گوروں کے دیس میں - تیسر ی قسط

ہوٹل کی ریسپشن پرموجود ایک دبلی پتلی ،قدرے درمیانے قدو کاٹھ کی ایک نو عمر لڑکی سے ٹکراو ہوا۔ اپنے آنے کا مدعا بیان کیا تو بولیں جناب آپ تو وقت سے پہلے ہی پہنچ گئے۔برجستہ جواب دیا کہ جناب جلدی تو آپ کو لگ رہا ہے میں تو بہت خجل خوار ہو کے پہنچا ہوں۔مجھے لگا میرا جواب سن کر وہ تھوڑی ہمدردانہ ہو گئی ہے توبس اس سے پہلےکہ وہ اپنی ہمدردانہ سوچ بدلے فَٹ سے میں نے درخواست کی ،اگر ممکن ہو تو میرے کمرےکا انتظام وقت سے پہلے ہی کروا دیجیے ورنہ میں ادھر ریسپشن پر ہی سو جاوں گا کیونکہ میں بہت تھک چکا ہوں۔ پتہ نہیں میری دھمکی نے کام کیا یا میری حالت پے اُس نازک دل حسینہ کو رحم آگیا اور فورا سے پہلے میرے سامنے کمرے کی چابی رکھ دی۔ بولی جائیں جناب کیا یاد کریں گے آپ ہمارے معزز مہمان ہیں ۔بس باقی دن جب تک میں وہاں رہا وہ اچھی دوست بن گئی اورپھر اور بھی بہت ساری عنائتیں جتنا اس کے بس میں تھا کرتی رہی۔

لندن میں پہلا دن:
صبح کے تقریبا 11بج چکے تھے اور ابھی میرے پاس پورا دن پڑا تھا۔مغربی ممالک میں سیا حوں کے لئے ایک کشش یہ بھی ہوتی ہے کہ موسم گرما میں دن کافی لمبا ہوتا ہے اور شام تقریبا 9بجے کے قریب ہوتی ہے۔میرے پاس بھی کافی وقت تھا اس لئے فریش ہونے کے بعد تھوڑا آرام کیا اور ارادہ کیا کہ سنٹرل لندن کا ایک چکر لگا لیا جائے۔ الفورڈ سٹی ،سنٹرل لندن سے صرف 15منٹ کی مسافت پر ہے۔اور باآسانی زیر زمین میٹرو سے پہنچا جا سکتا ہے۔

ٹاور آف لندن:
سرکاری طور پراس کی عظمت شاہی محل اور تاریخی قلعہ کی ہیں۔ ٹاور آف لندن کا سرکاری نام شاہی محل یا قلعہ ہے۔ یہ قلعہ وسطی لندن میں دریائے ٹیمز کے شمالی کنارے پر واقع ہے جسے ولیم فاتح نے 1078 میں تعمیر کیا تھا۔ اس قلعے میں ایک سے زیادہ پیچیدہ عمارتیں ہیں۔ ٹاور آف لندن ایک مشہور سیاحتی مقام ہونےکے ساتھ ساتھ آسیبی قلعے کی حیثیت سے مشہور ہے۔ یہاں ماضی کی اذیتوں کی داستانیں دفن ہیں۔ٹاور آف لندن برطانیہ کا مشہور عقوبت خانہ، اذیت گاہ اور قید خانہ رہا ہے جہاں لوگوں کے سر قلم کئے گئے ہیں اور اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا ۔ صدیوں پرانےاس قلعے میں ایک وقت میں شاہی قیدیوں اور خطرناک جانوروں کو قید کیا جاتا تھا۔

میٹرو اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑوں نے بغل گیر کیا۔دریا کے کنارے ہونے کی وجہ سے ہوا میں تھوڑی خنکی تھی جو موسم کو اور بھی سہانا بنا رہی تھی۔ سیاح اس قلعہ کے سامنے سیلفیاں بنانے میں مصروف تھے۔ دریا کنارے کھڑے گورے اور گوریاں ہمتن محو گفتگو تھے ۔کسی کو کسی کی خبر نہیں اس دیار غیر میں سب ہی ایک دوسرے کے لئے غیر تھے۔ ایک جوڑے نے مجھے فارغ پا کر ایک تصویر بنانے کی درخواست کر دی۔فوٹو گرافی سے تو میری پرانی یاری ہے اس لئے دو تین اچھی سی تصویریں بنا دی۔ اور مجھے لگاتصاویر ان کی توقع سے زیادہ اچھی ا ٓ گئی تھی اس لئے بہت شکریہ ادا کیا اور روانہ ہو گئے اور میں پھر اکیلا رہ گیا تھا۔

اس تاریخی جگہ کی اپنی ہی کشش تھی میں ابھی اس سے لطف اندوز ہو ہی رہا تھا کہ میر ی نظر ایک کونے میں بیٹھے ایک شخص پر پڑی جو ہمہ تن گوش بیٹھا انتہائی دلکش انداز میں پیانو بجا رہا تھا۔لو گ اسے کچھ دیر کھڑے ہوکر سنتے، کچھ سکے اس کے سامنے رکھےایک چھوٹےسے برتن میں ڈالتے اور آگے نکل جاتے۔میں نے بھی کچھ دیر سننے کے بعد سخاوت کرنے کی ٹھانی اور جیب میں پڑے کچھ سکے اسکے سامنے ڈال دیے۔ لیکن یہ کیا وہ بجائے خوش ہونے کہ انتہائی ناگوار شکل بنا کر کچھ بڑبڑائے جا رہا تھا کہ جیسے کہہ رہا ہو کہ اتنا حاتم طائی بننے کی کیا ضرورت تھی۔ مجھے پاونڈز کا تو اندا زہ ہو گیا تھا لیکن سکوں کی پہچان کچھ زیادہ نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس کے تاثرات سے لگا کہ ان سکوں کی کچھ خاص وُقت نہ تھی۔
(جاری ہے)

Shakeel Ahmed
About the Author: Shakeel Ahmed Read More Articles by Shakeel Ahmed: 11 Articles with 17739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.