ہمارے یہاں الیکشن عوام کو خوش کرنے کے لیے لگایا جانے
والا ایک میلہ ہے۔ سردی، گرمی، خزاں اور بہار کے ساتھ ہمارے دیس میں ایک
اور موسم بھی آتا ہے، انتخابات کا موسم، جوش وجذبات اور آس اور امید کی رُت،
اس موسم کے وقت کا تعین نہیں کیا جاسکتا، کبھی یہ پانچ سال بعد آتا ہے اور
کبھی اس عرصے سے بہت پہلے وارد ہوجاتا ہے، اسی طرح یہ رُت بعض علاقوں میں
جنرل الیکشن اور ضمنی انتخابات کی صورت میں کئی بار آتی ہے۔ مختصر دورانیے
کا یہ موسم ہماری سیاست اور سماج کے بہت سے منفی پہلو سامنے لے آتا ہے،
انتخابی مہم کی صورت میں، لیکن ایک اور بہت اہم مدعا یہاں یہ ہے کہ اس موسم
کے رسیلے پھل کا مزہ صرف وہی پارٹی اٹھا سکتی ہے جس کے پاس پیسہ ہو۔ یعنی
پھل رسیلا ضرور ہے لیکن منہگا بھی بہت ہے۔ اور اگر جیب میں مال ہے تو پھر
منہگے سستے کی فکر کسے! پاکستان میں حکومت اگرچہ اپنے وسائل کی کمی کا رونا
روتی رہتی ہے، لیکن ساتھ ہی یہاں کے سیاست دانوں کے پاس خدا کا دیا سب کچھ
ہے۔ سو انتخابات کے موسم کا پھل کھانے سب ہی تیار بیٹھے ہیں۔
الیکشن کے قوانین اور قواعدوضوابط کے تحت صوبائی اسمبلی کا امیدوار انتخابی
مہم پر دس لاکھ روپے اور قومی اسمبلی کا امیدوار پندرہ لاکھ روپے تک خرچ
کرنے کا مجاز ہے، لیکن انتخابی مہم شروع ہوتے ہی ہر پاکستانی کھلی آنکھوں
سے دیکھتا ہے کہ صوبائی و قومی اسمبلیوں اور سینیٹ کے امیدوار اپنی انتخابی
مہمات پر کروڑوں روپیہ بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ کھلم کھلا الیکشن قوانین کی
خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ پارٹی سے ٹکٹ کی خریداری سے لے کر اسمبلی میں پہنچنے
تک کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اسمبلیوں میں پہنچنے والے اراکین صاف صاف
کہتے ہیں کہ وہ زرِکثیر خرچ کر کے پارٹی سے ٹکٹ خریدتے ہیں، ووٹروں کو ووٹ
کی منہ مانگی قیمت دیتے ہیں، اور لوکل ایڈمنسٹریشن اور متعلقہ عملے کے
ذریعے جعلی ووٹ ہتھیانے پر بے تحاشا دولت خرچ کرتے ہیں۔ لہٰذا اپنی لگائی
ہوئی رقم پر منافع کمانا تو ان کا حق بنتا ہے۔ اس کاروباری ذہنیت کے ساتھ
چل کر الیکشن جیتنے والا امیدوار جب قانون ساز اسمبلی کے اندر داخل ہوتا ہے
تو روزِاول سے ہی اس کی نیت دولت کا حصول ہوتی ہے۔ یہ سب بے ضابطگی، بے
قاعدگی اور بدعنوانی نظام انتخابات چلانے کے ذمہ دار ’’الیکشن کمیشن‘‘ کے
سامنے ہوتی ہے، لیکن سیاسی دباؤ اور مقتدر شخصیات کے خوف کی وجہ سے قانون
نافذ کرنے والا یہ ذمہ دار ادارہ انتخابی دھاندلیوں پر خاموش تماشائی بن
جاتا ہے۔
ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ جس قومی آئینی ادارے الیکشن کمیشن کے جن قواعد
او وضوابط کی مالاجپی جاتی ہے، انہیں کوئی قانونی حیثیت حاصل ہے ہی نہیں۔
یہ ایسے ہی بنے ہیں کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے مل بیٹھ کر قوانین مرتب کرلیے
اور بس....ارے صاحب! ہمارے ہاں تو ان ضابطوں پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا جن
کو قانونی حیثیت حاصل ہے تو ان قوانین کو کیسے کوئی پوچھے گا جن کی کوئی
حیثیت ہی نہیں۔ اور پھر وہی جملہ جو اکثر آپ ہمارے کالم میں پڑھتے ہیں،
اندھیر نگری چوپٹ راج۔
الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق اسمبلی کے امیدوار کا، کسی قسم کے
دَھن، دھونس اور دھاندلی سے کسی ووٹر کو ہراساں کرنا اور زبردستی یا اُس کی
مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ووٹ حاصل کرنا ممنوع ہے، لیکن ناجائز سرمایہ،
جاگیرداری، پیری مریدی، عقیدہ، برادری اور نری بدمعاشی سے بے بس اور مجبور
ووٹروں سے ووٹ ہتھیانا معمول بن چکا ہے۔ پولنگ بوتھوں پر ہاتھا پائی، لڑائی
جھگڑا، فتنہ فساد کے علاوہ بعض دفعہ قتل و غارت گری کے واقعات بھی رونما
ہوتے ہیں۔ ووٹ کے بکسوں کو پہلے سے تیار کردہ ووٹوں سے بھرنا سیاست کاروں
کے بائیں ہاتھ کا چمتکار ہوتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسا کہ قانون
ساز اسمبلیوں کے امیدوار اپنے حلقۂ انتخاب میں ہزاروں لاکھوں جعلی شناختی
کارڈ اور بوگس ووٹ بناتے رہتے ہیں۔
انتخابی مہم ہماری سیاست اور سماج کا اصل چہرہ سامنے لے آتی ہے۔ عدم برداشت
کا رویہ، گالی گلوچ، ایک دوسرے پر نازیبا الزامات ان کا لازمی حصہ بن گیا
ہے۔
امیدوار، جیتنے کے لیے ہر حربہ اور ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا ہے۔ قواعد کے
خلاف انتخابی مہم میں تعصب کے نعرے لگائے جاتے ہیں، ذات برادری، قومیت،
زبان، علاقائی تعصب اور فرقے کی بنیاد پر لوگوں کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں۔
ایک دوسرے کے جلسوں جلوسوں، ریلیوں اور کیمپوں پر حملے کیے جاتے ہیں، جلسوں
کا ماحول خراب کیا جاتا ہے، پوسٹر اور جھنڈے پھاڑ دیے جاتے ہیں۔ طاقت ور
امیدوار اور گروہ مالی اور سماجی اعتبار سے کمزور امیدواروں کو ڈرا دھمکا
کر الیکشن سے باہر کردیتے ہیں یا ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن
کے قواعد اور آئین کی دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں، لیکن کسی امیدوار اور جماعت
کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس صورت حال کی ایک وجہ ہمارے یہاں موجود
جاگیردارانہ اور قبائلی سوچ ہے، جو ہر قیمت پر اپنی فتح چاہتی ہے۔
ہمارے یہاں جمہوریت کا تسلسل نہیں رہا، اس لیے جب بھی الیکشن ہوتا ہے ہر
جماعت اور امیدوار کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر قیمت پر کام یابی حاصل کی جائے
پتا نہیں پھر موقع ملے یا نہ ملے۔ جمہوری سوچ اکثریت کی رائے کے احترام کا
نام ہے، جمہوریت کے استحکام اور اس کا تسلسل برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے
کہ ہم ہار تسلیم کرنا جانتے ہوں۔ مگر ہم ہار کو ذلت سمجھتے ہیں، جو
غیرجمہوری رویہ ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ووٹر بھی تعصبات کا شکار ہوکر ایسی جماعتوں اور
امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں جو کھلے عام مخالفین کے خلاف غیراخلاقی زبان
استعمال کرتے ہیں اور جن کی طرف سے انتخابی مہم کے دوران ہر طرح کی دھونس
دھاندلی کی جاتی ہے۔ تبدیلی لانا ہے تو سب سے پہلے عام آدمی کو اپنا رویہ
بدلنا ہوگا، اور اسے صحیح غلط میں فرق کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ الیکشن کمیشن
کو اپنے قواعد وضوابط پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے
اور کسی بھی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر انتخابی قوانین کی خلاف ورزی پر فوری
ایکشن لینا ہوگا۔
ہم بات تو کرتے ہیں جمہوریت کی لیکن جب کہیں بھی انتخابات کا موسم آتا ہے
تو ہم اس جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لیے فوج کو آواز دیتے ہیں، آخر ایسا
کیوں ہے؟
اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ باربار مارشل لا کے نفاذ نے پاکستان میں
ووٹ کی حرمت کو بری طرح پامال کیا ہے۔ وردیوں کی طرح شیروانیوں نے بھی
جمہوریت اور پاکستانیوں کے حق رائے دہی پر کچھ کم ستم نہیں ڈھائے۔ سیاست
دانوں نے بہ طور حکم راں اپنے مخالفین کو کچلنے کی کوششیں کیں، تو حزب
اختلاف کی حیثیت میں انہوں نے برسراقتدار جماعت کی حکومت کے خاتمے کے لیے
ہر حربہ استعمال کیا اور اس جنون میں جمہوریت دشمن قوتوں کے آلہ کار بن
گئے۔ مگر اس سب کے باوجود جمہوریت کا متبادل کیا ہے؟ کیا آمریت؟ ہم ان
قوموں میں شامل ہیں جنہوں نے موجودہ زمانے میں طویل عرصے تک آمریت جھیلی
ہے۔
2018کے انتخابات گذشتہ الیکشنز سے مختلف پس منظر کے ساتھ اور الگ حالات میں
ہورہے ہیں۔ دوسری بار ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال پورے کیے ہیں، جس سے
ملک میں جمہوریت کے استحکام کا امکان پیدا ہوا ہے۔ آج ملک بہت نازک صورت
حال سے دوچار ہے۔ معیشت سے امن وامان تک تباہی کے مناظر پھیلے ہوئے ہیں۔
ریلوے اور پی آئی اے سمیت متعدد ادارے تقریباً تباہ ہوچکے ہیں۔ بجلی کی
لوڈشیڈنگ، گیس کے بحران اور منہگائی نے عام پاکستانی کی زندگی اجیرن کردی
ہے۔ ایسے میں ایک اچھی حکومت اور اہل منتخب نمائندے ہی حالات میں سدھار
لاسکتے ہیں۔ |