودی کا لعل قلعہ سے خطاب کے دوران یہ کہناکہ
’’کشمیر مسئلہ گولی اور گالی سے نہیں کشمیریوں کے گلے لگانے حل ہوگا‘‘ جھوٹ
اور فریب کا ایک پلندہ ثابت ہو رہا ہے ،کیونکہ پیار و محبت کی لمبی چوڑی
باتیں کرنے کے پیچھے جس قدر کشمیریوں کے تئیں نفرتوں کا زہر اُگلا جا رہا
ہے وہ کشمیری قوم کیلئے آئے روزموت کا پیغام لیکر آتا ہے۔اس سلسلہ کی ایک
کڑی گزشتہ ہفتہ وادی کے شمالی ضلع کپوارہ میں 24سال پہلے پیش آئے قتل عام
کے ایک واقعہ کی برسی میں جہاں اس ضلع میں ہڑتال تھی وہیں جنوبی کشمیر میں
فورسز نے اپنی بندوقوں کے دہانے کھول کر اندھا دھند فائرنگ سے 3نو جوان
کوشہید کر دیا جبکہ اس موقعہ پر11دیگر افراد زخمی بھی ہو گئے ۔
افسوس صد افسوس کہ جہاں آئے روز کوئی نہ کوئی عام شہری فوجی جنون کی بھینٹ
چڑھ رہا ہے ،فورسز کی جانب سے خون نا حق بہانے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں
لیتا وہیں حکمران جماعتوں کالاشوں پر سیاست کرنے کے شرمناک قصے بھی منظر
عام پر آرہے ہیں۔ سرمائی دارالخلافہ جموں میں چل رہے بجٹ اجلاس میں جس طرح
بر سر اقتدار اور حزب ِ اختلاف کے حکمرانوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر الزام
تراشیوں کی بوچھاڑ کر کے 70سال سے بہے جارے رہے اس خون ِ ناحق کا ایک دوسرے
کو ذمہ دار ٹھہرایا وہ اس بات کا واضح اور پختہ ثبوت ہے کہ سیاسی جماعتوں
نے عوام بھلائی کیلئے نہیں بلکہ صرف اور صرف اقتدار کی خاطر ہمیشہ ریاستی
عوام کا سودا دلی کے ٹھیکیدارو ں سے کیا ہے ۔ سیاست دانوں نے اقتدار کی ہوس
و لالچ میں لنگڑا اقتدار وصول کر کے عوامی استحصال کیا ہے ۔ چند دنوں کے
لولے لنگڑے اقتدار کی خاطر عوامی اُمنگوں پر شب خون مار کر جس طرح سے
ریاستی حکمرانوں نے ہمیشہ دلی کی دلالی کو اپنے گلے لگایا ہے وہ حکمران
جماعتوں کیلئے عوامی سطح پر رسوائی کا سبب بنا ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج حکمران اس رسوائی کا رونا پوری دنیا کے سامنے رو رہے ہیں
، حد تو یہ ہے حکمران طبقہ اقتدار کی ہوس میں اس قدر اپنے گناہوں کا اعتراف
بھی کر رہے ہیں جیسا کہ اب انھوں نے ایسے گناہوں سے مکمل طور توبہ کر لی ہو
۔گناہوں کا یہ اعتراف جہاں حزب اختلاف بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر اقتدار حاصل
کرنے کی جستجو میں کر رہی ہے وہیں حزب ِ اقتدار اپنے ناکردہ گناہوں پر پردہ
ڈالنے کیلئے کر رہی ہے جبکہ یہ تمام حکمران طبقے کا اپنے گناہوں پر پردہ
ڈالنے کی ایک ناکام کوشش ہے اور کچھ بھی نہیں۔افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے
یہاں سیاست دانوں کی جانب سے ایسے سانحات پر مذمت کرنا اور پھر ایک دوسرے
کو الزام دینا ایک روایت بن گیا ہے ۔پہلے روز مذمتی بیان دینااور دوسرے روز
اخبار میں ڈھونڈھناکہ میرا مذمت والابیان اخبار میں چھپا ہے کہ نہیں یہ
ریاستی حکمرانوں کی سیاست کا معیاربن چکا ہے لیکن انصاف کا انتظار کرنے
والی ماں بہن کا کیا ہوا؟بلاآخر ایسے سانحات صرف اور صرف سیاست دانوں کی
آپسی الزام تراشیوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں انصاف کے منتظر تھک ہا ر کر خاموش
ہو جاتے ہیں۔
اس لئے ریاستی حکمرانوں کو ایک دوسرے پر طعنے کسنے کے بجائے آئندہ دلی کی
دلالی سے توبہ کر لینی چاہیے یہی اُن کے بہترسیاسی شعور ہونے کا ثبوت ہو
سکتا ہے ، وگرنہ محض الزام تراشیوں سے بات بننے والی نہیں۔ آپ جتنا ایک
دوسرے پر اس خون ِ ناحق کا الزام تھوپتے رہو گے اُتنا ہی عوام کے سامنے
ننگے ہو جاؤ گے اور یوں آپ آہستہ آہستہ عوام کے سامنے ماضی کی اپنی غلطیوں
کا اعتراف کر کے اپنی سیاسی بساط کی مٹی پلید کرو گے اور نتیجاًآپ مزید
رسوائیوں کا شکار ہو کر رہ جاؤ گے ، اور عوام بے آس ہو کر بس اتنا کہے گی
…………
بہروں کی انجمن میں نہ گا درد کی غزل
اندھوں کو مت دکھا گریباں پھٹا ہوا |