فتنہ قادیانیت بلا شبہ طور پہ امت مسلمہ کیلئے اسلامی
معاشرے میں پایا جانے والا ایسا ناسور ہے جس کا تدارک آئین و قانون کی حدود
میں ضروری ہے۔ ایمان داری کی یہ بات بڑی واضح ہے کہ جس طرح مسلمان ہونے
کیلئے اﷲ رب العزت کی واحدانیت پہ یقین لازمی ہے اسی طرح حضرتِ محمد مصطفے
صلی اﷲ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ و مقدسہ کو اﷲ کریم کا آخری
نبی ماننا ضروری ہے جس کا انکار قرانِ حکیم کی آیات اور احادیثِ رسول اﷲ کا
انکار ہے جو کفر ہے۔ اس معاملہ پہ نہ کوئی تاویل دی جاسکتی ہے اور نہ دلیل۔
نبوت کا دروازہ تاجدار مدینہ پہ بند ہوگیا ہے، پیغمبر اسلام کے بعد کائنات
کے بہترین انسان خلفاء راشدین ؓتھے اگر ختم نبوت نہ ہوتی تو ان سے بہتر کون
تھا جو نبی و رسول ہوتا؟چودہ سوسال قبل فاران کی چوٹی پہ اسلام کی دعوت کے
ساتھ کیا گیا اعلان نبوت آخری تھا۔ اس کے بعد کوئی بھی نبوت کا دعویدار
کاذب(جھوٹا) ہے اور رہے گا۔ یہ اہل اسلام کے ایمان کا معاملہ ہے جس پہ موت
و حیات کے یقین کا دارومدار ہے۔ پیغمبر اسلام کے بعد کسی شخص یا جماعت دعویٰ
نبوت کرنا اور خود مسلمان کہنا مسلمانوں کے بازار میں خنزیر کے حرام کوشت
کو بکرے کا حلال کوشت کہہ کر فروخت کرنے جیسا ناقابل قبول اور قبیح عمل ہے۔
ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کا کوئی بھی موقع قا دیانیوں نے ہاتھ سے خالی نہیں
جا نے دیا اور ہر موقع پر ختم نبوت پر ڈاکہ زن ہو ئے قا دیانی ایک ایسافتنہ
ہے جو مسلمانوں کا لبا دہ اوڑھ کر امت مسلمہ میں پھوٹ و انتشار پھیلا نے کا
موجب بنتا رہا ہے اور ابھی بھی بن رہا ہے فتنہ قادیانیت کے خلاف اکا برین
ختم نبوت کی بیشمار قربا نیاں ہیں او ر یہ قربا نیاں لا زوال ہیں جن کی
بدولت آج قادیانیت دم توڑ ررہی ہے ،کرہ ارض پر اسلام کے نام پر حاصل کئے
گئے واحد ملک پا کستان کی قومی اسمبلی نے 44برس قبل متفقہ طور پر قادیا
نیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر مسلمانوں کے دیرینہ مطالبہ کو پو را کر
دیا عقیدہ ختم نبوت اسلام کا بنیا دی عقیدہ ہے جس پر دین اسلام کی عما رت
کھڑی ہے اور جس کیلئے شمع رسا لت ؐ کے پر وانوں نے ہمیشہ بیشمار قر با نیاں
دیں اس بنیادی عقیدے سے انکار پو رے دین اسلام سے انکار ہے عقیدہ ختم نبوت
کی شان و عظمت اور افا دیت کا انداز ہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اﷲ
کریم نے قر آن پاک میں سو مرتبہ حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت کے بارے میں نازل
فر مائیں حالانکہ کسی بات کو سمجھانے کیلئے ایک ہی آیت کا ہو نا بھی کا فی
ہے لیکن خدا وند تعالیٰ نے قر آن مجید میں سو مرتبہ حضور ﷺ کی ختم نبوت کا
اعلان فر مایا اور آپ ﷺ کی دو سو دس احادیث دعویداروں کی پیش گوئی حضور ﷺ
نے اپنی حیات طیبہ میں ہی فر ما دی تھی ،مثلاً ابو دا ؤد شریف میں حضرت
ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اﷲ ﷺ نے ارشاد فر ما یا میری امت میں تیس
جھوٹے پیدا ہو ں گے ہر ایک یہی دعویٰ کرے گا کہ میں نبی ہو ں حالانکہ ’’میں
آخری نبی ہو ں میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا‘‘چنانچہ امت محمدیہؐ کا جو
سب سے پہلاا جماع ہو ا وہ بھی مسئلہ ختم نبوت پر ہی ہوا تھا ،منکر نبوت
مسیلمہ کذاب نے سر کار دوعالم ﷺ کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا جس
پر اجماع کر کے تمام صحابہ کرام ؓ اس بات پر متفق ہو ئے کہ اس کے خلاف جہاد
کیا جائے ۔مسیلمہ کذاب کے خلاف اس جہاد میں خلیفہ اول حضرت سیدنا ابو بکر
صدیق ؓ تحفظ ختم نبوت کے سب سے پہلے معرکے کی خود قیادت کررہے تھے دین
اسلام کی خاطر لڑی جانے والی ستائیس جنگوں میں شہید صحابہ کرام ؓ کی
تعداددو سو انسٹھ ہے جبکہ منکر ختم نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی جانے والی
اس جنگ میں بارہ سو صحابہ کرام ؓ شہید ہو ئے جن میں سے سات سو صحابہ کرام ؓ
قرآن کے قاری عالم اور مفتی تھے ،آپ ؐ کے وصال کے بعد جھوٹے نبیوں کا سلسلہ
بھی جا ری رہا حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو آنحضرت صلی اﷲ
علیہ وسلم نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا،
مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے
ہو کہ محمدؐ اﷲ کے رسولؐ ہیں؟ حضرت حبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں،
مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اﷲ
کا رسول ہوں؟ حضرت حبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا
ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا، مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا، وہ یہی جواب
دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی کہ حبیب رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ بن زید کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا گیا۔اس سے
اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسئلہ ختم نبوت کی
عظمت و اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے، اب حضرات تابعین رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ میں سے ایک تابعی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا واقعہ بھی ملاحظہ ہو:
’’حضرت ابو مسلم خولانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جن کا نام عبداﷲ بن ثوب رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ ہے اور یہ امت محمدیہ (علی صاحبہا السلام) کے وہ جلیل القدر
بزرگ ہیں جن کے لئے اﷲ تعالیٰ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرمادیا جیسے حضرت
ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنادیا تھا۔ یہ یمن میں
پیدا ہوئے تھے اور سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد مبارک ہی میں
اسلام لاچکے تھے لیکن سرکاردو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا
موقع نہیں ملا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں
یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار اسود عنسی پیدا ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی
نبوت پر ایمان لانے کے لئے مجبور کیا کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے حضرت ابو
مسلم خولانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی
نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی، حضرت ابو مسلم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انکار
کیا پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان
رکھتے ہو؟ حضرت ابو مسلم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں، اس پر اسود عنسی
نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور حضرت ابو مسلم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس آگ میں
ڈال دیا، لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کے لئے آگ کو بے اثر فرمادیا، اور وہ اس سے
صحیح سلامت نکل آئے۔
یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقأ پر ہیبت سی طاری ہوگئی
اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلاوطن کردو، ورنہ خطرہ ہے
کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروؤں کے ایمان میں تزلزل آجائے، چنانچہ انہیں یمن
سے جلاوطن کردیا گیا۔ یمن سے نکل کرمدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر
صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب ان سے ملے تو فرمایا’’اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس
نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس شخص کی زیارت کرادی
جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا
تھا۔‘‘
قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق ’’رب العالمین‘‘ آنحضرت صلی اﷲ
علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ قرآن مجید کے لئے ’’ذکر
للعالمین‘‘ اور بیت اﷲ شریف کے لئے ’’ھدی للعالمین‘‘ فرمایا گیا ہے، اس سے
جہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی آفاقیت و عالمگیریت ثابت
ہوتی ہے، وہاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے، اس لئے کہ پہلے تمام انبیاء
علیہم السلام اپنے اپنے علاقہ، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لائے۔
جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کل کائنات کو آپ کی
نبوت و رسالت کے لئے ایک اکائی (ون یونٹ) بنادیا۔جس طرح کل کائنات کے لئے
اﷲ تعالیٰ ’’رب‘‘ ہیں، اسی طرح کل کائنات کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم
’’نبی‘‘ ہیں۔ یہ صرف اور صرف آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اعزاز و اختصاص ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے لئے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا ان میں
سے ایک یہ بھی ہے:: ’’میں تمام مخلوق کے لئے نبی بناکر بھیجا گیا اور مجھ
پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔‘‘ (مشکوٰۃ صفحہ 512 باب فضائل سید
المرسلین‘ مسلم جلد1 صفحہ 199
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت آخری
امت ہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا قبلہ آخری قبلہ بیت اﷲ شریف ہے، آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے
پورے کردیئے، چنانچہ قرآن مجید کو ذکر للعالمین اور بیت اﷲ شریف کو ھدی
للعالمین کا اعزاز بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا۔
چودہویں صدی ہجری میں اسلام کو جن فتنوں کا سامنا کر نا پڑا ان میں سب سے
بد تر فتنہ قادیانیت ہے ۔
ان حالات میں آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں حزبِ اقتدار و حزبِ
اختلاف آزاد کشمیر میں قادیانیوں کو متفقہ آئینی بل منظور کر کے غیرمسلم
قرار دینے پر مبارکباد کی مستحق ہیں امید ہے ریاست اب قادیانیوں کو آئینی
اور قانونی طور پہ حدود و قیود میں پابند کرنے کے ساتھ ساتھ غیر مسلم اقلیت
کے طور پہ انھیں آئین و قانون کا پابند بھی بنائے گی۔ آزاد کشمیر میں امن و
امان کی صورتحال مثالی رہی ہے اسلامیان کشمیر نے قادیانیوں ریشہ دوانیوں کے
باوجود قانون کو ہاتھ میں نہ لیکر امن و استحکام کو برقرار رکھا ہے اور اس
فتنے کا جواب ہمیشہ صبر و تحمل، دلیل اور علم و فضل سے دیا ہے۔مجھے امید ہے
آج اس بڑی کامیابی کے موقع پر خاتم المرسلین کے امتی اسی تدبر و انکساری کا
مظاہرہ کریں گے جس کی مثال اﷲ کے آخری نے فتح مکہ کے موقع پر رب کریم و
غفور الرحیم کے سامنے اپنی مبارک گردن جھکا کر قائم کی تھی ،بہر حال آزاد
کشمیر کی اسمبلی اور اس کے ممبران اور وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر صدہا
مبارک باد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے منکرین ختم نبوت قا دیانی و لاہور گروپ
کو آزاد کشمیر میں غیر مسلم اقلیت قرا ر دیا ،اسمبلی کا یہ فیصلہ تاریخ کے
سنہری حروف میں لکھا جائے گا ۔اور بروز قیامت جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم کی شفاعت کا ذریعہ بھی بنے گا ۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ ختم نبوت کے
تحفظ کیلئے قبول فرمائے ۔آمین
|