امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے5 فروری کو
اسلام آباد میں یکجہتی کشمیر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے
مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے ایک نائب وزیر خارجہ کا تقرر کرے۔ یہ
ایک معقول اور قابل عمل تجویز ہے ۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بنیادی
فریق ہے۔ گزشتہ 70 سالوں میں کشمیر جیسے حساس اور انتہائی اہم مسئلہ پر
پاکستان کا ایک اصولی موقف رہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت سے بھارت کے ساتھ
کشمیر مسئلہ کشمیر پر تناؤ کی کیفیت اور ماحول چلا آ رہا ہے۔کئی جنگیں بھی
ہو چکی ہیں ۔بھارت آئے دن دھمکیوں پر اُتر آتا ہے۔ کنٹرول لائن کی خلاف
ورزیاں تو اب اس کا معمول بن چکا ہے۔بھارتی افواج کی گولہ باری اور جارحیت
کے نتیجے میں کشمیری شہیداورزخمی ہو رہے ہیں ۔ان کے گھر ٗ مال مویشی اور
فصلیں تباہ و برباد ہو رہی ہیں ۔مگر افسوس کہ اقوام متحدہ ٗ عالمی طاقتوں
اورانسانی حقوق کے اداروں نے کشمیر پر بھارتی ظلم و جبر پر آنکھیں ٗکان اور
زبانیں بند کر رکھی ہیں۔پاکستان مظلوم کشمیریوں کا وکیل بھی ہے ۔ اس حیثیت
سے ایک موثر ٗٹھوس اور ہمہ پہلو قومی کشمیر پالیسی کی تجدید ضروری ہے۔اس
مقصد کے لئے قومی اسمبلی ٗ سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبیلوں کے ساتھ
ساتھآزاد کشمیر اور گلگت اسمبلی سے بھی قراردادیں منظور کروائی جائیں۔نائب
وزیر خارجہ برائے کشمیر امریکا اوریورپی ممالک کے سفارتخانوں تک پاکستان کے
موقف اور کشمیریوں کی حالت زار کو پہنچائے۔مسلسل اور لگاتار وفود کے دوروں
کے ذریعے سے اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کو جلتے ہوئے کشمیر کی طرف متوجہ
کیا جائے۔ یورپی ممالک میں قائم پاکستانی سفارتخانوں میں خصوصی کشمیر ڈیسک
قائم کئے جائیں ۔بھارت کی طرف سے 70 سالوں میں ڈھائے جانے والے مظالم اور
تباہی و بربادی کے مناظر اور حقائق کو سامنے لایا جائے۔
مقبوضہ کشمیر میں ہمارے مسلمان بھائی ٗبزرگ ٗمائیں بہنیں اور معصوم بچے ایک
طویل عرصے سے بھارتی مظالم کا شکار ہیں ۔وہ ایک اذیت ناک زندگی گزارنے پر
مجبور ہیں۔لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کو شہید کیا جا چکاہے۔ ماؤں ٗبہنوں اور
بیٹیوں کی عزت و ناموس کو بھارتی افواج ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی
ہیں۔بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے گھروں اور دیگر املاک کو تباہ و برباد کر
دیا گیا ہے۔ہزاروں کی تعداد میں نوجوان جموں و کشمیر اور بھارتی جیلوں اور
عقوبت خانوں میں سالہا سال سے گل سڑ رہے ہیں ۔ سینکڑو ں کی تعداد میں زخمی
اور اپاہج گھروں میں پڑے ہوئے ہیں ۔سات لاکھ سے زائد مسلح افواج اور
سیکیورٹی کے دیگر اداروں کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں کو آئے دن ظلم و جبر کا
نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور بھارتی
تسلط کو قبول کرنے کے لئے کسی طرح بھی تیار نہیں ہیں ۔ دوسری طرف یہ حقیقت
بھی اظہر من الشمس ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت بھارت سے آزادی اور پاکستان کے
ساتھ الحاق کی خواہشمند ہے۔ مقبوضہ وادی میں شہیدوں کو پاکستان کے سبز
ہلالی پرچم کے ساتھ سپرد خاک کیا جاتا ہے۔بڑے بڑے مظاہروں میں پاکستا ن کے
جھنڈے لہرائے جاتے ہیں اور جیوے جیوے پاکستان وہاں کا سب سے زیادہ مقبول
نعرہ ہے۔ پاکستان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ پاکستانی مصنوعات کو دیکھتے ہی
آنکھوں سے لگاتے اور چومتے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم کے فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو
پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا۔ مگر شاطر ہندووٗں نے انگریزوں کے ساتھ ساز
باز کر کے کشمیر کو پاکستان کے ساتھ نہ ملنے دیا اور بعدازاں وہاں اپنی فوج
بھیج کر زبردستی قبضہ بھی کر لیا۔ کشمیریو ں نے اس کے خلاف بغاوت کی اور
پاکستان نے بھی اس ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز اُٹھائی تو بھارت کشمیر کا
مسئلہ لے کر اقوام متحدہ میں چلا گیا ۔وہاں بحث مباحثے کے بعد متعدد
قراددادیں پاس کی گئیں ۔ جن میں کشمیر کے خطے کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے
کشمیریوں کے حق آزاد ی کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ اس وقت یہ فیصلہ ہوا تھا
کشمیریوں کو استصواب رائے کا موقع دیا جائے گا۔ وہ پاکستان یا بھار ت کے
ساتھ رہنے کے سلسلے میں جو بھی رائے دیں گے ٗ اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
مگر افسوس کہ 70 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اقوام متحدہ اور دیگر عالمی
طاقتیں کشمیر کا دیرینہ مسئلہ حل کروانے میں ناکام ہی ہیں۔ بھارت کی ہٹ
دھرمی اس میں سب سے بڑی رکاو ٹ ہے۔ مغربی ممالک کا جہاں مفاد ہو وہاں اقوام
متحدہ کی قرارداوں پر فوری طور پر اور طاقت کے ذریعے سے بھی عملدرآمد
کروایا جاتا ہے۔
اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ٗبھارتی مظالم کی مذمت اور
اقوام عالم کو کشمیر میں جاری ظلم و ناانصافی کی طرف متوجہ کرنے کے لئے 5
فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ یہ ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ
ہے کہ ہم کشمیر میں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف اپنی آواز بلند
کریں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیری تو بھارتی افواج کی سنگینوں تلے تکمیل
پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ تاریخ انسانی کی بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں
۔شہداء کی انہی قربانیوں کی وجہ سے مسئلہ کشمیر زندہ اور توانا ہے۔ضرورت اس
امر کی ہے کہ حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر کو پوری قوت کے ساتھ ہر عالمی فورم
پر اُٹھائے۔بھاری مظالم کو دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بے نقاب کیا جائے ۔
مسئلہ کشمیر کو اُجاگرکرنے کے سلسلے میں میڈیا کا کردار بہت ہی اہم اور
بنیادی ہے۔الیکٹرانک ٗ پرنٹ اور سوشل میڈیا کے محاذ پر بھی ہر سطح ٗ ہر
پہلو اور ہر زاویے سے بھرپور اور تسلسل کے ساتھ کام کی ضرورت ہے۔٭٭ |