بیداری ایک مسلسل عمل کا نام ہے، افراد کی بیداری سے
اقوام بیدار ہوتی ہیں، اور اقوام کی بیداری ممالک و معاشروں کی بیداری کا
باعث بنتی ہے، جس طرح نیند اور غفلت میں ایک نشہ اور مستی ہے اسی طرح
بیداری میں بھی ایک لذّت، طراوت اور شگفتگی ہے۔
اگر ہم انتخابات کے ذریعے اپنے ملک میں بیداری اور تبدیلی چاہتے ہیں تو
ہمیں گام بہ گام تمام شعبہ ہای زندگی میں بیداری کے ساتھ درست انتخاب کی
عادت ڈالنی ہوگی۔ہمیں عملی طور پر اپنا آئیڈیل، رول ماڈل اور نمونہ عمل
رسولِ اعظمﷺ کی ذاتِ گرامی کو بنانا ہوگا۔
پیغمبرِ اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں کی طرح سیاسی زندگی میں بھی بطورِ
رہبر ہماری رہنمائی کی ہے۔ آپ نے مسلمانوں کے درمیان ایک مکمل اور بھرپور
سیاسی زندگی گزار کر ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ اسلامی معاشرے کے سیاستدانوں کو
کیسا ہونا چاہیے۔
مدینے سے ہجرت کے دوران جب آپ ﷺ قبا کے مقام پر کچھ دن کے لئے ٹھہرے تو
یثرب سے لوگ جوق در جوق آپ کی زیارت کے لئے آتے تھے، آپ کے حسنِ اخلاق
سے متاثر ہوکر اور مسلمان ہوکر پلٹتے تھے، بلاشبہ تلواریں توفقط شر سے دفاع
اور احتمالی ضرر سے بچاو کے لئے تھیں چونکہ لوگ تو آپ کے حسنِ اخلاق سے
متاثر ہوکر دیوانہ وار کلمہ پڑھتے جارہے تھے۔
مورخ کو یہ لکھنے میں قطعا کسی قسم کی تردید نہیں کہ مدینہ پیغمبرِ اسلام
کے اخلاق کی وجہ سے مفتوح ہوا، آج جب ہم کسی کو اپنا سیاسی لیڈر یا رہنما
منتخب کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے اخلاق اور عادات و
اطورا کے بارے میں بھی جانیں۔
مدینے میں جب رسولِ گرامی ﷺ کی سواری داخل ہوئی تو ہر طرف ایک جشن کا سماں
تھا، کبھی کسی قبیلے کا رئیس آپ کی اونٹنی کی لگام تھام لیتا تھا کہ ہمارے
ہاں تشریف رکھئے ، کبھی کسی گروہ کا کوئی معزز فرد آپؐ کی اونٹنی کی باگ
تھام کر اپنے گھر میں ٹھہرنے کی التجا کرتا تھا، کبھی کوئی بڑا تاجر آگے
بڑھ کر دستِ ادب دراز کر کے شرفِ میزبانی حاصل کرنے کی اپیل کرتا تھا اور
کبھی کسی محلے کا کوئی بزرگ آپ کے نعلین مقدس کو چوم کر اپنے ہاں ٹھہرنے
کی دعوت دیتا تھا، لیکن آپ نے سب سے یہی کہا کہ میری اونٹنی کو چلنے دیجئے
یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ، یہ جہاں خود ٹھہرے گی میں وہیں قیام کروں گا۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ اونٹنی نہ کسی سردار کے گھر ٹھہری، نہ کسی وڈیرےکےہاں
اس نے ڈیرہ ڈالا ، نہ کسی بزرگ کے ہاں اس نے زانو ٹیکے بلکہ مدینے کے ایک
عام شخص حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔
حضرت ابوایوب انصاری کے گھر میں قیام میں اہلِ اسلام کے لئے یہ پیغام تھا
کہ رسولِ اسلام کے تعلقات کسی کے ساتھ کسی کی خاندانی شرافت و منزلت،
قبائلی جاہ و حشمت اور خاندانی مال و ثروت کی بناپر نہیں ہونگے بلکہ ایک
عام مسلمان بھی رسولِ اکرم کے نزدیک اتناہی محترم تھا جتنے کہ قبائل کے
امرا و سردار تھے۔
یہ اسوہ حسنہ ہے آج پاکستان کی ملتِ اسلامیہ کے لئے کہ ہم اپنے ملک میں
سیاسی رہبر ی و قیادت کے لئے ایسے لوگوں کو منتخب کریں کہ جن کے نزدیک امرا
اوفقرا کی کوئی تمیز نہ ہو۔
اور ہاں! سیرت النبیﷺ اس بات پر شاہد ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ ، غربا، فقرا
اور مساکین پر زیادہ توجہ دیتے تھے تاکہ زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ جو
زیادتیاں کی گئی ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکے۔
حضرت ابو ایوب انصاری ؓکے گھر کے سامنے کچھ زمین خالی پڑی ہوئی تھی، اس کے
مالک دو یتیم بچے تھے، نبی اکرمﷺ نے مسجد کے لئے وہ زمین اپنی جیب سے خریدی
اور اس پر مسجد تعمیر کرنے کے کام میں صحابہ کرام کے ساتھ شانہ بشانہ کام
کیا اور اپنا پسینہ بہایا۔
آج کل ہمارے ہاں ہمارے لیڈر شجر کاری مہم کے افتتاح کے لئے زمین پر ایک
ضرب لگاکر لاکھوں تصویریں بنواتے ہیں اور اگر کسی غریب فقیر کی مدد کر دیں
تو اخبارات و جرائد ان کے بیانات سے بھر جاتے ہیں۔ جبکہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد
نبوی کی زمین اپنی جیب سے خرید کر اور مسجد کی تعمیر میں مزدوروں کی طرح
کام کر کے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اسلامی معاشرے کا لیڈر وہ ہو جو دینی
امور کے نام پر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنی جیب سے خرچ
کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور دین کے کاموں میں عملاً مشقت میں کوئی عار
محسوس نہ کرتا ہو۔
جب تک ہمارے لیڈر بیت المال کو چوسنے کے بجائے اپنی جیب سے خرچ کرنے اور
عوام کے ساتھ برابر مشقت اٹھانے کی عادت نہیں اپنائیں گے اس وقت تک معاشرے
میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
جب مسجد کے لئے موذن کے انتخاب کا وقت آیا تو سروروعالمﷺ نے بڑے بڑے رئیس
زادوں، آقا زادوں، تاجروں، مالداروں، مہاجروں، انصار اور نامی و گرامی
شخصیات کے ہوتے ہوئےحبش کے ایک سیاہ رنگ کے شخص کا انتخاب کیا جس کی زبان
میں بھی لکنت تھی۔
حضرت بلال حبشیؓ کو بطور موذن منتخب کر کے آپ نے ہمارے لئے یہ پیغام چھوڑا
ہے کہ دینِ اسلام میں کسی کی ظاہری خوبصورتی، رنگ و نسل، قوم و قبیلے،
برادری اور علاقے نیز ملک و خطے کی کوئی اہمیت نہیں دینِ اسلام میں ایمان،
تقویٰ اور اسلام پر عمل ہی اصل میزان ہے۔
پاکستان میں حقیقی تبدیلی کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ ہم سیرت النبیﷺ سے
انتخاب کا طریقہ سیکھیں اور انتخابات میں عشقِ رسولﷺ کا مظاہر کریں۔
اگر ہم نعرے تو عشقِ رسولﷺ کے لگاتے رہیں اور ووٹ بدمعاشوں اور شرابیوں کو
دیتے رہیں تو اس سےہمارا اعمال نامہ بھی اور ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل
بھی تاریک ہو جائے گا۔
کتنے بدقسمت ہیں ہم لوگ کہ جو سیرت النبیﷺ کے ہوتے ہوئے در در کی ٹھوکریں
کھا رہے ہیں- |